دینی مدارس وعصری مدارس ….ایک تقابلی جائزہ

دینی مدارس وعصری مدارس ….ایک تقابلی جائزہ
darululoom-karachiکراچی کے ایک کالج میں ایف اے کا امتحان دینے کا اتفاق ہوا ۔امتحانی سینڑپہنچ کریہ فیصلہ نہ کرسکا کہ امتحان دینے آیاہوں یاکسی سیاسی جماعت کے دفتر میں آیاہوں وہاں ہر جانب ایک سیاسی جماعت کے جھنڈے لہرا رہے تھے اور کلاس رومز پر پارٹی کے قائدین کی تصاویر بنی ہوئیں تھیں ۔

امتحانی سینٹر کے گیٹ پر اس سیاسی جماعت کے کچھ افراد کھڑے تھے جوطلباءکی چیکنگ کررہے تھے اور قریب میں ہی ریڑھی کھڑی کر رکھی تھی جس میں طلباءسے برآمد شدہ خلاصے اور حل شدہ پرچہ جات ڈال رہے تھے جو تقریباً بھر چکی تھی ۔ہمنے یہ سن اوردیکھ رکھاتھا کہ سکول اور کالج کے امتحان میں بورڈ کی ٹیم چیکنگ کے لیے آتی ہے لیکن اس امتحان گاہ میں وہ سیاسی جماعت ہی بورڈ کی ٹیم کے فرائض سرانجام دے رہی تھی ار جس طالب علم سے نقل پکڑی جاتی اسے کلاس روم سے باہر نکال دیا جاتاتھا اور اس سے بھاری معاوضہ وصول کیا جاتا تھا ۔لیکن کچھ طلباءاس قانون سے مسثنیٰ علحیدہ کمرے میں سکون سے پرچے حل کرتے تھے جنہیںامتحانی اوقات سے پہلے امتحان گاہ میں داخل کردیا جاتاتھا ۔تمام پرچوں میں بورڈ کی ٹیم نہ آئی ۔یہ تو پرچوںکے ایام کی بات تھی امتحان کے بعد کے ایا م اس سے زیادہ خوشگوار ی تھے کیونکہ نتیجہ آنے میں تقریباً چھ ،سات مہینے انتظار کرنا پڑتاتھا او رنتیجہ باوجود نقل کرنے کے پھر بھی خراب آتاہے کئی طلباءامتحانات میں فیل ہوجاتے ہیں ۔
جب مدارس کے امتحانات کی طرف نظر دوڑاتے ہیںتو کچھ اور منظرہے ۔وفاق المدارس العربیہ کے تحت تین ،چار مرتبہ امتحان دینے کا موقع ملا تو امتحان کا نظم دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا ۔پر چہ حل کرنے کاوقت چار گھنٹے تھا جوں ہی وقت شروع ہوا پرچے تقسیم کردیئے گئے۔طلباءکرام کو مخصوص ترتیب اور فاصلے بٹھا یا گیا تھا اور طلباءکے درمیان مختلف درجات کو بٹھا یا گیا تھا جس سے ایک درجے کے طلباءکے درمیان فاصلہ اور بڑھ گیا تھا ۔اور امتحان گاہ میں بالکل خاموشی تھی اور نقل کاتصور ہی محال تھا ۔باہر کے کسی آدمی کا امتحان گاہ آنا بالکل ممنوع تھا ۔امتحان گاہ میں خاموشی کا یہ عالم تھا کہ قدموں کی آہٹ بھی سنائی دیتی تھی ۔
وفاق المدارس کے پرچے چیک کرنے کا طریقہ بھی بالکل علحیدہ ہے کہ پرچے چیک کرنے کے لیے پورے پاکستان سے منتخب شدہ اساتذہ کو مرکزی دفتر بلا لیا جاتاہے جہاں وہ قیامکرکے تقریبا دوہفتے میں پرچے چیک کرلیتے ہیں ۔کسی بھی استاد کو پرچے گھر میں چیکنگ کے لیے لے جانے کی بالکل اجازت نہیں ہوتی ۔روزانہ ایک استاد زیادہ سے زیادہ سو پرچے چیک کرسکتاہے او راسکے چیک کرنے کے بعد جب وہ پرچے نگران اعلیٰ کے پاس جاتے ہیں تو وہ ان میں سے کچھ پر چے دوبارہ دیکھتاہے ۔اگر کوئی خامی چیکنگ میں نظر آئے تو وہ نوٹس لیتاہے ۔اسی طرح اگر کسی ٹیچر کے بارے میں دوتین مرتبہ چیکنگ میں کوتاہی دیکھی جائے تو نگران اعلیٰ اسے فارغ بھی کردیتاہے ۔اور نتیجہ کا کیا کہنا کہ صرف ایک مہینے میں نتیجہ بھی تیار ہوجاتاہے ۔
ان دونو ں نظاموں کے درمیان تقابل سے مقصود س پروپیگنڈے کا ازالہ کرناہے جو مدارس کے بارے میں کیا جاتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ حقائق کو واضح کرناہے اور یہ بتلاناہے کہ جو حکمران مدارس کے نظام کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور مدارس میں جدیدیت کے دنگنے کی تجاویز دیتے ہیں انہیں اس بات کا احساس دلانا ہے کہ پہلے حکومتی اداروں کے نظام کو درست کرلو جن پر سالانہ اربوں کھربو روپے حکومت خرچ کرتی ہے پھر اسکے بعدمدارس کے نظام کے خلاف آواز اٹھاﺅ ´۔
الحمدللہ مدارس جن مقاصد کے علبردار ہیں ان کو کافی حدتک درستگی سرانجام دے رہے ہیں ۔باقی رہا عصری اداروں کا معاملہ وہ تو سب کے سامنے ہے کہ کبھی کالج کے طلباءٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کررہے ہوتے ہیں اور کبھی ٹیچرز کو باتھ روم میں بند کردیا جاتاہے ۔
اگر نظم کے ساتھ ساتھ نتائج کو بھی موازنہ کیا جائے تو نتائج میں بھی مدارس فوقیت کے حامل ہیں۔باقی رہا باطل وحکمرانون کا معاملہ تو وہ اول دن دے ہی مدارس پر اعتراض کرتے چلے آرہے ہیں لیکن اگر وہ مدارس کے نظام کا صحیح طریقے سے معائنہ کرلیں اور تعصب کی عینک اتار حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو انہیں خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ قابل اصلاح کون ہے ؟

مدثر فاروق
(بہ شکریہ ادارہ اردو پاور)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں