کیا بلوچستان ہمارے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے؟؟؟

کیا بلوچستان ہمارے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے؟؟؟
balochistan-mapکوئٹہ:…کوئی بھی ایسا شخص جس نے کچھ عرصے سے کوئٹہ شہر نہیں دیکھا ، اسے یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اب یہ شہر ”بھوتوں کا شہر“ بن چکا ہے ۔ سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی ، اس زندہ شب بیدار شہر کا آدھا حصہ نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے جبکہ بقیہ نصف حصہ صرف ایک پٹاخے کی آواز سن کر ہی لرز جاتا ہے ۔

کوئٹہ کسی زمانے میں برٹش راج کا گیریژن تھا جو اپنے ثقافتی تنوع اور جاگتی راتوں کے لئے مشہور تھا لیکن اب یہی شہر لسانی، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوچکا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ وردی میں ملبوس ہیں یا نہیں !! ۔ شہر کا ایک تہائی حصہ نوگوایریا میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ جو 1980 کے کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ خوفناک ہو چکا ہے ۔ ایک غیر بلوچ کبھی سریاب روڈ اور رباب کرم روڈ سے دن کی روشنی میں بھی گزرنے کی ہمت نہیں کرے گا ۔ اسپنی روڈ اور سمنگلی روڈ بھی کچھ کم خطرناک نہیں جہاں علاقے کے مسلح نوجوان پتلون پہننے والے کسی بھی شخص کے علاوہ اس کو بھی اپنا نشانہ بنا ڈالتے ہیں جو حلیے بشرے سے غیر مقامی لگتا ہے۔ مقامی پولیس بڑا خطرہ مول لے کر ان علاقوں میں داخل ہونے کی ہمت کرپاتی ہے ۔
بعض اوقات تو فرنٹیئر کور کے گشت کرنے والے جوانوں کو بھی حملوں کا نشانہ بنادیا جاتا ہے ۔ یہ راستہ بولان میڈیکل کالج تک چلا گیا ہے جسے گولیمار کا بامعنی نام دیا گیا ہے جہاں ایک سے زائد بار دستی بموں سے حملہ ہوچکا ہے ۔ جہاں تک مضافاتی علاقوں کا تعلق ہے تو کوئٹہ سے 16 کلو میٹر کے فاصلے پر ہزار گنج بس اسٹینڈ پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا ہے ۔ مشرقی سمت بھی یہی صورتحال ہے ۔ تاہم کوئٹہ کنٹونمنٹ میں زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں جہاں چوبیس گھنٹے مسلح سپاہی سخت پہرہ دینے میں مصروف رہتے ہیں لیکن ایک عام شہری کو انتہا پسند قوم پرستوں، علیحدگی پسندوں ، مذہبی جنونیوں ، اسمگلروں، منشیات کے تاجروں اور لینڈ مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ چنانچہ اس صورتحال کو دیکھ کر مقامی افراد نسبتاً محفوظ پشتون علاقوں نواں کلی اور سرگ ہردی کی طرف منتقل ہو رہے ہیں ۔ پنجابی آباد کار جو گزشتہ کئی نسلوں سے کوئٹہ میں آباد ہیں انہیں دوسرے صوبوں میں نقل مکانی کے لئے مجبور کیا جارہا ہے ۔ بعض اوقات تو یہ لوگ اپنی جائیداد کوڑی کے مول فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
ڈاکٹر فیض رحمن کا کہنا ہے ”ایسا لگتا ہے جیسے حکومت نے بلوچستان سے اپنے ہاتھ اٹھالیے ہیں“۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کو گڑبڑ والے علاقوں میں کام کرنے سے روکا جارہا ہے ۔ ڈاکٹر یوسف ناصر جو کوئٹہ کے ایک مشہور سرجن اور وفاقی وزیر یعقوب ناصر کے بھائی تھے انہیں گھات لگاکر قتل کردیا گیا ۔ ایک اور سرجن چراغ حسن کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں کہ وہ شہر چھوڑ کر چلے جائیں ۔ ہر کوئی یہاں سے نکل جانے کا خواہشمند نظر آتا ہے ۔ سیکورٹی آفیشلز ہٹ لسٹ میں سب سے اوپر ہیں ۔ ایک ہزار چھ سو سرکاری ملازم طویل رخصت کی درخواست دے چکے ہیں جبکہ بعض نے دوسرے صوبوں میں تبادلے کی درخواست دے رکھی ہے ۔ اس نوعیت کے مشکل حالات میں کوئٹہ شہر میں کوئی قابل ذکر سیاست داں نظر نہیں آتا ۔ خیر بخش مری کراچی میں ہیں ۔ عطاء اللہ مینگل وڈھ میں ہیں ۔ اختر مینگل دبئی میں ۔ حاصل بزنجو کراچی میں ہیں ۔ محمود خان اچکزئی کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے باہر ہیں اور کب واپس آئیں گے اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ چنانچہ بلوچستان کے بیشتر وہ سیاست داں جو ٹیلیویژن، ٹاک شوز پر بڑے زور وشور سے بلوچستان کے بارے میں دل کھول کر بیان دیتے ہیں وہ سب کے سب اسلام آباد، کراچی ، لندن اور امریکا میں مقیم ہیں ۔
ایک طرف بلوچستان کا صوبہ آگ کے شعلوں میں گھرا ہے ۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کے اسٹاف کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ کئی دنوں سے دبئی میں ہیں اور وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ ان کی واپسی کب ہوگی ۔ بہرحال انہیں جزوقتی وزیراعلیٰ کہنا زیادہ صحیح ہوگاکیونکہ وہ نصف مہینہ دبئی اور اسلام آباد میں گزارتے ہیں اور کبھی دستیاب نہیں ہوتے۔ فوجی ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کا بیٹا فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ چونکہ اسلم رئیسانی سارا وان قبیلے کے سربراہ ہیں چنانچہ انہوں نے سیاسی لیڈر شپ اور فوجی مداخلت کے ذریعے اعلیٰ سطح پر بات کی اور اپنے بیٹے کو بچانے میں کامیاب ہوگئے ۔
ان دنوں کوئٹہ میں اوسطاً کم از کم دو افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔ گزشتہ دس ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین سو ستر افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد چھ سو کے لگ بھگ ہے۔ اسلام آباد کو صرف اس وقت ہی ہوش آتا ہے جب بلوچستان میں حبیب جالب جیسی اعلیٰ سطح کی سیاسی شخصیت کو قتل کردیا جاتا ہے ۔حبیب جالب کے قتل کے ساتھ ساتھ دو اور بلوچ قوم پرست لیڈروں یعنی مولا بخش دستی اور لیاقت مینگل کو بھی پراسرار حالات میں قتل کردیا گیا تھا ۔ جہوری وطن پارٹی کے سیکریٹری جنرل رؤف خان ساسولی کا کہنا ہے کہ قتل کی ان وارداتوں میں مشترک بات یہ ہے کہ یہ تینوں لیڈر درمیانہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے جو علیحدگی پسندوں کے سخت مخالف اور بلوچ کاز کے شدید حامی تھے اور پاکستان کے وفاق کے اندر ہی رہنے کے خواہشمند تھے ۔

بلوچستان سے عامر متین کی خصوصی رپورٹ
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں