‘صبراورشکر کرنے والے ہی اللہ تعالی کے مقرب بندے ہیں’

‘صبراورشکر کرنے والے ہی اللہ تعالی کے مقرب بندے ہیں’
molana22حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اس جمعے کے خطبے میں قرآنی آیت«إنما یوفی الصابرون أجرهم بغیر حساب» کی تلاوت کرتے ہوئے صبرواستقامت کے بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے کہا جو شخص خالق کی ربوبیت اور مالکیت کو قبول کرتاہے اس کے بعد صبرکا مرحلہ آتاہے اور اسے صبرواستقامت کادامن پکڑنا ہوگا۔ امام غزالی رحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل فرماتے ہیں کہ صبرکی تین اقسام ہیں:

1- فرائض واحکام پرصبر؛ جیسا کہ نماز، روزہ، حج، والدین اور رشتہ داروں کے حقوق نیز حقوق اللہ اور سارے بندوں کے حقوق۔ امام غزالی رح نے اس صبر کے ثواب کو300 درجے تک قراردیاہے۔
2- برائیوں سے دور رہنے اورگناہ نہ کرنے پرصبر کرنا۔ انسانی خواہش اور نفس ہمیشہ گناہ کی طرف دعوت دیتی ہے اور قرآن نے نفس کو “أمارۃ بالسوء” قرار دیاہے یعنی بڑی شدت کے ساتھ برائی کاحکم دینے والا نفس۔ مگر وہ نفس اور دل جو پاک ہواور تزکیہ کے عمل سے گزراہو۔
اس نوع کی تشریح کرتے ہوئے مولاناعبدالحمید دامت برکاتہم نے کہا ہر انسان جانوروں اور فرشتوں کی طبیعت وخصوصیت کے درمیان ایک حد پرہے۔ فرشتے ہرگز گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے اور ان کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ دوسری جانب جانور عقل سے فارغ مخلوق ہے، جو چیز اس کی خواہش اور ضرورت کاتقاضا ہو اسے کرہی گزرے گا۔ جانوروں کے لیے حلال وحرام کی تفریق نہیں ہے۔ انسانوں میں ربانیت والی روح ہے۔ نیکی اور بھلائی کی استعداد اللہ تعالی نے ہرانسان میں رکھی ہے۔ اسی طرح اسے عقل کی نعمت سے بھی نوازاہے جو اسے ناجائز خواہشات سے دور رکھتی ہے۔ اس لیے جو شخص اپنے نفس کی پیروی نہیں کرتا وہ معاصی اور برائیوں سے دور رہنے پرصبر کرنے والا شمار ہوگا۔ایسے ہی افراد جو اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہیں انہیں بہشت میں یہ نوید دی جاتی ہے: «ولکم فیها ما تشتهی أنفسکم و لکم فیها ما تدعون.»
صبرکی تیسری قسم کی وضاحت کے ضمن میں خطیب اہل سنت نے کہا صبرکی تیسری نوع مصیبت اور ابتلا کے وقت صبرکرناہے۔ جوفرد مصیبت میں مبتلا ہوتاہے یا کسی آفت اور بلا کے شکنجے میں آتاہے مگر صبرسے کام لیتا ہے تو اللہ تعالی اسے اجر دیں گے۔ جو افراد مصیبت کے وقت صبر کا دامن پکڑتے ہیں اللہ رب العزت نے ان کی تعریف یوں کی ہے: « الذین إذا أصابتهم مصیبة قالو إنا لله وإنا إلیه راجعون اولئک علی هدی من ربهم و اولئک هم المهتدون»۔ ۔صابر شخص پر اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، ہدایت ورشد کی راہیں اس کے لیے کھلتی ہیں۔ جو لوگ عبادات کاخوب اہتمام کرتے ہیں لیکن مصیبت کے وقت جزع فزع اور چیخ وپکار سے کام لیتے ہیں یہ آیات ان پرصادق نہیں آتیں۔ انسان کو اللہ تعالی کی قضا وقدر اور فیصلے پر رضامند ہونا چاہیے۔غزوہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر(70) جلیل القدر صحابی شہادت سے ہمکنار ہوئے مگرآپ (ص) نے ان کی جدائی اور فراق کی مصیبت پرصبرسے کام لیا۔
دارالعلوم زاہدان کے شیخ الحدیث نے مزید کہا جب انسان اس تصور کو اپنے ذہن میں لاتاہے کہ اس فانی دنیا نے پیغمبروں اور اولیاء سے وفا نہیں کی اور ان پرمصائب وبلایا آئے تو اس کاغم ہلکا ہوجاتا ہے اور اس سے صبر و استقامت پرعمل آسان ہوجاتاہے۔
علمائے کرام فرماتے ہیں ایمان کے دوحصے ہیں۔ ایک صبر ایک شکر۔ نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور بوقت مصیبت صبر کرنا چاہیے۔ قرآن پاک نے بھی دنیا کو آزمائشوں اور ابتلاؤں کی جگہ قرار دیا ہے۔ اس لیے صبر کی تینوں اقسام پر عمل کرنا چاہیے۔
جامع مسجد مکی کے خطیب نے کہا مصیبت کے وقت “اناللہ واناالیہ راجعون” پڑھ کر صبر کا دامن تھامنا چاہیے تا کہ خالق کی رحمتیں نازل ہوں۔ صبر واستقامت اگرچہ کڑوا گھونٹ ہے مگر اس کا انجام بہت میٹھا ہے۔ صبر کی برکت سے بند دروازے کھل جاتے ہیں۔
موضوع کے آخر میں انہوں نے کہا دینی احکام میں سے جس مسئلے کا حکم فرض، واجب یا سنت ہے تو اس پر صبر کرنا اور مداومت سے عمل کرنے کا حکم بھی وہی ہے۔
اپنے بیان کے دوسرے حصے میں مولانا عبدالحمید نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے قومی دن کے حوالے سے کہا ایٹمی توانائی ہمارا حق ہے لیکن ایٹمی ہتھیار نہیں۔ اگر ایٹمی توانائی  پِرامن مقاصد کے لیے حاصل کیے جائیں تو یہ ہماری قوم کا حق ہے۔ امید ہے اللہ تعالیٰ اس موضوع سے متعلق مشکلات حل فرمائے اور ہماری قوم اور حکومت کو مزید مشکلات سے دوچار نہ کرے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں