ڈرون حملے امریکا کو محفوظ بنارہے ہیں یا مزید مخدوش؟

ڈرون حملے امریکا کو محفوظ بنارہے ہیں یا مزید مخدوش؟
droneپاکستان پر ڈرون حملوں کا جوسلسلہ 18جون 2004ء کو خطے میں امریکا کے استعماری عزائم کے خلاف اٹھنے والی مزاحمتی تحریک کے لیڈر نیک محمد کو نشانہ بنائے جانے سے شروع ہوا تھا، وکی پیڈیا پر دستیاب اعداد وشمار کے مطابق 27 اکتوبر2010 تک ان کا اسکور186تک پہنچ چکا ہے اور 1866انسانی جانیں اس خوں آشام مشینی چمگادڑ کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔اس طرح ہر حملے میں اوسطاً دس افراد نشانہ بنے ہیں۔

2009ء میں اوباما انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان حملوں کا سلسلہ القاعدہ کے بیس بڑے لیڈروں کو نشانہ بنانے کے لیے شروع کیا گیا تھاجبکہ ان میں سے نو افراد کو ٹھکانے لگایا جاچکا ہے۔پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں ان بیس لیڈروں میں سے شاید چند مزید ختم ہوئے ہوں مگر یقینی طورپر مرنے والوں میں اس سے کہیں زیادہ یعنی 1800 سے اوپربے گناہ پاکستانی شہری ہیں ۔
ایک تحقیق کے مطابق ایک مطلوب فرد کے لیے بچوں اور عورتوں سمیت پچاس بے قصور پاکستانی اس سفاکی کا ہدف بنے ہیں۔
2007ء میں ان حملوں کی تعداد چار رہی مگر 2008ء سے ان میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس سال ڈرون حملوں کی تعداد 34رہی جو 2009 ء میں 53ہوگئی جبکہ سال رواں میں اب تک90 ڈرون حملے ہوچکے ہیں۔ان میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد752 ہے اور نہ جانے اختتام سال تک اس میں اور کتنا اضافہ ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اپنے ایک مخالف کو قتل کرنے کے لیے درجنوں بے گناہوں کی جان لے لینا کوئی جائز اور انسانی رویہ ہے ؟
ظاہر ہے کہ یہ خالص درندگی اور لاقانونیت ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ طریق جنگ بدترین بزدلی کا بھی آئینہ دار ہے۔ کسی بلند مقصد کے لیے جنگ کا رشتہ ہمیشہ شجاعت، خلوص اور ایثار کے اعلیٰ اوصاف سے جڑا ہوتا ہے۔ عظیم مقاصد کے لیے میدان جنگ میں اترنے والی طاقت اور اس کے سپاہی اس بلند مقصد کے لیے قربانی کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں ۔ لیکن ڈرون حملوں اور روبوٹ سپاہیوں جیسی ٹیکنالوجیوں نے جنگ کو ایک سفاکانہ ویڈیو گیم بنادیا ہے جسے خود غرض اور بے رحم سامراجی طاقتیں حرص و ہوس پر مبنی اپنے گھٹیا مقاصد کی تکمیل کے لیے انتہائی شقاوت کے ساتھ استعمال کررہی ہیں۔ ان کی سنگ دلی کا اندازہ اس طریق کار سے لگایا جاسکتا ہے جو ان ڈرون حملوں کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔
ڈرون حملوں کی اہداف کے تعین کے لیے ہمارے قبائلی علاقوں میں امریکی خفیہ ایجنسیاں کیا طریق کار اختیار کرتی ہیں؟ اس کا انکشاف گزشتہ سال ممتازامریکی ٹی وی چینل کی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ شمالی وزیرستان کے انیس سالہ حبیب الرحمن کے یہ الفاظ اس رپورٹ کی بنیاد ہیں…”مجھے ایک سو بائیس ڈالر، سگریٹ کے کاغذ میں لپٹی چپیں القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والوں کے گھروں میں پھینکنے کے لیے دیے گئے اور بتایا گیا کہ اگر میں کامیاب رہا تو ہزاروں ڈالر اور دیے جائیں گے۔میں نے سوچا کہ یہ تو بہت آسان کام ہے جبکہ رقم بہت زیادہ ہے، اس لیے میں نے ہر جگہ چپیں پھینکنی شروع کردیں۔میں جانتا تھا کہ جو کچھ میں کررہا ہوں اس کے نتیجے میں لوگ مررہے ہیں لیکن میں دولت کمانا چاہتا تھا۔“ امریکی ایجنسیوں کا آلہ کار بن جانے والے حبیب الرحمن کو طالبان نے گرفتار کرکے امریکا کے لیے جاسوسی کے الزام میں گولی مارکر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
مندرجہ بالاالفاظ اس نوجوان کے اعتراف پر مبنی ایک وڈیو کیسٹ کا حصہ ہیں جو طالبان کی جانب سے جاری کی گئی تھی ۔اس وڈیو کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈہ ہونے کا الزام لگایا جاسکتا ہے مگر یہ واقعاتی حقائق سے اس طرح ہم آہنگ ہے کہ یہ الزام بے وزن ہوجاتا ہے ۔
ڈرون حملوں کے اہداف کے تعین کے لیے اختیار کیے جانے والے جس اندھے بہرے طریق کار کی نشاندہی حبیب الرحمن کے الفاظ سے ہوتی ہے، واضح طور پر اسی کے باعث امریکی جاسوس طیاروں کی کارروائیاں قطعی بے گناہ پاکستانی شہریوں کا قتل عام کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ مگر خود امریکی عوام کو سوچنا چاہیے کہ کیا اس طرح ان کی قیادت کی طرف سے ان کی حفاظت کا بندوبست کیا جارہا ہے یا ان کے لیے امریکا ہی نہیں پوری دنیا میں سنگین خطرات کی فصل بوئی جارہی ہے جسے امریکی لیڈروں سے زیادہ امریکی عوام کو کاٹنا ہوگا؟
نارتھ کیرولینا اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسرمائیکل شوابے “When Drones Come Home to Roost” کے عنوان سے اپنے ایک تازہ ترین تجزیے میں واضح کرتے ہیں کہ القاعدہ کے چند افراد کے نام پر اس طرح بے گناہ مرنے والے جن ہزاروں لوگوں کے لاکھوں لواحقین کے دلوں میں انتقام کی آگ بھڑکائی جارہی ہے ان کے ردعمل کی صورت میں ان ڈرون حملوں کا خمیازہ پوری امریکی قوم کو نفرت، خوف اور عملی طور پر جانی و مالی نقصانات کی شکل میں بھگتنا ہوگا ۔ امریکی عوام کے بہترین مفاد میں ہے کہ وہ اس خیرخواہانہ انتباہ پر فوری توجہ دیں اور اپنے حکمرانوں کو ظلم سے روکیں تاکہ ان کے لیے ان کا ملک اور دنیا مزید مخدوش نہ بنے۔

ثروت جمال اصمعی
( بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں