کیا اب بھی اسرائیل کو جنگی مجرم قرار نہیں دیا جائے گا؟

کیا اب بھی اسرائیل کو جنگی مجرم قرار نہیں دیا جائے گا؟
israel-flagاقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ”ایسے ارکان جو مستقل اس کے منشور کی خلاف ورزی کریں گے، انہیں اقوام متحدہ سے خارج کردیا جائے گا۔“ لیکن اسرائیل 62برسوں سے اس کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کرتا چلا آرہا ہے، اس کے خلاف تاحال کوئی کاروائی ہوسکی ہے اور نہ ہی ہوسکتی ہے۔

اسرائیل کے صہیونیوں نے حسب ِعادت مسلّمہ اصولوں کو پامال کرتے ہوئے، بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اور تمام اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے غزہ کے 16لاکھ جان بلب محصوین کے لیے امدادی اشیاء لے جانے والے قافلے پر تاریخ کی بد ترین دہشت گردی کی۔ جس کے نتیجے میں 40ممالک سے تعلق رکھنے والے 20 افراد شہید اور 65سے زائد زخمی ہوگئے جبکہ سینکڑوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔
قارئین! اسرائیل نے کوئی پہلی دفعہ یہ جنگی جرم نہیں کیا ہے بلکہ اپنے ناجائر قیا م سے لے کر آج تک مسلسل کرتا چلا آرہا ہے۔ ہم مختصراً صہیونیوں کے جرائم کی فہرست آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ اسرائیل اب تک اقوام متحدہ کی 69 قراردادوں کو جوتے کی ناک پر رکھا ہے۔ اسرائیل نے جنیوا کے قوانین کو پامال کرتے ہوئے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو نشانہ بنایا۔ اسکول اور کالجوں پر میزائل داغے۔ کیمیاوی ہتھیار اور فاسفورس بم استعمال کیے۔ گمنام جگہوں پر شہید ہونے والے فلسطینیوں کے اجسام کی بے حرمتی کی۔ فلسطینی بچوں کو اغوا کرکے ان کے اعضا نکالے۔ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کیا۔ امدادی کارکنوں پر بمباری کی۔ یہاں تک اقوام متحدہ کے اہلکار بھی اس ظلم سے نہ بچ سکے۔ مسلّمہ قانون ہے دورانِ جنگ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو امان حاصل ہوگا۔ ہتھیار نہ اُٹھانے والوں پر فائرنگ اور بمباری نہیں کی جائے گی لیکن اسرائیلی درندوں نے بچوں، مریضوں، ضعیفوں حتیٰ کہ ایمبولینسوں اور فلاحی اداروں کے امدادی کارکنوں تک لہو میں نہاگئے۔ دور نہ جائیں! حالیہ غزہ پر صہیونی حملوں میں 1300 فلسطینی شہری، 437 کم عمر بچے، 110 عورتیں اور 123 بوڑھوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ شہری آبادی پر اندھا دھند گولہ باری کرکے سیکڑوں فلسطینیوں کو زخمی کیا گیا۔ جنگ کے دوران بیسیوں بے گناہوں حتیٰ کہ راہگیروں اور امدادی ورکروں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں ڈالا گیا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق امدادی اور انسانی ہمدردی کے تحت جانے والے کارکنوں پر حملہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اسرائیل متعدد بار بار ایسا کرچکا ہے۔
گزشتہ سال 2009ء میں فلسطینی عوام کو امداد پہنچانے والے امدادی کارکنوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اس وقت گرفتار کیے گئے کئی کارکن تاحال جیلوں میں قید ہیں۔ ایک مسلمان قیدی نے ”رملہ جیل“ سے لکھا ہے: ”میرا نام سنتھیا میکنیے ہے۔ میں انسانی حقوق کے ان 21 ارکان میں سے ہوں جو اس وقت قید ہیں۔ جنگ کے دوران ہم زخمیوں کے لیے ادویات پہنچانے غزہ کی طرف جارہے تھے اسرائیلیوں نے ہماری گاڑی پر فائرنگ کردی۔ ہمیں پکڑکر گرفتار کرلیا اور پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ہم دنیا کے مہذب لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے؟ ہم غزہ کے زخمیوں تک بنیادی ضروریات کی چیزیں پہنچانا چاہتے تھے لیکن اسرائیلی فوج نے یہ کہتے ہوئے گرفتار کرلیا کہ دہشت گردوں کو طبی امداد کیوں پہنچارہے ہو؟ ان فلسطینیوں کو یونہی تڑپ تڑپ کر مرنا چاہیے۔“ میں نے جرات کرتے ہوئے کہا: ”انسانیت کے ناتے ان کے لیے فرسٹ ایڈ ضروری ہے لیکن اسرائیلی فوج نے میری ایک نہ سنی اور فلسطینی زخمی عوام کو طبی امداد پہنچانے کے جرم میں مجھے 30 جون 2009ء کو گرفتار کرکے رملہ کے عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا حالانکہ میرا مشن انسانی حقوق، معاشرتی انصاف اور بلارنگ ونسل، قوم ومذہب صرف انسانیت کی خدمت ہے۔ میں سوچتی ہوں جب مجھ جیسی عورت کے ساتھ اسرائیلی فوج نے یہ ظلم کیا ہے تو عام فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ وہ کیا کیا انسانیت سوز کام کرتے ہوں گے؟“ آخر میں ”سنتھیا میکینے“ اقوام متحدہ ، او آئی سی ،عرب لیگ،انسانی حقوق کی تنظیموں،مسلم دنیا کے 58 حکمرانوں اور امریکی صدر اوباما سے اپیل کرتی ہیں وہ اسرائیلی عقوبت خانوں میں بے گناہ فلسطینی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور گرفتار کیے گئے ہزاروں افراد کو آزاد کروائیں۔“ پس منظر کے طورپر یاد رہے اس وقت اسرائیلی جیلوں اور عقوبت خانوں میں 1500 مرد، 400 کے قریب معصوم بچے اور 210 خواتین انتہائی صعوبتیں اُٹھارہے ہیں۔ فلسطینی ”محکمہٴ اسیران“ کے ترجمان کا کہنا ہے فلسطینی قیدیوں پر نئی نئی تیار کردہ ادویات کے تجربات بھی کیے جارہے ہیں۔ بیشتر تجربات معصوم بچوں پر کیے جاتے ہیں۔ ان ادویات کے استعمال سے ایک ہزار قیدی شدید متاثر ہیں جن میں سے ایک سو پچاس کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے عالمی ریڈ کراس تک کے نمایندوں تک کو اسرائیلی جیلوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کتوں بلوں کے خراش آنے پر آسمان سر پر اٹھانے والی مغربی این جی اوز کو اس پر آواز اُٹھانی چاہیے۔ اسرائیل کا ایک جرم یہودی بستیوں کی آباد کاری ہے۔ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق اسرائیل مزید بستیاں تعمیر نہیں کرسکتا۔ متعدد بار تعمیر روکنے کا حکم بھی دیا جاچکا ہے لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے یہودیوں نے فلسطین کے علاقوں پر غیر قانونی طورپر قبضہ کیا۔ یہودی قیادت کو شروع میں ایسا کرنے سے روکنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے اور وہ فلسطین کے مزید علاقوں پر قابض ہوتا گیا۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ، گولان کی پہاڑیاں یہ سب مقبوضہ علاقہ جات ہیں اور اسرائیل کا حصہ نہیں۔ اسرائیل کا ایک بڑا جرم غیر قانونی اور ممنوع اسلحے کا بے دریغ استعمال ہے۔ قانون کے مطابق جوہری اور فاسفورس بم استعمال نہیں کرسکتا، مگر غزہ جنگ کے دوران صہیونیوں نے ایسا بارود استعمال کیا کہ بچے موم کی طرح پگھل گئے۔ کبھی وہ ایران کو دھمکیاں دیتا ہے تو کبھی شام کو، کبھی لبنان کو تو کبھی اردن کو، کبھی پاکستان کا ایٹمی پروگرام تباہ کرنے کے لیے بھارت سے گٹھ جوڑ کرتا ہے تو کبھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمسائے ممالک خصوصاً پاکستان میں تخریب کاریاں کرواتا ہے۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور بڑھتے ہوئے جنگی جرائم کی وجہ سے گذشتہ سال ترکی نے اس کے ساتھ جنگی مشقیں کرنے سے انکار کردیا تھا۔ سوال یہ ہے عالمی سطح پر کیا اب بھی اسرائیل کو جنگی مجرم قرار نہیں دیا جائے گا؟

انور غازی
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں