بوسنیا سے کشمیر تک!!

بوسنیا سے کشمیر تک!!
bosnia-genocide11 جولائی کو سرب فوج کے ہاتھوں 8ہزار مسلمانوں کے قتل عام کے 15 سال مکمل ہوئے۔ جولائی 1995ء میں شہید ہونے والے ان آٹھ ہزار بوسنیائی مسلمانوں کی یاد میں خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ مظالم کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں۔ احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ سیمینار اور ورکشاپ منعقد کی گئیں۔ شناخت کی گئیں 775 لاشوں کی تدفین بھی کی گئی۔ تدفین میں لاکھوں افراد اور ہزاروں مختلف ممالک کے نمایندوں نے شرکت کی۔ یہ تدفین جس قبرستان میں ہوئی اس میں اسی سانحے میں شہید ہونے والے 3749 مسلمان پہلے ہی سے مدفون ہیں۔ اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ اس موقع پر آٹھ ہزار شہدا کے ورثا بھی موجود تھے۔ اس میں کسی کا والد تھا تو کسی کا بیٹا، کسی کی بہن تھی تو کسی کی بیٹی۔ کسی کی بیوی تھی تو کسی کی ماں۔ کسی کا دادا تھا تو کسی کا پوتا۔ کسی کا نواسا تھا کسی کی نواسی۔ سرب افواج کے ہاتھوں بے دردی سے شہید ہونے والے ان سیکڑوں مسلمانوں کی تدفین میں شریک اور ذرائع ابلاغ پر یہ مناظر دیکھنے والوں کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔

قارئین! پس منظر کے طورپر یاد رہے 1997ء میں میلاسووچ کے حکم سے سرب درندے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے۔ میلاسووچ کے حکم پر صرف کوسوو میں اڑھائی لاکھ مسلمان شہید کیے گئے۔ کوئی ایسا قصبہ اور شہر نہ بچا جس میں دو دو، تین تین ہزار مسلمانوں کی اجتماعی قبریں نہ بنی ہوں۔ اب تک ان اجتماعی قبروں کی تعداد تو صحیح طور پر معلوم نہیں ہوسکی ہیں جن میں ہزاروں لاشیں پڑی ہیں۔ ان لاشوں کا شمار بھی نہیں ہوسکا ہے جن کو زندہ جلادیا گیا یا جن کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے گئے۔ البتہ کچھ عرصہ قبل ایک ایسی اجتماعی قبر دریافت کی گئی جس میں 600 سے زائد افراد دفن ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ”کالی چوٹی“ نامی اس علاقے میں مزید سروے سے معلوم ہوا دو کلومیٹر کے اندر اندر 16 اجتماعی قبریں موجود ہیں۔ اس رپورٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کرنے اور پھر ان کی لاشوں کو ”ٹھکانے“ لگانے کے لیے کس قدر منظم کارروائی کی گئی ہوگی؟ انہیں قبروں میں ایسے ڈھانچے بھی ملے ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا ان کی عمریں 2 سے 12 سال تک تھی اور ساتھ ہی خواتین کے ڈھانچے بھی ملے جن کے بارے میں یقین ہے یہ ان بچوں کی وہ بدنصیب مائیں ہوں گی جنہوں نے اپنے جگرگوشوں کو آخری وقت تک اپنے سینوں سے چمٹائے رکھا ہوگا۔
سربوں خصوصاً میلاسووچ اور میلان بابک کے مظالم پر اخبارات نے لکھا تھا: ”یہ یورپ کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماعی قتل ہے۔“ استعماری عزائم رکھنے والی قوتوں نے یہ مظالم تو 1995ء میں کیے تھے۔ اس وقت عالمی ضمیر جاگنے کے بعد اُمید ہوچلی تھی شاید اب دنیا میں خصوصاً مسلمانوں پر کہیں بھی ایسا اجتماعی ظلم نہ ہوگا۔ اس وقت ایسی اسٹوریز شائع ہوئی تھیں کہ پتھر سے پتھر دل بھی موم ہوجائے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد امریکی سامراج نائن الیون کا ڈرامہ رچاکر افغانوں پر چڑھ دوڑا۔ امریکا کے B-52 طیاروں نے افغان عوام کے گھروں، مساجد ومدارس، ہسپتالوں، مقدس درسگاہوں، کھیتوں کھلیانوں حتیٰ کہ مویشیوں اور شادی بیاہ کی تقریبات پر بھی اندھا دھند بمباری کی۔ ڈرون طیارے کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں دودھ پیتے بچے اور دُعائیں مانگتے بوڑھے بھی زخمی اور شہید ہوگئے۔
2001ء سے اب تک کوئی 6 لاکھ افغان شہید ہوئے ہیں۔ سرد جنگ سے لے کر طالبان حکومت خاتمے تک اور امریکا طالبان گوریلا جنگ سے لے کر آج تک مجموعی طورپر 19 سے 27 لاکھ کے درمیان افراد شہید ہوچکے ہیں۔ افغان سرزمین کا چپہ چپہ خون شہیداں سے لبریز ہے۔ بیوگان ہیں۔ 50 لاکھ بچے لاوارث ہیں۔ لاکھوں اس جنگ میں معذور ہوئے ہیں۔ گلی گلی بھکاریوں سے اٹ گئی ہے۔ خانہ جنگی کی وجہ سے افغانستان معاشی اور اقتصادی لحاظ سے تباہ ہوچکا ہے۔ صنعتی ابتری، بے روزگاری، غربت وافلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ بیماری اور صحت کے گھمبیر مسائل ہیں۔ تعلیم کا فقدان اور جہالت کا راج ہے۔ روزگار نہ تعلیم، صحت نہ امن، افغانوں کے دامن میں اس وقت محرومیاں ہی محرومیاں ہیں۔ اسی طرح کی صورتِ حال عراق کی ہے۔ 2003ء میں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ تراش کر امریکی استعمار نے عراق پر شب خون مارا۔
لسانی بنیادوں پر عراق کو تقسیم کرنے کی سازش کی۔ اس کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے گئے۔ کئی راہنماؤں کو خریدا گیا۔ نفرت پھیلانے کے لیے دیواریں تک تعمیر کروائی گئیں۔ اس سب کے نتیجے میں عراق میں خانہ جنگی جیسی صورتِ حال ہے۔ کاروبارِ زندگی ٹھپ ہوچکا ہے۔ 12لاکھ 60 ہزار عراقی تاریک راہوں میں مارے جاچکے ہیں۔ لاکھوں عراقی ہمسائے ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ محض ہزاروں عراقی اپنے ہی ملک میں کاروبار نہ ہونے اور انتشار وانارکی کی وجہ سے بے بسی، مفلسی، بے روزگاری اور بھکاریوں کی سی بودوباش اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ ابوغریب جیسے عقوبت خانوں میں اکیسویں صدی میں بھی پتھر کے زمانے کے جاہلوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ اسی طرح امریکا کے لے پالک اسرائیل نے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کی زمین چھین کر ناجائز طورپر بنائی گئی ”یہودی ریاست“ تو روز بروز مستحکم سے مستحکم ہورہی ہے۔(جاری ہے)

انور غازی
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں