گزشتہ سے پیوستہ: شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید خاش وسراوان کے دورے پر

گزشتہ سے پیوستہ: شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید خاش وسراوان کے دورے پر
molanaدورہ سراوان میں حضرت شیخ الاسلام نے بعض دیگر دینی مدارس ومراکز کاتفصلیلی دورہ کرکے عوام اور علمائے کرام سے ملاقات کی۔ منگل اور بدھ کی درمیانی رات آپ دارالعلوم زنگیان سراوان تشریف لے گئے جہاں آپ نے طلبہ کی سالانہ تقریب دستاربندی میں شرکت کی۔

حضرت شیخ الاسلام دارالعلوم زنگیان، سراوان کے طلبہ کے ساتھ
نماز میں کاہلی عذاب قبر کاباعث ہے

شیخ الحدیث مولانامحمدیوسف حسین پور، مولاناعثمان قلندرزہی اور دارالعلوم زنگیان کے مہتمم مولاناعبدالصمد ساداتی کی معیت میں شیخ الاسلام مولاناعبدالحمید بلوچستان کے تاریخی اورعہدساز دینی مدرسہ ’’دارالعلوم زنگیان‘‘ پہنچ گئے۔
حضرت شیخ الاسلام نے دارالعلوم زنگیان کومولانا عبدالعزیزساداتی مرحوم کی یادگار قرار دیتے ہوئے ان کے صاحبزادہ مولانا عبدالصمد ساداتی کاشکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا جب بھی میں مولناعبدالصمد ساداتی کو دیکھتاہوں تو مولانا عبدالعزیز رھمہ اللہ کی یادمیرے ذہن میں تازہ ہوتی ہے۔
اپنے موضوع کی طرف آتے ہوئے مولاناعبدالحمید نے کہا قرآن پاک کی جن آیات میں استقامت کی ترغیب دی گئی ہے تو اس سے پہلے حق وباطل کے درمیان کشمکش کی خبردی گئی ہے۔ قرآن کی آیت [فصلت: 30] میں استقامت کرنے والوں کی صفات بیان ہوئی ہیں۔ یہ لوگ ایمان دار اور اللہ تعالی کی توحید وربوبیت کے معترف ہیں۔ اس آیت میں معارف ومفاہیم کابڑاخزانہ موجود ہے۔ جنت کی بشارت ان لوگوں کیلیے ہے جوہمیشہ شریعت اور احکام خداوندی پرعمل کرتے ہیں۔ یہ افراد سب سے پہلے اور سب سے زیادہ نماز کی پابندی کرتے ہیں، جوشخص نماز کے حوالے سے سستی کامظاہرہ کرتاہے وہ دین پراستقامت کرنے والانہیں ہوسکتا،
انہوں نے مزیدکہا نماز دین کاستون ہے۔ اگرنماز ٹھیک نہ ہو تو دوسرے اعمال کی اصلاح بھی نہین ہوسکتی۔ میرا عقیدہ ہے جو شخص نمازوں میں سستی کرتاہے اور نماز قضاء کرتاہے وہ عذاب قبر سے دوچار ہوگا۔
درحقیقت کسی بھی معاشرے کی اصلاح کیلیے افراد کی نمازوں پرپابندی کرنا اورکاہلی سے دوری بہت ضروری ہے۔ اسی طرح زکات کی ادائیگی ودیگر احکام پرعمل کرنے سے معاشرہ ٹھیک ہوسکتاہے۔
مولاناعبدالحمید نے کہا آج کل مسلم معاشروں میں گناہ عام ہوچکاہے۔ ایسے مسلمان جو خدااور اس کے رسول کی محبت کا دعویدار ہیں گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ والدین کی نافرمانی وبا کی صو رت اختیار کرچکی ہے۔حالانکہ اللہ تعالی نے ایک سے زائدمقامات پر قرآن میں والدین کی اطاعت اور احترام کا حکم دیاہے۔ جس معاشرے میں والدین کی نافرمانی کی جائے اس میں کوئی بھلائی وخیرنہیں۔
اسی طرح قتل ناحق اور اغواء برائے تاوان خطرناک گناہوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایسی حرکتوں میں ملوث افراد مسلمان کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ انسان چاہے شیعہ ہو یا سنی، مسلمان ہو یاغیرمسلم سب عزت وکرامت کے مالک ہیں۔ صاحب فطرت سلیمہ فرد ہرگز باکرامت انسان کے اغواء کی کوشش نہیں کرے گا۔
دارالعلوم زنگیان کی سالانہ تقریب میں شرکت کرنے والے حاضرین کو مخاطب کرکے مولانا عبدالحمید نے کہا حق وحقیقت کی پیروی کرکے اسے قپنی زندگی کا اصول بنادیں۔ ورنہ استقامت کرنے والوں میں آپ کا شمار نہیں ہوگا۔ آج حق وباطل کی کشمکش جاری ہے، اس لیے استقامت سے کام لیکر پیسے، مقام اور دنیوی جاہ کی خاطر سمجھوتہ نہ کیجیے۔
نبی کریم صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام کی سیرت اور حالات کا مطالعہ کیجیے۔ انہوں نے ہمیشہ حق کو ترجیح دی اور ایک انچ بھی پیچھے ہنٹے کیلیے تیار نہیں ہوئے۔ اسی طرح ہمارے اسلاف، علمائے ربانی وحقانی اور بزرگوں نے دین کا دفاع کیا اور نااہل لوگوں اور عناصر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔ آپ حضرات کو موت تک حق پر قائم رہنا چاہیے، علمائے کرام اور دینی مدارس کو سپورٹ کرکے استقامت کرنے والوں میں شامل ہوجائیے۔
خواتین کو مخاطب کرکے حضرت شیخ الاسلام نے فرمایا بہنوں کے لیے استقامت یہ ہے کہ اسلامی پردہ کا خیال رکھیں اور اجنبی تہذیبوں سے متاثر ہوکر اسلامی تہزیب کو پس پشت نہ ڈالیں۔ صحابیات ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے لیے آئیڈیل ہونی چاہییں۔
علم اور دین کو انسانیت کی ترقی کا راز قرار دیتے ہوئے انہوں نے حاضرین کو ترغیب دی اپنے اعمال کی اصلاح سے غافل نہ ہوں۔ انہوں نے کہا میری نصیحت یہ ہے کہ آپ حضرات تبلیغی جماعت کی نصرت کریں اور ان کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ ان جمارعتوں کے ساتھ اللہ تعالی کی نصرت ومدد شامل ہے۔
اپنے بیان کے ایک حصے میں مولانا عبدالحمید نے ،،حکومت سے تنقید،، کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا جس ریاست میں عوام کو انتخاب کا حق حاصل ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام حکام اور ذمہ داران بالواسطہ یا بلاواسطہ عوام کے ذریعہ منتخب ہوچکے ہیں۔ اس لیے یہ عوام کا حق بنتا ہے کہ جس شخص کو ووٹ دیکر مسند اقتدار پر بٹھاتے ہیں اس پر تنقید بھی کریں۔
جس ریاست میں مفید تنقید نہ ہو تو وہاں مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ میرے خیال میں تنقید بھی کریں۔
جس ریاست میں مفید تنقید نہ ہو تو وہاں مسائل پیدا ہوجائیں گے۔میرے خیال میں تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہیے بلکہ اصلاح کی غرض سے تنقیدکرنی چاہیے، میرے خیال میں کوئی شخص تنقید سے بالاترنہیں ہے۔ حتی کہ صدراسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی عظمت ومقام کے باوجود تنقید ہوتی تھی، چنانچہ غزوہ حنین کے غنائم کی تقسیم کے مسئلے پرانصار کے چندنوجوانوں نے تنقیدکی مگر آپ ص سیخ پاہونے کے بجائے تسلی سے ان کی بات سنی اور ان کے تحفظات دور کردیا۔ کون سے جو سرور کونین سے خود کو بالاتر سمجھتاہے؟ آپ ص کارویہ دیکھو اور آج کل کے حکمرانوں کاحال دیکھو کہ ایک بات پرمشتعل ہوجاتے ہیں اور مفید تنقید پر آپے سے باہرآتے ہیں!

منشیات کے عادی افرادکے علاج کامرکز’’نئی زندگی‘‘ اور زیر تعمیرمسجدصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کامعائنہ

23جون بروز بدھ کو حضرت شیخ الاسلام نے اپنے دورے کے متعین پروگراموں کو دارالعلوم زاہدان کے استاد مولوی نصیراحمد سیدزادہ کے بیمار والد کی عیادت سے آغازکیا۔اس کے بعد آپ نے منشیات کے عادی افراد کیلیے بنائے گئے بازیاب سنٹر’’نئی زندگی‘‘کامعائنہ کیا۔ یہ مرکز سراوان کے بعض علمائے کرام اورخیرخوای عمائدین کی ہمت سے قائم کیاگیاہے۔
خطیب اہل سنت نے بازیاب مرکز کے بانیوں کاشکریہ اداء کرتے ہوئے ان کے اس اقدام کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا میں اس مرکز کو رھمت اور نور کامرکز سمجھتاہوں۔ اس لیے کہ یہ ادارہ ہماری امیدون کی صحت کی بازیابی کیلیے محنت کررہاہے۔ منشیات صوبے کے نوجوانوں کیلیے انتہائی خطرناک اور سنجیدہ خطرہ ہے۔ امیدہے زیرعلاج نوجوان جلد ازجلدصحت یاب ہوجائیں۔

مدرسۃ البنات فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہاکی فاضلات سے مختصرگفتگو

مسجدصدیق اکبررضی اللہ عنہ کے دورے کے بعدحضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم مدرسۃ البنات فاطمۃ الزہراء تشریف لے گئے جومذکورہ مسجدکے قریب واقع ہے۔
مدرسے کی فاضلات سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہمیں لمحہ بہ لمحہ حاصل شدہ سہولیات پراللہ تعالی کاشکریہ اداء کرناچاہیے۔ اس سے قبل اسی سراوان میں خواتین کیلیے حصول علم کے ذرائع انتہائی محدود تھے، جہالت عام تھی اور علم حاصل کرنے کے مراکزبہت کم تھے۔
انہوں نے مزیدکہاعلم کلمہ طیبہ لااِلہ الا اللہ محمدرسول اللہ سے بھی پہلے آتاہے، اس لیے کہ ہوسکتاہے کوئی شخص کواس کلمے کاعلم نہیں رکھتا،معنی نہیں جانتا، اسے زبان سے پڑھے مگر اپنی جہالت کی وجہ سے پھرشرک کاارتکاب کرے۔ آج پوری دنیانے مان لیاہے کہ علم ہی سب کچھ ہے۔ علم کے ذریعے آدمی جان سکے گا کہ مالک کی عبادت کس طرح کی جاسکتی ہے۔ البتہ علم حاصل کرنے کامقصد اس پرعمل کرناہے، ورنہ وہ علم ضائع ہوچکاہے۔
فاضلات کومخاطب کرکے مولاناعبدالحمید نے تمام علماء کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں خاص کرتمہاری ذمہ داری دوگنی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ خواتین میں جہالت اورنادانی زیادہ ہے۔ اچھے اخلاق وکردار میں مقابلے کے بجائے ان میں زیورآلات وغیرہ میں مقابلہ چلتاہے۔
ان تمام بستیوں کیلیے تمہیں منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔فاضلات اپنے محرم مردوں کے ساتھ دوردراز علاقوں کارخ کرکے قرآن کی تعلیم کو عام کردیں۔ یاد رکھیے آپ فارغ التحصیل نہیں ہوچکی ہیں کہ اب مزید علم کی ضرورت نہیں بلکہ علمی رشد وترقی کا مرحلہ اب شروع ہوجاتاہے۔ موت تک مزید علم کے حصول کیلیے محنت کرکے عابدہ وصالحہ رہنے کی کوشش کیجیے۔آپ کو دوسروں کیلیے مثالی کردار ادا کرنی چاہیے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جس معاشرے میں خواتین نیک کردار اور عبادت گزار نہ ہوں وہ معاشرہ ناکام ہے۔

دارالقرآن سراوان کے اساتذہ وطلبہ سے ملاقات

بدھ کی صبح کے پروگراموں میں ’’دارالقرآن‘‘ سراوان کادورہ بھی شامل تھا۔ حضرت شیخ الاسلام اپنے وفد کے ساتھ دارالقرآن کادورہ کرکے مدرسے کے اساتذہ وطلبہ سے ملاقات کی۔
حاضرین سے بات کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہاانسان کیلیے سب سے بڑی عزت علم ودانش ہے۔ یقین کیجیے جوحضرات علمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں وہ درحقیقت معاشرے کی عظیم ترین خدمت کافریضہ پورا کررہے ہیں، یہ اللہ تعالی کافضل وکرم ہے۔
طلبہ کومخاطب کرکے آپ نے فرمایا تمہیں یقین ہونا چاہیے کہ کسب علم کیلیے زندگی وقف کرنے والے سب سے افضل لوگ ہیں۔احادیث مبارکہ میں طلبہ علم کیلیے خصوصی فضائل کاتذکرہ ملتاہے۔ یہ خیال تمہارے دلوں میں ہرگز نہیں آناچاہیے کہ کاش ہمارا کوئی اور مشغلہ ہوتا۔ بلکہ آپ ابھی سے سنتوں پر عمل کرنے کی مشق کاآغاز کریں اور ایک ایک سنت کو اپنی روزمرہ زندگی میں لائیں۔
مولاناعبدالحمید نے کہا اہل علم کیلیے جوبات ضروری ہے وہ اخلاص وللہیت ہے۔ ہمیں ہرکام میں اللہ کی رضامندی کو مدنظر رکھناچاہیے، اس وقت کامیابی تمہارے قدموں کوچومے گی۔
اساتذہ کومخاطب کرکے آپ نے فرمایا کوشش کیجیے کہ سنتوں حتی کہ عادات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی طلبہ کوسکھائیں۔ ان کی ظاہری شکل وصورت بچپن سے سنت کے مطابق بنوانے کی کوشش کریں۔ ’’اسبال ازار‘‘ سے سختی کے ساتھ منع کریں۔ نماز کے وقت صفوں کو سیدھی منظم رکھنے کی تلقین کیاکریں۔
اللہ تعالی سے امید ہے آپ سب عزیزوں کو تقوا اور عمل صالح کی توفیق عطافرمائے۔

دینی مدرسہ “مجمع العلوم” سراوان

دارالقرآن کے طلبہ واساتذہ سے ملاقات کے بعد حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم تاریخی دینی مدرسہ مجمع العلوم پہنچ گئے جس کے بانی مولانا شہداد رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔
جس کمرے میں کئی عشرے قبل حضرت شیخ الاسلام نے وقت گزارا تھا طلبہ واساتذہ جمع ہوگئے جہاں آپ نے بعض پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے فرمایا پچاس سال سے زائد مدت اس وقت سے گزرچکاہے جب میں چند مہینے کے لیے اس مدرسے میں زیر تعلیم رہا۔ اس زمانے میں یہ مدرسہ انتہائی پر رونق تھا۔ پورے بلوچستان میں دو ہی دینی مدرسے تھے، ایک دارالعلوم زنگیان اور دوسرا مجمع العلوم سرجوی۔ طلبہ کی تعداد بھی بہت کم تھی۔
اساتذہ و طلبہ سے بات کرتے ہوئے آپ علم کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے کہا اگر علم باقی نہ رہے تو دین اور ہدایت بھی نہیں رہے گا۔ لوگوں کی دنیا وآخرت تباہ ہوجائے گی۔ اس لیے کسب علم کی راہ میں سخت محنت ومجاہدت کیجیے۔
یاد دہانی کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا علم اور دانش اس وقت فائدہ مند اور باعث خیر برکت ہوگا جب اس سے مقصد اللہ کی رضامندی کا حصول ہو۔

مولانا عبدالحمید سراوان کے علمائے کرام کی مجلس میں
علماء کی عبادت وبیداری امت کی نجات ہے

بدھ کے دوپہر کو حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید سراوان کے معروف دینی مدرسہ ’’اشاعۃ التوحید‘‘ تشریف لے گئے جہاں آپ نے جلسہ دستاربندی وتقسیم اسناد میں شرکت کی۔ آپ کے اعزاز میں مدرسے کی نئی عمارت میں ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں علاقے کے علمائے کرام جمع ہوئے تھے۔ عصر کے بعد آغاز ہونے والی تقریب میں مولانا محمد یوسف حسین پور، مولانا عبدالأحد ملازادہ (مہتمم دارالعلوم انزا، سرباز) ودیگر سرکردہ علماء شریک تھے۔
حضرت شیخ الاسلام نے علمائے کرام سے خطاب کرتے ہوئے اپنے بیان کا آغاز دو قرآنی آیات :[هل یستوی الذین یعلمون و الذین لایعلمون إنما یتذکر اولوالباب] ’[زمر؛ 9] اور سورہ الفاطر : 28 «إنما یخشی الله من عباده العلماء» سے کردیا۔ انہوں نے کہا ہم سب کو معلوم ہے کہ علماء کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ جب پہلی بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور آپ غار حراء سے باہر آئے تو آپ کے کاندھوں کے درمیان والا حصہ لرز رہاتھا۔ علماہ انور شاہ کشمیری (رح) نے اس واقعے کی بہترین توجیہ کرکے لکھا ہے: جی ہاں! ذمہ داری بہت گراں ہے اور آج علماء امت کا یہی حال ہونا چاہیے، انہیں نجات امت کیلیے غور وفکر کرنی چاہیے جو گناہوں کی عادی ہوچکی ہے۔
انہوں نے تاکید کرکے کہا سب سے اہم بات یہ ہے کہ علمائے کرام ہر کام سے پہلے عبادت کرنے والے بن جائین۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور دیگر داعیان دین اور قوموں کے روحانی رہ نماؤں نے عبادت پر خاص اہمیت دی ہے۔ آج کل غفلت اس قدر عام ہوچکی ہے کہ علماء بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ اگر ہم پوری رات سوتے ہوئے گزاردیں اور تلاوت، ذکر وعبادت وغیرہ کے لیے ہمارا کوئی وظیفہ اور معمول نہ ہو تو اسلامی معاشرے کے لیے ہمارے پاس کوئی مفید چیز نہیں ہے۔
جب تک عالم دین رسول اکرام صلى الله عليه وسلم کو اپنا اسوہ نہ بنائے تو معاشرے میں وہ مفید نہ ہوگا۔ آپ کا آئیڈیل میں اور مجھ جیسے لوگ نہیں بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم تمہارے اسوہ ہونے چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا حضرت شیخ مولانا عبدالغنی جاجروی صلى الله عليه وسلم ہمیشہ علماء سے شکوہ کرکے کہا کرتے تھے: اگر ایک عام شخص کو ہم کوئی وظیفہ یا ذکر بتاتے ہیں تو زندگی بھر اسے یاد رہتا ہے لیکن جب علماء کو کوئی ذکر بتاتے ہیں تو غفلت کا مظاہرہ کرکے اسے بھول جاتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا جب ہم راتوں کو جاگ کر گزاردیں گے تو اللہ تعالی اس قوم پر رحم کرے گا۔ لوگ سمجھتے ہیں علماء جاگے ہوئے ہیں لیکن اگر ہم پوری رات سونے میں گزاردیں تو اس قوم کا کیا حال ہوگا؟ پھر اس چرواہے کہ کہانی ہوگی جو بھیڑیا کے حملے کا نشانہ بنا تھا۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے علماء کو بھیڑوں کے چروا ہے سے کیوں تشبیہ دی جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لونٹ کے برعکس بھیڑ ایک کمزور جانور ہے جس کی خیال داری کے لیے چروا ہے کی بیداری اور خاص اہتمام کی ضرورت ہے۔ چروا ہے کو دو کام ضرور کرنے ہوتے ہیں؛ ایک یہ کہ سحر کے وقت بھیڑوں کو جگا کر کہیں اور لیجائے، صبح تک انہیں ایک ہی جگہ پر سونے نہ دیں ورنہ جانور کو ایک خاص بیماری لاحق ہوتی ہے۔ دوسرا کام یہ ہے رات کے پہلے حصے میں ان جانوروں کو خوب چرا کر چارہ کھلائے، نہ یہ کر گھر چلا جائے۔ اگر کوئی چرواہا ایسا نہ کرے تو بقول بلوچوں کے اس نے بھیڑوں کو ’’شپ شام‘‘ نہیں دیا ہے۔
علمائے کرام کی بھی ذمہ داری ہے کہ اسی تربیت سے رات کے آغاز میں لوگوں کو مغرب وعشاء کی نماز پڑھا کع بوقت سحر انہیں نماز کے لیے جگادیں۔ ورنہ اس عالم دین کے علاقے کے عوام شیطان کا شکار ہوکر روھانی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے ممتاز سنی عالم نے علماء کی عبادت گزاری وبیداری کو امت کی نجات کا واحد راستہ قرار دیتے ہوئے کہا سابق علماء اب چلے گئے ہیں، آج تمہاری باری ہے۔ اس زمانے کے مولانا شہداد، مولانا عبدالعزیز اور مولانا محمد عمر آپ ہی ہیں۔ اسی لیے تمہاری ذمہ داری بہ بھاری ہے۔ آپ کو ذکر اللہ کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، کم از کم روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہیے۔ اوراد ماثورہ جو مخصوص تعداد کے ساتھ روایت ہوئے ہیں کوشش کریں انہیں اسی طرح پڑھ لیں۔
جب بھی فارغ ہوئے تو کوئی اچھا کام کع لیجیے۔ یہ میری نصیحت نہیں بلکہ ارشاد خداوندی ہے: فاذا فرغت فانصب و الی ربک فارغب [انشراح 8,9] نوجوان علماء کو میرا مشورہ ہے کہ ہر ماہ تین دن روزہ رکھیں جو معمول نبوی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا میری آخری نصیحت یہ ہے کہ آپ علمائے حق اور ربانی کے تلامذہ ہین۔ مجھے معلوم ہے کہ مالی طور پر آپ مسائل سے دوچار ہیں۔ یہ حالت تمام علماء کی ہے۔ آپ اس غربت ومسکنت پر صبر کریں۔ بے تکلفی وقناعت پر عمل کرکے اپنے بیوی بچوں کو بھی اس کا عادی بنائیں۔ علم اور استگناء دو بڑی نعمتیں ہیں۔ کسی کا ’’بندہ‘‘ وغلام مت بنیں، اگر کسی نے اللہ کی خاطر کوئی تحفہ تمہیں پیش کیا تو اسے قبول کریں۔ لیکن اگر آپ کو معلوم ہوا تحفہ پیش کرنے والا کسی خاص مقصد کے تحت سخاوتمندی کررہا ہے تو اس تحفے کا قبول کرنا ناجائز ہے۔
آخر میں مولانا عبدالحمید نے ’’اصلاح ایکٹ برائے مدارس اہل سنت‘‘ کی طرف اشارہ کرکے کہا اس حکومتی ایکٹ کے بارے میں ہمارے علماء کا موقف یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری ادارے کو ہر حال میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
صدر اتحاد مدارس اہل سنت سیستان وبلوچستان نے زور دیتے ہوئے کہا مذہبی مسائل کا موضوع کا بہت حساس ہے۔ اس لیے کسی کو مداخلت کا موقع نہیں دینا شاہیے۔ شیعہ علماء (مراجع تقلید) کی آراء بھی مختلف ہیں اور بہت سارے شیعہ مراجع تقلید ہمارے مدارس کے امور میں مداخلت کے مخالف ہیں۔
حضرت شیخ الاسلام نے مزید کہا بہت سارے سنی ملکوں میں شیعہ اقلیت میں ہیں، اس کے باوجود وہ اپنے مذہبی مسائل میں مستقل اور آزاد ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں اہل تشیع کے لیے الگ سے مستقل وزارت اوقاف قائم ہے۔ سعودی عرب میں بھی شیعہ برادری کو کافی مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اسی طرح جن اسلامی ملکوں کا میں نے دورہ کیا ہے وہاں بھی شیعہ برادری مستقل ہین۔ مناسب یہی ہے کہ ایران میں بھی اہل سنت کی مستقل شناخت اور مذہبی آزادی کو پامال نہ کیا جائے۔

جلسہ دستار بندی اشاعۃ التوحید سراوان

چوبیس جولائی بروز بدھ کو سراوان دینی مدرسہ اشاعۃ التوحید میں جلسہ دستاربندی منعقد ہوا جس کے آخری مقرر حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید تھے۔ آپ سورہ مائدہ کی بعض ابتدائی آیات کی تلاوت کے بعد گویا ہوئے: یہ مقولہ بہت مشہور ہے کہ اگر کوئی قرآن کا مطلب صحیح سمجھ کر اسلام کی قدر جاننا چاہیتا ہے تو اسلام کے سورج کے طلوع سے پہلے دور جاہلیت کا مطالعہ کرے۔ اس دور میں عرب قبائل اس قدر پستی کی کھائی میں گرے ہوئے تھے کہ جانوروں سے بھی آگے جاچکے تھے، اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے اور برائیوں کا بری طرح شکار ہوچکے تھے۔ ایسے میں غار حراء سے اللہ تعالی نے آخری آفتاب عالمتاب کو بلند کیا اور قرآن پاک نازل ہوا۔ علم ومعرفت اور نور آسمان سے اترا اور انسانیت کو اللہ تعالی نے ایک بار پھر ہدایت سے نوازا۔
احسان خداوندی پوری عالم انسانیت کو شامل ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور جن لوگوں نے فطرت سلیمہ نہیں کھویاتھا آپ صلى الله عليه وسلم کی نصرت کر گئے۔
رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے جزیرۃ العرب میں ساری مشکلات برداشت کرکے پورے خطے میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے۔ رہزن رہبر ہوئے، بت پرست خداپرست بن گئے اور بے تہذیب قوم سب سے زیادہ مہذب قوم بن گئی۔ ایسی تہذیب جو قیامت تک کسی کو حاصل نہیں ہوسکے گی۔
جس وقت صحابہ کرام اسلام کی نصرت وخدمت کا عہد کیے ہوئے تھے تو انہیں اسلام کا انجام معلوم نہیں تھا۔ خلفاء راشدین کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ خلیفہ ہوں گے اور اسلام پوری دنیا ہر غالب دین ہوگا۔ اس کے با وجود صحابہ کرام اور اہل بیت نے آپ صلى الله عليه وسلم کی نصرت ومدد کی۔ اخلاص کے ساتھ محنت کرکے ولایت کے مقام تک پہنچے۔
صداقت ومحبت کی وجہ سے انہیں عزت ملی۔ اسی صادقانہ محبت کی برکت سے آدمی فرشی سے عرش تک پہنچتا ہے۔
حاضرین جلسہ کو مخاطب کرکے کو مولانا عبدالحمید نے کہا عزیر بھائیو! آپ کے پاس انتہائی قیمتی اثاثے موجود ہیں۔ ایمان، دین ودیانت اور آپ صلی اللہ و علیہ وسلم کی خوبصورت تعلیمات ایسے اثاثے ہیں جو صرف مجھے اور آپ کو حاصل ہیں۔ اگر مضبوطی سے ان سرمایوں کی حفاظت کریں تو دنیا وآخرت میں عزت پائیں گے۔
سراوان کے معزز باسیو! اللہ کی قسم اگر تمہارے پاس دنیا کی تمام جائیدادیں، مال ومنال اور عہدے ہوں لیکن اسلام اور عمل صالح سے عمل حاصل ہونے والی عزت آپ کے پاس نہ ہو تو آپ حقیقی محروم ہیں۔
جلسہ میں موجود ہزاروں افراد کو انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا آگاہ ہوجائیے! اخلاقی کاظ سے اکیسویں صدی اس قدر پستی کا شکار ہے کہ دوران جاہلیت عرب سے بھی بدتر ہے۔ مغربی دنیا اخلاقی پستی کا یہ حال کے مرد مرد سے اور عورت عورت سے شادی کرتا ہے۔ ان لوگوں کو قرآنی واسلامی تعلیمات کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے پہلے خود ان تعلیمات کو جامہ عمل پہنائیں پھر انہیں مغرب کے سامنے پیش کریں۔
آج کل عالم اسلام اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کہ مسئلہ فلسطین وعراق اور افغانستان کو حل کرنے سے قاصر ہے۔ وجہ بھی قرآن وسنت سے دوری ہے۔
اپنے بیان کے آخری حصے میں مولانا عبدالحمید نے تاکید کرتے ہوئے کہا ہمیں باہمی اتحاد رکھنا چاہیے۔
شیعہ وسنی کے درمیان پائیدار بھائی چارہ ہونا چاہیے۔ آج عالم اسلام کو اتحاد ویکجہتی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بلوچ قوم کی بعض خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا بہادری بلوچ قوم کی بارز خصوصیات میں سے ایک ہے۔ ہر قوم کی بعض خصوصیات ہیں اور بلوچوں کی خصوصیت یہی ہے۔
اس لیے مجھے امید ہے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اس قوم کے فرزندوں سے استفادہ کیا جائے اور انہیں مسلح اداروں میں ملازمت دی جائے۔
ایران کے سنی مسلمان دیندار اور وطن دوست لوگ ہیں۔ سنی مذہب شہری اسلامی حکومت کو ترجیح دیتے ہیں اور حکام سے درخواست کرتے ہیں کہ سب کو ایک نظر سے دیکھیں، امتیازی سلوک کا خاتمہ بھائی چارہ کی تقویت کے لیے از حد مفید ہے۔
میں تنقید نہیں کرتا بلکہ سنی برادری کی خواہشات ومطالبات کو نقل کرتا ہوں۔ اس لیے کہ ایران میں ہمارا الگ تشخص اور وجود ناقابل انکار ہے۔

سفر کا اختتام

اشاعۃ التوحید سراوان کے جلسہ دستاربندی وتقسیم اسناد حضرت شیخ الاسلام کے دورے کا آخری پروگرام تھا۔ خاش وسراوان کے مختلف علاقوں اور علماء وعوام سے ملاقات کے بعد ممتاز عالم دین اور خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم جمعرات کی صبح کو فجر کی نماز پڑھانے کے بعد زاہدان روانہ ہوگئے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں