بیٹیاں اتنی ارزاں کیوں ہوتی ہیں؟

بیٹیاں اتنی ارزاں کیوں ہوتی ہیں؟
afiya00عافیہ کو 86برس قید سنادی گئی اور میانوالی سے طاہرہ آپا نے پوچھا ہے ”سر“ بیٹیاں اتنی ارزاں کیوں ہوتی ہیں : میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ جب نامراد موسموں کی بے توقیر ہوائیں چلتی ہیں تو ٹڈی دل کا پہلا حملہ حمیت کی کھیتیوں پر ہوتا ہے ۔ پھر ایک وبا پھوٹتی ہے جس کے زیر اثر رائے ساز، لکھاری اور دانشور باور کرانے لگتے ہیں کہ محکوم لوگوں کو اہل جبر کی بے مہریاں سرجھکا کر برداشت کرلینی چاہئیں کہ مقدر کا لکھا یہی ہے۔ پھر زرد رنگ کی ایک آندھی چلتی ہے اور اپنی تجوری میں ایٹم بم رکھنے والی کروڑوں کی قوم مکھیوں کی ایک بڑی سی ڈار میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔

انسانی آزادیوں، ہیومن رائٹس ، حقوق نسواں ، احترام آدمیت، قانون کی عملداری ، انصاف کی کار فرمائی اور جمہوریت کی سربلندی کے پرچم بردار امریکا کو اس سے شدید خطرہ تھا ۔ اپنے اسلحہ خانہ میں کم وبیش پندرہ ہزار ایٹمی ہتھیار رکھنے والی سپر پاور کو ڈر تھا کہ سات سال تک درندگی کی چکی میں پیسی جانے والی نحیف ونزارسی لڑکی آزاد کر دی گئی تو وہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی بنیادیں ہلاکے رکھ دے گی ۔ امریکی ریاست اور امریکی عوام کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ اسے مزید 86برس تک کسی کال کوٹھڑی میں ڈال دیا جائے ۔
”بیٹیاں اتنی ارزاں کیوں ہوتی ہیں“ میں طاہرہ اسلم کو کیا بتاؤں؟ حرف و بیان کی کون سی صنعت گری سے کام لوں ، تشبیہات، استعارات کی کون سی میناکاری کروں کہ طاہرہ اور اس جیسی لاکھوں کروڑوں پاکستانی بیٹیوں کی تسلی کا سامان ہو جائے ۔
عافیہ کی بہن فوزیہ کے دل میں بھی یقیناً طاہرہ والے سوال کی کسک کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہوگی ۔ اس بہادر بیٹی نے کیا کیا جتن نہیں کئے لیکن راکھ کے ڈھیرے میں کوئی توانا چنگاری نہ سلکی ۔ سلگی بھی تو شعلہ نہ بن سکی۔ ایسی چنگاریوں کو شعلہ بننے کے لئے غیرت وحمیت کی آکسیجن چاہئے جو اس آب و ہوا میں کمیاب ہوتی جارہی ہے ۔ جہاں قومی خودی کی نگہبانی فدویوں کے ہاتھ آجائے اور ریاستی انا کی پاسبانی خواجہ سراؤں کی ذمہ داری ٹھہرے وہاں بیٹیاں اسی طرح جنس ارزاں بن جایا کرتی ہیں ۔
وزیراعظم نے کس طمطراق سے کہا ۔ ”ہم نے قوم کی بیٹی کا مقدمہ لڑنے کے لئے بیس لاکھ ڈالر دیئے “۔ اچھا ہوتا وہ بتادیتے کہ یہ ڈالر کن فتنہ گر امریکی وکلاء کو دیئے گئے اور کاش وہ یہ انکشاف بھی کر ڈالتے کہ گیلانی صاحب ہی کی طرح اپنا شجرہ نسب سادات سے جوڑنے والے سیاہ رو ڈکٹیٹر نے خانوادہ صدیق اکبررضى الله عنه کی شہزادی کو کس بھاؤ امریکیوں کے ہاتھ فروخت کیا ؟ کتنے لاکھ ڈالر اس کے عوض وصول کئے ؟ اس نے اپنی کتاب میں خود بردہ فروشی کا اعتراف کیا ہے ”بڑے اعزاز و افتخار کے ساتھ لکھا ہے کہ سیکڑوں افراد امریکا کے حوالے کر کے ہم نے لاکھوں ڈالر وصول کئے ۔
نو سال پر محیط اس عہد نابکارمیں اگر اس ننگ قوم ڈکٹیٹر سے کوئی اور گناہ نہیں کیا تو اسے نمونہ عبرت بنانے کے لئے کیا یہی ایک جرم کم ہے کہ اس نے پاکستان کی ایک بیٹی امریکیوں کے حوالے کردی ؟ گارڈ آف آنر کسی صدر کو نصیب نہ ہوا۔ نہ فضل الٰہی چوہدری، نہ غلام اسحاق خان، نہ فاروق لغاری، نہ رفیق تارڑ، صرف اس نامراد شخص کے حصے میں آیا۔ جس نے پاکستان کی پیشانی پر دختر فروشی کا سیاہ داغ لگایا ۔
ملتان کا سید زادہ کہتا ہے کہ اس کا محاسبہ ”ڈوایبل“ (Doable) نہیں۔ اگر پہلے نہیں تو اب لازم ہے کہ اس شخص کو وطن واپس لاکر شکنجے میں کسا جائے اور پوچھا جائے کہ عافیہ کے معاملے کے اصل حقائق کیا ہیں ؟ لیکن ایسا کون کرے ؟ این آر او کے بجرے پر سوار اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والوں سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ امریکیوں سے کہیں گے کہ ”سب کچھ بجا ہماری بیٹی ہمیں واپس دے دو “۔ اقتدار کی لذتوں کو توشہ دوجہاں سمجھنے والے شکم پرست ، اس طرح کے رشتوں پر یقین نہیں رکھتے اور کوئی انہیں دیکھے جو آج ٹی وی چینلوں میں چہک اور مہک رہے ہیں ۔ جب عافیہ کو تین معصوم بچوں سمیت کراچی سے اٹھایا گیا اور پھر یہاں سرگرم امریکی گرگوں کے حوالے کردیا گیا تو یہ سب کے سب مشرف کے دربار میں جھومر ڈال رہے تھے اور چٹیل سر پر سیاہ چمکیلے گھنے بالوں والا چھتہ سجانے والا تو ناز کرتا تھا کہ اس کا شمار نورتنوں میں ہوتا ہے ۔ یہ واقعہ 30 مارچ 2003 کو پیش آیا ۔ اگلے دن قومی پریس اور پھر عالمی میڈیا نے تصدیق کردی ۔ اگلے پانچ برس عافیہ جانے کن عقوبت گاہوں کا رزق بنی رہی لیکن پورا قبیلہ قاف بہت سے دیگر فرزندان وقت کے ساتھ بردہ فروش کی بلائیں لیتا رہا۔ الطاف بھائی نے آج لندن سے کیا ایمان افروز بیان جاری کیا ہے ۔
”ہماری حکومت ہوتی تو امریکا اور نیٹو سے تعلقات ختم کردیتے ۔ سرجھکانے کے بجائے سرکٹانا پسند کروں گا ۔ چاہے میری برطانوی شہریت ختم کردی جائے “۔ بردہ فروشی کے اس مکروہ عہد میں الطاف حسین کی جماعت نہ صرف شریک حکومت تھی بلکہ اسے مشرف کے بازوئے شمشیر زن کا درجہ حاصل تھا ۔ آج بھی ان کی جماعت اس حکومت کا حصہ ہے جس نے کامل ڈھائی برس تک مجرمانہ تغافل سے کام لیا اور قومی جذبہ و احساس کی ترجمانی نہیں کر پائی ۔
الزام کیا ہے؟ یہ کہ عافیہ کو جولائی 2008 میں غزنی سے گرفتار کیا گیا ۔ ایک دن لمبے تڑنگے، بھینسا نما چھ امریکی کمانڈو حراست گاہ کے کمرے میں بھاری M-4 رائفلیں اٹھائے کھڑے تھے۔ اچانک پردے کے پیچھے سے عافیہ نکل آئی ۔ اس نے ایک فوجی کو قابو کر کے M-4 رائفل چھین لی ۔ فائر کردیا۔ گولی کسی کو نہیں لگی ۔ ”جوابی فائرنگ“ سے دو گولیاں عافیہ کے جسم میں اتر گئیں ۔ طبی امداد کے بعد اسے جان کنی کے اسی عالم میں امریکا پہنچادیا گیا ۔ یاد رہے کہ برطانوی خاتون صحافی ایوان ریڈلی پہلے ہی انکشاف کر چکی تھی کہ عافیہ بگرام کے امریکی عقوبت خانے میں ہے ۔
مقدمہ چلا ۔ کوئی ایک بھی الزام ثابت نہ ہوا ۔ رائفل پر عافیہ کی انگلیوں کے نشان نہ ملے ۔ گن پاؤڈر کے آثار نہ پائے گئے ۔ چلنے والی گولی کا سراغ نہ ملا ۔ فرش پر دیواروں پر اس کا نشان نہ پایا گیا ۔ لیکن امریکی انصاف کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ 86 برس قید ۔!! طاہرہ کو کون بتائے کہ لاوارث بیٹیاں اسی بھاؤ بکتی ہیں۔ شاید اسے معلوم نہ ہو کہ نیلی آنکھوں، شہابی گالوں اور سنہری بالوں والی کتنی ہی افغان بیٹیاں امریکا کے بازاروں کا رزق ہوچکی ہیں ۔
میں ماننے کے لئے تیار نہیں کہ مشرف یا موجودہ حکمران پوری سنجیدگی کے ساتھ اعلیٰ ترین ریاستی سطح پر یہ معاملہ اٹھاتے تو امریکا عافیہ ہمارے حوالے نہ کردیتا ۔ جون 2010 میں چترال کے جنگلوں سے ایک امریکی ، گیری فاکنر اسلحہ سمیت گرفتار ہوا اور اعتراف کیا کہ وہ ”خدا کے حکم پر“ اسامہ کو قتل کرنے یہاں آیا ہے ۔ حکومت میں دم خم ہوتا تو وہ پاکستانی قوانین کے تحت گیری فاکنرپر کڑا مقدمہ بناتی اور پھر امریکیوں سے کہتی۔“ عافیہ دے دو ، گیری فاکنر لے جاؤ “۔ میں نے 20 جون 2010کو اس مضمون کا کالم بھی لکھا تھا لیکن کوئی سننے والا بھی تو ہو ۔ چار دن بعد شاہانہ اعزاز کے ساتھ گیری فاکنرامریکی سفارتخانے پہنچادیا گیا جہاں سے وہ واپس امریکا پرواز کر گیا ۔
طاہرہ کو کیسے سمجھاؤں کہ جب خزاں کی رت عام ہوجائے اور چمن کی نگہبانی آکاس بیلوں کے رحم وکرم پر ہو تو یہ رنگوں ، خوشبوؤں اور تتلیوں کی مرگ کا موسم ہوتا ہے۔ایسے موسموں میں بیٹیوں ہی کا نہیں ہر اس جنس کا بھاؤ گر جاتا ہے جس کا تعلق غیرت و حمیت سے ہوا اور جس کا رشتہ قومی انا سے جڑتا ہو ۔

عرفان صدیقی
(بہ شکریہ اداریہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں