رمضان کیوں آیا ہے؟

رمضان کیوں آیا ہے؟
ramadan3اسلام سے باہر نظر دوڑا کر دیکهۓ تو محسوس ہوگا  کہ دنیا بهر کے فکری نظام کلیۃ انسان کے دماغ کو مخاطب کرتے ہیں، اور مذہب و تصوف خالصۃ اس کے دل کو. ان دونوں میں سے ہر ایک کی الگ الگ بادشاہت ہے جس پر وہ بلا شرکت غیرے حکمرانی کرتے ہیں، اور یہ دو بادشاہ نہ صرف یہ کہ ایک “اقلیم” میں نہیں سماتے، بلکہ بسا اوقات ایک دوسرے سے بر سر پیکار نظر آتے ہیں. لیکن اسلام بیک وقت انسان کے دل اور دماغ دونوں سے اس طرح خطاب کرتا ہے کہ ان کے درمیان کوئی رسّہ کشی پیدا نہیں ہوتی جو انہیں ایک دوسرے کے مدّ مقابل کهڑا کردے. اس کے بجا‎ۓ ابتداءً یہ دونوں اپنی اپنی حدود متعین کرکے ساتهـ ساتهـ چلتے ہیں، اور بلآخر ایک دوسرے میں گهل مل کر اس طرح شیر و شکر ہوجاتے ہیں جیسے دو دریاؤں کا سنگهم ایک حد پر جاکر دونوں کو یک جان کردیتا ہے. یہ وہ مرحلہ ہے جہاں دل کو “عشق و محبت” کے ساتهـ “سوچنا سمجهنا” بهی آجاتا ہے، اور دماغ میں “سوچنے سمجهنے” کے ساتهـ “عشق و محبت” کی صلاحیت بهی پیدا ہوجاتی ہے.

اس لطیف حقیقت کو پیش نظر رکهتے ہوے جسکی لطافت بیان سے زیاده ادراک میں ہے اگر انسان قرآن کریم کی ان آیات پر غور کرے جن میں “سوچنے سمجهنے” کو دماغ کے بجا‎ۓ “قلوب” کی صفت قرار دیا گیا ہے تو اس کلام الهی کے اعجاز کے آگے فصاحت و بلاغت کی پوری کائنات سجده ریز نظر آتی ہے، الله اکبر!
مختصر یہ کہ اسلام کی تعلیمات عقل اور عشق کا ایک ایسا حسین آمیزه ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک عنصر کو بهی ختم کردیا جا‎ۓ تو اس کا سارا حسن ختم ہوجا تا ہے. اگر عقائد و عبادات کا نظام عقل سے بالکلیہ آزاد ہوجا‎ۓ تو کوئی توہم پرست یا دیومالائی مذہب وجود میں آجاتا ہے، اور اگر عقل کو وحی پر مبنی عقائد و عبادات سے آزاد کردیا جا‎ۓ تو وه کسی ایسے خشک سیکولر نظر‎یۓ کو جنم دیکر رک جاتی ہے جو مادّے کے اس پار دیکهنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے. نتیجہ دونوں صورتوں میں محرومی ہے، کہیں جسم کے جائزه تقاضوں سے، کہیں روح کے حقیقی مطالبات سے.
جب سے سیکولرزم کے مقابلے کی ضرورت کے تحت اسلام کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی تعلیمات پر ہمارے عهد کے مفکرین اور اہل قلم نے زیاده زور دینا شروع کیا ہے، اس وقت سے بعض حضرات نے شعوری یا غیر شعوری طور پر عقائد و عبادات کو پس منظر میں ڈال کر انہیں ثانوی حیثیت دیدی ہے، اور انہیں وہ اہمیت دینا چهوڑدیا ہے جو فی الواقعہ انہیں حاصل ہے. اسکا نتیجہ یہ ہے کہ انسان ایک “معاشی جانور” (Economic animal) ہوکر رہ گیا ہے، اور اس کی ساری دوڑ دهوپ اس جسم کو پالنے پوسنے کی حد تک محدود ہے جو ایک نہ ایک دن مٹی میں مل جانے والا ہے. اسے روحانی ترقی کے ان مدارج کی کوئی فکر نہیں جو در حقیقت انسان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتے ہیں، اور جنکی بدولت وہ مٹی میں ملنے کے باوجود بهی زندۂ جاوید رہتا ہے.
جو لوگ مادی منافع اور نفسانی لذتوں ہی کو اپنا سب کچهـ سمجهتے ہیں، ذرا ان کی اندرونی زندگی میں جهانک کر دیکهۓ، وه راحت و آرام کے سارے اسباب و وسائل اپنے پاس رکهنے کے باوجود “سکون قلب” کی دولت سے کتنے محروم ہیں؟ اس لۓ کہ انہوں  نے اپنے گرد و پیش میں جو دنیا بنائی ہے، وہ چاہے دنیا کے سارے خزانے لاکر ان کی قدموں ڈهیر کرسکتی ہو، لیکن قلب کو سکون اور ورح کو قرار بخشنا اس کے بس کی بات نہیں، یہ خدا نا آشنا زندگی کا لازمی خاصہ ہے، کہ اس کے شیدائی ایک انجانی سی بے قراری کا شکار رہتے ہیں. اس بے قراری کا ایک کرب انگیز پہلو یہ ہے کہ انہیں یہ بهی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بےقرار کیوں ہیں؟ وہ ہمہ وقت اپنے دل میں ایک نامعلوم اضطراب اور پراسرار کسک محسوس کرتے ہیں. لیکن یہ اضطراب کیوں ہیں؟ کس لۓ؟ وہ نہیں جانتے.
