اسرائیل مخالف سخت موقف اپنانے پرعربوں میں ترکی کی زبردست پذیرائی

اسرائیل مخالف سخت موقف اپنانے پرعربوں میں ترکی کی زبردست پذیرائی
erdogan4استنبول (ایجنسیاں) ترکی غزہ جانے والے امدادی قافلے پراسرائیلی کمانڈوز کے حملے کی مذمت اورایران کے خلاف پابندیوں کی مخالفت میں پیش پیش ہونے کی وجہ سے اس وقت مسلم اورعرب دنیا کے منظرنامے میں ایک قائد اور”ہردلعزیز”ملک کے طورپرابھرا ہے اور اس کے لیڈروں کی عالم اسلام میں زبردست پذیرائی کی جارہی ہے۔

ایسا ہی ایک منظر ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ ترک،عرب اکنامک فورم میں دیکھنے میں آیا ہے جہاں ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان جونہی پوڈیم کی جانب خطاب کے لیے بڑھے توعرب ممالک کے مندوبین نے ان کے لیے خیرمقدمی نعروں سے پورے ہال کو سر پراٹھالیا۔عرب مندوبین ان کے لیے داودتحسین کے ڈونگرے برسارہے تھے۔
ترک وزیراعظم نے اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”کیا ہم نوافراد کے قتل پرخاموش رہیں؟ہم بین الاقوامی پانیوں میں ہونے والی قزاقی اورمسلح ڈکیتی پر اپنی آنکھیں بند نہیں رکھ سکتے”۔
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمروموسیٰ نے اپنی تقریرمیں اسرائیل پرانسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیاں جاری رکھنے کا الزام عاید کیا اور اسرائیل کوامدادی قافلے پر مسلح حملے کے بعد چیلنج کرنے پر ترکی کے کردار کی تعریف کی۔انہوں نے کہا کہ نومقتول ہمارے شہداء ہیں۔
رجب طیب ایردوان نے ایران پراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نئی عاید کردہ پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ”اسلحہ ،پابندیاں اورتحدیدات کام کرنے والی نہیں۔عراق اور افغانستان میں ایسی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کو بھاری قیمت چکانا پڑرہی ہے۔وہاں سیکڑوں،ہزاروں بیوائیں ہیں،ان کا شمار کون کرے گا؟وہاں ہزاروں یتیم بچے ہیں،ان کاشمار کون کرے گا؟جن لوگوں نے اس جغرافیے کو تبدیل کیا ہے،ان کا احتساب کیا جانا چاہیے۔

غلیظ پروپیگنڈا
ایردوان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک ایران کے جوہری تنازعے کے سفارتی حل کے لیے جوہری ایندھن کے تبادلے سے متعلق گذشتہ ماہ طے پائے معاہدے پر کام جاری رکھے گا۔
انہوں نے مغرب کی جانب سے ان الزامات کو سختی سے مسترد کردیا کہ ترکی مشرق کی جانب اپنا رُخ کررہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے دعوے بدنیتی کے تحت کیے جارہے ہیں اور ان کا مقصد ترکی کوعرب اقوام سے مضبوط تعلقات استوار کرنے سے روکنا ہے۔
ترک وزیراعظم نے شام اور دوسرے عرب ممالک میں فرانسیسی سرمایہ کاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ترکی کی عرب ممالک میں سرمایہ کاری کا معاملہ آتاہے تواس عمل کو روکنے کے لیے ایک غلیظ پروپیگنڈا شروع کردیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ”جولوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ترکی مغرب سے ناتا توڑرہا ہے،وہی دراصل اس کے خلاف بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈے کو پھیلانے کے ذمہ دار ہیں جبکہ ہمارے دروازے دنیا کے تمام حصوں کے لیے کھلے ہیں،ہمارے دروازے کسی ایک کے لیے کھلے اور دوسرے کے لیے بند نہیں ہیں”۔
ترکی اور مغرب میں بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کا واحد مسلم ملک اب امریکا کی قیادت میں اہل مغرب کی مسلم دنیا کے خلاف چیرہ دستیوں کا ساتھ دینے کو تیارنہیں اور ان کے موقف سے منہ پھیررہا ہے۔اس نے امریکا کے اتحادی اسرائیل کے خلاف فریڈم فلوٹیلا پر حملے کے بعد سے سخت موقف اپنا رکھا ہے اور اب اس نے ایران پر نئی پابندیاں عاید کرنے کے لیے قراردادکی بھی مخالفت کردی ہے۔
ترکی کے اس دلیرانہ موقف کی وجہ سے اسلامی دنیا میں ترک قیادت کو بڑی پذیرائی ملی ہے اورترکی کوعالم اسلام کے ایک نئے لیڈر ملک کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو اپنے عرب اور مسلم اتحادیوں کے ساتھ مل کر کم سے کم مشرق وسطیٰ کے خطے کی سیاست تبدیل کرنے جارہا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں