رپورٹ: شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید خاش وسراوان کے دورے پر(پہلی قسط)

رپورٹ: شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید خاش وسراوان کے دورے پر(پہلی قسط)
molanaنوٹ: خطیب اہل سنت زاہدان اور اہل سنت ایران کے مذہبی پیشوا حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم21جون 2010ء کو تین روزہ دورے کیلیے ایرانی بلوچستان کے ضلع خاش اور سراوان تشریف لے گئے جہاں آپ نے مختلف دینی مدارس کے سالانہ جلسوں اور تقاریب دستاربندی میں شرکت کی۔ آپ نے متعلقہ علاقوں کے لوگوں سے ملاقات کرکے ان مسائل بھی سنیں۔ حضرت کے اسفار کی رپورٹ “سنی آن لائن” کے قارئین کیلیے سلسلہ وار پیش خدمت ہے۔

حضرت شیخ الاسلام “کہنوک” میں
سوموار اکیس جون کے دوپہر کو آپ “مفتاح العلوم” تشریف لے گیے جو ضلع خاش کے نواحی علاقہ “کہنوک” میں واقع ہے۔ مفتاح العلوم کے جلسہ برائے حفاظ کرام میں آپ کے علاوہ شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف حسین پور(سراوانی)، مولانا محمدگل، مولاناعثمان قلندرزہی(خاشی) ودیگر نامور علماء شریک تھے۔
تقریب کے آغاز میں ایک خوبصورت نظم پڑھی گئی جس میں حضرت شیخ الاسلام کی تعریف وتمجید کی گئی۔ چنانچہ آپ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے بیان کے شروع میں فرمایا: اگر کسی کے ذریعے دین کی کوئی خدمت ہوجائے تو یہ اس شخص کاکمال نہیں ہے بلکہ یہ نعمت اور توفیق خداوندی ہے۔اگر کوئی درخت کی طرف پتھر پھینک کر کوئی پھل توڑتاہے تو اس پتھر کی کوئی تعریف نہیں کی جاتی ہے بلکہ پتھر پھینکنے والے کو شاباش کہاجاتاہے۔ سب کچھ اللہ تعالی کرواتاہے ہم درمیان میں صرف ذریعے ہیں۔اس لیے ہم کسی پر منت واحسان نہیں جتاسکتے۔ اگر اللہ تعالی کانام ہماری زبانوں پرجاری ہوتاہے تو یہ اسی کا فضل وکرم ہے کہ اپنامبارک نام ہماری زبانوں پرجاری کرواتاہے۔ ہمارا کوئی کمال نہیں، ساری کمالات رب العالمین کے ہیں۔ اسی لیے بندہ تمہارے اشعارکاصحیح مصداق نہیں ہے۔
مولاناعبدالحمید جو بلوچی زبان میں تقریرکررہے تھے آگے چل قرآن کی عظمت پرروشنی ڈالی ۔انہوں نے کہاجس طرح ظاہری بارش سے زمین سرسبز وآبادہوجاتی ہے بالکل اسی طرح قرآن پاک اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی معنوی بارش جس سرزمین پربرستی ہو تو یقین کیجیے وہاں خیروبرکت نازل ہوگی، گمراہوں کو ہدایت ملے گی، سیاہ دل روشن ونورانی ہوں گے۔ ظاہری بارش کے برعکس قرآن کی معنوی بارش براہ راست عرش معلیٰ سے برستی ہے۔ قرآن جاہل، بے تہذیب وتاریخ، بھوکے ننگے اور ذلیل قوموں کو عزت، خوشحالی، تہذیب وتمدن اور علم دیتاہے۔یہ اللہ کاوعدہ ہے۔ قرآن اللہ کی رسی ہے جو اسے پکڑتاہے اللہ تعالی اسے ترقی وعروج سے نوازتاہے، دوسروں کو اس کامحتاج بناتاہے۔
معزز سامعین! اللہ کی قسم اگر تفتان اور آس پاس کے تمام پہاڑ سونے بن جائیں یہ سب قرآن کی عظیم نعمت کے برابر نہیں ہوسکتے۔ پوری دنیا کو قرآن کے خزانوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ خزانہ پہلے ہی حاصل ہے مگر ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔ مولانا عبدالحمیدنے تاکید کی کہ اگر ہم صحیح معنوں میں قرآن پرعمل کریں تو سارے لوگ ہمارے غلام بن جائیں گے۔صحابہ وتابعین نے پوری طرح قرآن پرعمل کرکے وہ مقام حاصل کرلیا کہ تاریخ میں بے مثال ہے۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے فضائل کے حوالے سے گفتگو فرمائی۔ انہوں نے کہا صحابہ کرام اور آپ ص کو ایک ہی فکر لاحق تھی اور وہ یہ کہ کس طرح لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچایاجائے۔ ان کا جہاد اسی مقصد کیلیے تھا، حصول اقتدار اور مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے وہ نہیں لڑتے تھے۔
انہوں نے مزید کہاصحابہ کرام اور اہل بیت نبوی کا احسان ہم سب پرہے۔ وہ ہستیاں جنہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود نبی کریم ص کا ساتھ دیا اور ہر میدان میں پیش پیش رہیں۔ ازواج مطہرات آپ ص کی بہترین انیس و ہمدرد تھیں۔ ان سب کی محبت ہمارے ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ ہمیں اپنے بچوں، والدین اور رشتہ داروں سے زیادہ ان عظیم ہستیوں سے پیار ہے جنہوں نے اپنا سب کچھ اسلام کیلیے قربان کردیا۔
حاضرین جلسہ کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا تمہارے علاقے میں یہ مثبت تبدیلی قرآن پاک اور ان مجالس کی برکت سے حاصل ہوچکی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ قرآن کی تلاوت گھرگھر میں ہونی چاہیے۔ فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام ہونا چاہیے۔ میرے عزیزو! اللہ تعالہ کی جانب بڑھیے اور اسلامی شریعت پرعمل کیجیے۔ گناہوں سے بچ جایئے۔ جو گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اللہ کی نظر رحمت سے محروم ہوجاتاہے۔ ذلیل وبے آبرو ہوجاتاہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام جب امتحان الہی میں کامیاب ہوئے تو اللہ تعالی نے ان پر اپنی رحمتیں برسادیں اور ایک ایسی سرزمین میں انہیں بادشاہت نصیب فرمائی جہاں ان کا ایک رشتہ دار بھی نہیں تھا۔ غلام کی حیثیت سے داخل ہونے والا یوست بادشاہ بن گیا۔ اس کا مطلب ہوا غلام اگر متقی اور صابر ہو تو اللہ تعالی اسے عزت و سروری نصیب فرمائے گا۔
خواتین وحضرات کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا قبر تنہائی کی زندگی کا مقام ہے۔ اس کامنظر انتہائی خوفناک ہے۔ اسے آباد کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں کیا معلوم آج کتنے لوگ اپنی قبروں میں عذاب سے دوچار ہیں۔
افسوس کی بات کی بات ہے کہ ہم آج کل کم روتے ہیں ، آہ سحرگاہی ہماری زندگیوں میں نہیں رہی، دنیا کیلیے وساوس نے سب کو غافل کردیاہے۔
آخر میں انہوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اپنے گناہوں کو یاد کرکے توبہ کیجیے۔ ہمیں ایک ایسا سفر در ہیش ہے جو براستہ قبر آکرت تک طویل اوبہت خوفناک ہے۔ اس کیلیے بھر پور محنت اور تیاری کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہرگز قبر سے غافل نہیں ہوناچاہیے۔
جاری ہے…

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں