شہری ہلاکتیں زیادہ ہیں

شہری ہلاکتیں زیادہ ہیں
drone-attackرپورٹ(بی بی سی اردو ڈاٹ کام) جنگ زدہ علاقوں میں شہریوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری امریکی تنظیم نے کہا ہے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ لوگوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے جس کا امریکہ اعتراف کرتا ہے۔

تنظیم نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈرون حملوں کا قانونی جواز پیش کرے اور ان میں شہریوں کی اموات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تحقیقات بھی کرائے۔
یہ رپورٹ واشنگٹن میں قائم کمپین فار انوسینٹ وکٹمز ان کنفلکٹ یعنی جنگ کے بے گناہ متاثرین کے لیے مہم نامی غیرسرکاری تنظیم نے جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات اور شدت پسندی کے خلاف لڑائی میں شہریوں کو پہنچنے والے جانی و مالی نقصانات اور ان کے طویل المدت اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے اور لڑائی میں شامل فریقین یعنی شدت پسندوں، پاکستان اور امریکہ پر بے گناہ شہریوں کے تحفظ اور ان کے نقصانات کے مداوے کے لیے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری پابندیوں اور کئی علاقوں میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ شدت پسندی کے خلاف اس لڑائی میں اب تک کتنے عام شہری مارے جاچکے ہیں لیکن صرف پچھلے سال دہشتگردوں کے حملوں میں 2 ہزار تین سو عام لوگ مارے گئے جبکہ پاکستانی فوج کی کارروائیوں اور امریکی ڈرون طیاروں میں مرنے والے عام شہریوں کی تعداد افغانستان میں مرنے والے عام شہریوں سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ قبائلی علاقوں کے لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ڈرون طیارے نسبتاً کامیابی سے اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں لیکن وہ ان حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کی بناء پر ان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فاٹا کے لوگ شدت پسندو ں کے خلاف ڈرون حملوں کی حکمت عملی کی افادیت پر بھی سوال اٹھاتے ہیں اور ان کی اکثریت ان حملوں کے خلاف ہے اور ان کا فوری خاتمہ چاہتی ہے۔
رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ 2009ء کے بعد قبائلی علاقوں میں ہونے والے کم از کم نو حملوں کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ ان میں 30 عام شہری بھی مارے گئے۔
رپورٹ میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ڈرون حملوں میں جنگجوؤں اور غیرجنگجوؤں میں تمیز کو یقینی بنائے۔ اسکے علاوہ ان حملوں کا قانونی جواز پیش کرے اور ان میں شہریوں کی ہلاکتوں کے واقعات کی نہ صرف تحقیقات کروائے بلکہ ان کی ذمہ داری بھی قبول کرے۔
سوک نامی اس ادارے نے حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ آبادی والے علاقوں میں فضائی طاقت یا توپخانے کے استعمال سے گریز کرے اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں شہریوں کی ہلاکتوں کی بھی تحقیقات کرائے۔
یاد رہے کہ چند ہفتے پہلے امریکہ کے ایک اور غیرسرکاری تجزیاتی ادارے نیو امریکہ فاؤنڈیشن نے بھی ڈرون حملوں کے بارے میں ایک سروے رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ فاٹا کے تین چوتھائی باشندے ڈرون حملوں کے خلاف ہیں۔ ان میں سے صرف سولہ فیصد یہ سمجھتے ہیں کہ ان حملوں میں صرف شدت پسندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اڑتالیس فیصد لوگوں کے خیال میں عام شہری ان حملوں کا نشانہ بنتے ہیں جبکہ تینتیس فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ ان میں شدت پسند اور عام شہری دونوں نشانہ بنتے ہیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں