حصول علم کے لیے علمی اسفار
مفتی خدانظر رحمہ اللہ نے ابتدائی تعلیم افغانستان کے بلوچ اکثریت جنوبی صوبہ نیمروز میں حاصل کیا۔
عالم اسلام کے نامور علمائے کرام سے استفادہ اور اپنی علمی پیاس بجھانے کے شوق نے مولانا خدانظر رحمه الله کو پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان کے دارالحکومت “کوئٹہ” کی جانب روانہ کردیا۔ پاکستان کے نامور اور مایہ ناز علمائے کرام مولانا محمد یوسف بنوری اور مولانا ادریس کاندھلوی رحمہمااللہ سے استفادہ کے ولولے سے سرشار مفتی خدانظر رحمه الله نے کوئٹہ کے بعد ”سبی” اور ”مستونگ” کا رخ کیا۔ ان دو عظیم ہستیوں سے استفادہ وکسب فیض کے بعد آپ رحمه الله نے ترجیح دی کہ لاڑکانہ (سندھ) اور لاہور کا رخ کرے۔ آخرالامر اس علمی سفر کا اختتام ملتان پر ہوا جہاں آپ کو مشہور فقیہ، علامہ اور پختہ سیاستدان مفتی محمود رحمه الله کے سامنے زانوئے تلمذ رکھنے کا شرف حاصل ہوا۔
مفتی محمود رحمہ اللہ کے قائم کردہ ادارہ “قاسم العلوم” کئی سالوں تک آپ کا ماویٰ ومسکن رہا۔ اسی ادارے میں قیام کی برکت سے آپ کو علم وفقہ میں تبحر حاصل ہوا اور آپ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مصداق بن گئے کہ جو ایک جگہ ٹھہرجائے وہ ترقی کرے گا، امام اعظم رحمہ اللہ حماد بن سلیمان کے پاس ٹھہر گئے اور ترقی کی منازل طے کرگئے۔
آپ کے مشائخ
اپنے طویل علمی اسفار کے دوران آپ نے متعدد مشائخ واساتذہ سے کسب فیض کیا۔ ان میں سب سے گرانقدر وقابل ذکر مفتی محمود رحمه الله تھے جن کا تذکرہ ابھی گزرگیا۔ مفتی خدانظررحمه الله نے بہت ساری بڑی کتابیں آپ سے پڑھیں جیسا کہ صحیح بخاری، ترمذی، علامہ مرغینانی کی الہدایۃ، التوضیح والتلویح، التصریح، امور عامہ،ملا صدرا شیرازی، شمس البازغۃ اور درالمختار۔
مفتی خدانظر رحمه الله انتہائی ذہین اور صاحب استعداد طالبعلم تھے اور درس کے دوران ہمیشہ اساتذہ سے مباحثہ کرکے علمی سوالات پوچھتے تھے۔ اسی وجہ سے اساتذہ کی نظروں میں ان کا ایک خاص مقام تھا۔ یہاں تک کہ ان کی سند فراغت پر یہ جملہ درج کیا گیا “جو ملکہ اس طالبعلم کو حاصل ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں۔” یہ تائیدی جملہ مفتی خدانظر کے معاصرین اور ہم سبق ساتھیوں میں سے کسی اور کی سند پر نہیں لکھا گیا سوائے علامہ موسی خان بازی رحمہ اللہ۔
مفتی خدانظر رحمه الله کی تدریسی زندگی
شروع میں آپ اپنے استادمولانا غلام رسول عباسی کی درخواست پر لاڑکانہ کے معروف مدرسہ دارالفنون میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد آپ کوئٹہ منتقل ہوئے اور کئی سالوں تک اس شہر میں تعلیم وتدریس کے مسند پر فائز رہے۔ مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ (بانی دارالعلوم زاہدان) کے اصرار پر آپ دارالعلوم زاہدان تشریف لائے اور زندگی کے آخری ایام تک افتاء وتدریس سے وابستہ رہے۔
فقہ میں آپ کی مہارت
مفتی خدانظر رحمہ اللہ فقہ میں انتہائی ماہر تھے اور ان کی فہم بہت وسیع تھی۔ آپ کے حلقہ ہائے درس کا امتیاز یہ تھا کہ مسائل پوری طرح بیان ہوتے تھے اور آپ کوئی جائے سوال واعتراض باقی نہیں چھوڑتے۔ تمام مذاہب کی آراء اور فقہاء کے اقوال ذکر کرنے کے بعد قول راجح کو بیان فرماتے تھے۔ بعض اوقات آپ بعض مسائل کو بحث مباحثہ کیلیے طلبہ کے سامنے رکھتے تا کہ انہیں مزید تحقیق کرنے پر مجبور کیا جائے۔ آپ کا ممتاز طریقہ یہ تھا کہ مسئلہ بیان کرنے سے پہلے آپ قواعد کلیہ اور مذہب کی روسے اس کی تشریح فرماتے پھر اصل مسئلے کی طرف لوٹتے جو بیان کردہ قاعدے پر متفرع ہوتا۔
فتوی دینے میں آپ کی شدید احتیاط وباریک بینی
افتاء کے حوالے سے آپ بہت حساس تھے۔ بغیر کامل تحقیق اور منابع و ماخذ کی تصدیق کے بغیر ہرگز کسی فتوے پر دستخط نہیں فرماتے تھے۔ اسی وجہ سے آپ کا وقت زیادہ تر مطالعہ اور کتابوں کے صفات پلٹنے پر گزرتا۔ بعض اوقات ورق گردانی کرتے کرتے نیند آپ پر غالب جاتی۔
آپ کی ایک عادت تھی کہ فقہی کتب میں مذکورہ اقوال کو بلامکمل تحقیق نقل نہیں کرتے تھے بلکہ پوری طرح چھان بین اور دلائل کے تجزیے کے بعد اگر تشفی ہوتی تو اسے قبول فرماتے۔اپنے شاگردوں کو بھی کہتے رہتے کہ کسی مسئلے کو دلیل کے بغیر پیش کریں نہ کسی اور سے قبول کریں۔
طلبہ اور مہمانوں سے حسن سلوک
آپ کی عادات مبارکہ میں سے ایک اچھی عادت طلبہ کی احوالپرسی اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھی۔ آپ کے درس سے اگر کوئی تعلق والا طالبعلم غیر حاضر رہتا تو آپ اس کے بارے میں معلومات لیتے اور جب تک مطمئن نہ ہوتے تو مسلسل اس طالبعلم کے بارے پوچھتے رہتے۔ مفتی خدانظر رحمه الله طلبہ کی مختلف تقریبات میں بھی شریک ہوتے۔ آپ کو اگر کھانے پینے کی کوئی چیز پیش کی جاتی تو آپ کوئی نہ کوئی طالبعلم کو شریک بنا کر تناول فرماتے۔ آپ کے پاس اگر کوئی صاحب علم یا ادنی تعلق رکھنے والا شخص آتا تو جس قدر ان سے ہوسکتا آپ اس شخص کا اکرام و احترام کرتے۔ اس بارے میں کسی اور سے ایک روپیہ بھی قبول نہ کرتے اور ذاتی پیسوں سے خرچ فرماتے۔ نیز آپ رحمه الله غریب طلبہ کی مالی معاونت کیا کرتے تھے۔ جب بھی انہیں اطلاع ملتی کہ کسی طالبعلم کو مالی مدد کی ضرورت ہے تو آپ اس طالبعلم سے تعاون فرماتے تھے۔
وسعت ظرفی اور فراخدلی
عام طور پر اہل فقہ اور فقہ کی تدریس کرنے والے حضرات اپنے مخالف مکتبہ فکر کی آراء کو تحمل نہیں کرتے لیکن مفتی خدانظر رحمه الله اس حوالے سے انتہائی فراخ دل تھے اور اپنے مخالفین حتی کہ مبالغہ کرنے والے تنگ نظر لوگوں کی باتیں اور طعنے بڑے سکون سے سنتے اور ان کا اختلاف ہمیشہ فکری اختلاف سے آگے نہیں بڑھتا۔
زہد وتقوا
زہد وتقوا اور سادہ زیستی میں آپ ایک مثالی شخص تھے۔ آج کل بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ بود وباش میں سادگی اختیار کرکے کم ذرائع پر اکتفا کریں۔ آپ کی درویشانہ زندگی کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے انتقال کے بعد صرف دو جوڑا کپڑے، دو چشمے، ایک عصا، جوتے، افغانی چادر جسے سردیوں میں اوڑھتے تھے اور کچھ کتابیں ان کا کل سرمایہ تھے۔
حالات حاضرہ اور آپ کی سیاسی بصیرت
مفتی صاحب رحمه الله ہمیشہ خود کو حالات حاضرہ اور دنیا کی تازہ ترین صورتحال سے باخبر رکھتے تھے۔ دنیا کے بدلتے حالات اور معاشرے کی تبدیلیوں کے حوالے سے انتہائی مفید تجزیے اور قوی رائے پیش کرتے تھے۔ اس کے باوجود ترجیح دیتے تھے کہ سیاسی مسائل میں زیادہ گہرائیوں تک جاکر اپنا وقت صرف نہ کردیں۔ نئی تبدیلیوں کے حوالے سے بڑی بہادری سے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے تھے۔ کسی شخص کی بڑائی اور شخصیت سے ڈر کر وہ ہرگز حق بات چھپانے کے حق میں نہیں تھے۔
آپ کے علمی آثار وتصانیف
مفتی خدانظر رحمه الله نے متعدد تحقیقی رسالے تحریر فرمایا ہے جو آپ کی علمی پختگی اور فہم کی وسعت کی دلیل ہے۔ ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
1۔ ارشاد الحیران فی حشو الاسنان۔ یہ رسالہ دانتوں پر کیمیاوی مواد لگانے اور اس کے متعلق احکام کے بارے میں ہے۔
2۔ بیع الوفاء (رہن اور مکانوں کے کرایے کے احکامات)
3۔ الکلمات الطیبات فی اتخاذ الطعام للاموات(سوگ کے دنوں میں پر کھانے کی تقسیم کی رد میں)
4۔ شرح ابن عقیل کے حواشی (جو ابھی تک شائع نہیں ہواہے۔)
5۔ محمود الفتاویٰ جو کئی جلدوں میں ہے۔ یہ کتاب آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے جس کی چار جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں۔
سانحہ ارتحال
زاہدان شہر کے خاتم الانبیاء اسپتال میں تیرہ ربیع الاول 1421ھ،ق بروز جمعہ کو آپ کا انتقال ہوا۔ دو دن تک صاحب فراش رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس عظیم ہستی کو اپنے پاس بلایا۔ آپ کا جسد خاکی جامع مسجدمکی منتقل ہوا جہاں جمعہ کی نماز کے بعد پچاس ہزار سے زائد نمازیوں نے آپ کے جنازے میں شرکت کی۔ ہزاروں سوگواروں اور تلامذہ ومتعلقین نے آپ کی تشییع جنازے میں شرکت کرکے زاہدان کے قبرستان میں آپ کو سپرد خاک کیا۔
رحمہ اللہ تعالیٰ وجعل الجنۃ مثواہ
آپ کی رائے