انسان اس کائنات کا خالق و مالک نہیں، وہ کسی کی مخلوق ہے. اس کا مقصد زندگی ہی یہ ہے کہ وہ کسی کی بندگی کرے. اس لۓ اس کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ وہ کسی لافانی ہستی کے آگے سرنگوں ہو، اس کی عظمتوں پر اپنے عجز و نیاز کی پونجی نچهاور کرے، مصائب میں اس کے نام کا سہارا لے، اسے مدد کے لۓ پکارے، اور زندگی کے مشکل ترین لمحات میں اسکی توفیق سے رہنمائی حاصل کرے. آج کی ماده پرست زندگی اسے خواہ دنیا کی ساری نعمتیں عطا کرسکتی ہو، لیکن اس کی اس فطری خواہش کی تسکین نہیں کرسکتی. انسان کی یہ فطرت بعض اوقات نفسانی خواہشات کے انبار میں دب تو جاتی ہے، لیکن مٹتی نہیں، اور یہی وہ چہپی ہوئی فطری خواہش ہے جو اسے کیف ونشاط کے سارے وسائل مل جانے کے باوجود آرام نہیں لینے دیتی، اور بعض اوقات اسکی زندگی کو اجیرن بناکر چهوڑتی ہے:
یوں زندگی گذار رہا ہوں  ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کۓ جارہا ہوں میں
اسلام کی تعلیمات میں “عبادات” کا شعبه اسی مقصد کے لۓ رکها گیا ہے کہ اگر ان پر ٹهیک ٹهیک عمل کرلیا جاۓ تو عبادات کے یہ طریقے انسان کی روح کو حقیقی غذا فراہم کرکے اللہ تعالی کے ساتهـ اس کے رشتے کو مضبوط اور مستحکم بناتے ہیں. اور جسم و روح کے تقاضوں میں توازن پیدا کرکے انسان کو ایک ایسے نقطۂ اعتدال (Equilibrium) تک پہنچاتے ہیں جو در حقیقت سکون و اطمینان کا دوسرا نام ہے، قرآن کریم کا ارشاد ہے:
«الا بذکر الله تطمئن القلوب»
یاد رکهو! الله ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے.
رمضان کا مقدس مہینہ ہر سال اس لۓ آتا ہے کہ سال کے گیارہ مہینے انسان اپنی مادی مصروفیات میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ وہی مصروفیات اسکی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں، اور اس کے دل پر روحانی اعمال سے غفلت کے پردے پڑنے لگتے ہیں. عام دنوں کا حال یہ ہے کہ چوبیس گهنٹے کی مصروفیات میں خالص عبادتوں کا حصہ عموما بہت کم ہوتا ہے، اور اس طرح انسان اپنے روحانی سفر میں جسمانی سفر کی به نسبت پیچهے رہ جاتا ہے. رمضان کا مہینہ اس لۓ رکها گیا ہے کہ اس مبارک مہینے میں وہ جسمانی غذا کی مقدار کم کرکے روحانی غذا میں اضافہ کردے اور اپنے جسمانی سفر کی رفتار ذرا دهیمی کرکے روحانی سفر کی رفتار بڑهادے، اور ایک مرتبہ پهر دنوں کا توازن درست کرکے اس نقطہ اعتدال پر آجاۓ جو اس زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے. اور اگر ذرا غور سے دیکہیں تو اسی نقطہ اعتدال پر پہنچے کی مسرت ہے جس کا جشن “عید الفطر” کی صورت میں مقرر کسا گیا ہے.
لہذا رمضان المبارک صرف روزے اور تراویح ہی کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کا صحیح فائده اٹهانے کے لۓ ضروری ہے کہ انسان اس مہینے میں نفلی عبادات کی طرف بهی خصوصی توجه دے، اور کسی کی حق تلفی کۓ بغیر اگر اپنے اوقات کو مادی مصروفیات سے فارغ کرسکتا ہے، تو انہیں فارغ کرکے زیاده سے نوافل، تلاوت اور ذکر و تسبح میں صرف کرے.
“کسی کی حق تلفی کۓ بغیر” میں نے اس لۓ کہا کہ اگر کوئی شخص کہیں ملازم ہے تو ڈیوٹی کے اوقات میں اپنے فرائض منصبی چهوڑکر نفلی عبادات میں مشغول ہونا شرعا جائز نہیں. البتہ اگر اس کے پاس اپنے فرائض منصبی سے متعلق کوئی کام نہیں ہے اور وہ خالی بیٹها ہوا ہے تو بات دوسری ہے.
لیکن کسی کی حق تلفی کۓ بغیر بهی رمضان میں اپنی مادی مصروفیات ہر شخص کچهـ نہ کچهـ ضرور کم کرسکتا ہے. اور اپنے آپ کو ایسے مشاغل سے فارغ کرسکتا ہے جو یا تو غیر ضروری ہیں، یا انہیں مؤخر کیا جاسکتا ہے. اس طرح جو وقت ملے اسے نفلی عبادتوں، ذکر اور دعا میں صرف کرنا چاہۓ.
اس کے علاوه جو بات سب سے زیاده اہمیت رکہتی ہے وه یہ ہے کہ رمضان کے دن میں انسان جب روزے کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ کهانا پینا چهوڑ دیتا ہے، یعنی الله تعالی کی بندگی کے تقاضے سے وہ چیزیں ترک کردیتا ہے جو عام حالات میں اس کے لۓ حلال تهیں. اب یہ کتنی ستم ظریفی کی بات ہوگی کہ انسان روزے کے تقاضے سے حلال کام تو ترک کردے، لیکن وه کام بدستور کرتا رہے جو عام حالات میں بهی حرام ہیں. لہذا اگر کهانا پینا چهوڑدیا، مگر جهوٹ، غیبت، دلآزاری، رشوت ستانی و غیره جو ہر حالت میں حرام کام تهے، وہ نہ چهوڑے تو اندازه کیا جاسکتا ہے کہ ایسا روزہ انسان کی روحانی ترقی میں کتنا مددگار ہوسکتا ہے؟
لہذا رمضان المبارک میں سب سے زیاده اہتمام اس بات کا ہونا چاہۓ کہ آنکهـ، زبان، کان اور جسم کے تمام اعضاء ہر طرح کے گناہوں سے محفوظ رہیں، اپنے آپ کو اس بات کا عادی بنایا جاۓ کہ کوئی قدم الله تعالی کی نافرمانی میں نہ اٹهے.
رمضان کو آنحضرت  صلی الله علیه وسلم نے “ایک دوسرے کی غمخواری کا مہینہ” قرار دیا ہے.
اس مہینے میں آپ صلی الله علیه وسلم صدقہ و خیرات بہی بہت کثرت سے کیا کرتے تے، اس لۓ رمضان میں ہمیں بهی صدقہ و خیرات، دوسروں کی ہمدردی اور ایک دوسرے کی معاونت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہۓ.
یہ صلح و صفائی کا مہینہ ہے، لہذا اس میں جهگڑوں سے اجتناب کا بہی خاص حکم دیا گیا ہے. آنحضرت صلی الله علیه وسلم کا ارشاد ہے کہ “اگر کوئی شخص تم سے لڑائی کرنا چاہے تو اس سے کہدو کہ میں روزے سے ہوں”.
خلاصہ یہ ہے کہ رمضان صرف سحری اور افطاری کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک تربیتی کورس ہے جس سے ہر سال مسلمانوں کو گذار جاتا ہے. اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا تعلق اپنے خالق و مالک کے ساتهـ مضبوط ہو، اسے ہر معاملے میں الله تعالی سے رجوع کرنے کی عادت پڑے، وہ ریاضت اور مجاہدہ کے ذریعے اپنے اخلاق رذیلہ کو کچلے، اور اعلی اوصاف و اخلاق اپنے اندر پیدا کرے. اس کے اندر نیکیوں کا شوق اور گناہوں سے پرہیز کا جذبہ بیدار ہو، اس کے دل میں خوف خدا اور فکر آخرت کی شمع روشن ہو جو اسے رات کی تاریکی اور جنگل کے ویرانے میں بهی غلط کاریوں سے محفوظ رکهـ سکے. اسی کا نام “تقوی” ہے، اور قرآن کریم نے اسی کو روزوں کا اصل مقصد قرار دیا ہے، ارشاد ہے:
«یا أیها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون»
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کۓ گۓ ہیں، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کۓ گۓ تهے، تا کہ تم میں تقوی پیدا ہو.
جو شخص “تقوی” کے اس تربیتی کورس سے ٹهیک ٹهیک گذر جاۓ، اس کے بارے میں آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے یہ خوشخبری عطا فرمائی ہے کہ «جس شخص کا رمضان سلامتی سے گذر جاۓ اس کا پورا سال سلامتی سے گذرے گا».
اس سے معلوم ہوا کہ رمضان ہمیں سال بهر کی سلامتی سے ہمکنار کرنے کے لۓ آیا ہے، بشرطیکہ ہم سلامتی چاہتے ہوں، اور یہ سلامتی حاصل کرنے کے لۓ اس ماہِ مقدس کا استقبال اور اکرام و اعزاز کرسکیں. الله تعالی ہمیں اس کی توفیق دے. آمین.

2/ رمضان/ 1414
مفتی محمد تقی عثمانی

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں