جامع مسجد مکی کے خدمات اور مختصر تعارف

جامع مسجد مکی کے خدمات اور مختصر تعارف
makki-mosqueمسجد کا محل وقوع اور رقبہ: عہد ساز اور شاندار تاریخ کی حامل جامع مسجد مکی ایران کے جنوب مشرقی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں واقع ہے۔ اس عظیم مسجد کا کل رقبہ پچاس ہزار مربع میٹر ہے۔

مسجد کی تعمیر سے پہلے کے حالات پر ایک نظر
اس عظیم جامع مسجد کے مقام اور ملک کے طول وعرض میں اس کے شاندار خدمات کا اندازہ لگانے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کس ماحول میں اور کن حالات میں یہ شاندار مسجد معرض وجود میں آئی۔ آج سے چالیس سال قبل ایرانی عوام مجموعی طور پر انتہائی جاہلانہ آداب ورسوم کے خوگر ہوچکے تھے۔ جن کے آباؤ اجداد کے علم وفہم پر عالم اسلام فخر کرتاتھا وہ بری طرح سماجی، اخلاقی، سیاسی اور معاشی طور پر پستی کی خطرناک کھائی میں گرچکے تھے۔  اہل سنت والجماعت کے ماننے والے بهی اپنے پڑوسیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے تھے۔ ان کے عقائد واعمال میں بعض غلط اور خرافات پر مبنی عقائد، بدعات اور شرکیہ افعال شامل ہوچکے تھے۔
صنف نازک کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ بعض اوقات عورتیں جائیداد کی طرح میراث میں مملوکہ بن جاتی تھیں۔ دوسری جانب قوم پرستی اور لسانی تعصبات پر مبنی نعرے بلند ہونے لگے جو سراسر اسلام کی منافی ہے۔
ایرانی بلوچستان میں متعدد بلوچ قبائل آباد ہیں۔ یہاں بلوچ قبائل واقوام کے قبائلی جھگڑے عام ہوچکے تھے۔ ظاہر سی بات ہے قبائلی نزاعات مسلح لڑائیوں تک پہنچ جاتے اور چھوٹا سا اختلاف خطرناک لڑائی کی شکل اختیار کرتا اور اس لڑائی کی چکی میں ہر قبیلہ کئی سالوں تک پیستا رہتا۔ زندگی ایک مصیبت بن جاتی اور انہیں تباہی کے منہ تک لیجاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر کچھ اور تھی۔ اللہ کی تقدیر یہ تھی کہ ایران میں اپنے دین حق کی نصرت کے لیے اس قوم سے کام لے اور اس طرح زاہدان جو علمی، ثقافتی، معیشتی اور سیاسی لحاظ سے انتہائی پسماندہ شہرتھا “دارالسنة” اور حافظان قرآن وعلمائے کرام کا مرکز بن گیا۔
در اصل بعض تنگ نظر عناصر اور فاشسٹ سرکاری حکام کی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان بطور عام اور زاہدان بطور خاص پسماندہ اور ایک مجہول علاقہ بن گیاتھا جہاں کوئی سراٹھا سکتا تھا نہ دنیا میں کوئی ان علاقوں کی طرف توجہ دینے کی زحمت کرتا تھا۔

بیداری واصلاح کا دور
اس مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے زاهدانی عوام کی اصلاح، بیداری اور منظم ہونے کے اسباب مہیا فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے رجال کو بیداری وآگاہی نصیب فرمائی جو اسلامی غیرت وحمیت کے پیکر تھے اور امت کے لیے درد وسوز رکھتے تھے۔ اس عظیم جماعت نے عوام کو شعور دلانے اور ان کے پوشیدہ صلاحیتوں کو صیقل کرنے کے لیے دن رات ایک کردیے اور پوری کوشش ولگن کے ساتھ اس قوم کے مستقبل کو روشن بنانے کے لیے انتھک محنت کی۔ عظیم داعی حق اور ممتاز عالم دین علامہ عبدالعزیز ملازادہ رحمہ اللہ (1916۔1987) اس “اصلاحی نیٹ ورک” کی قیادت کررہے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس عہدساز اور دیندار قوم کی قیادت کو 1956ء میں حضرت مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ کے حوالے کردیا۔

جامع مسجد مکی کا سنگ بنیاد
مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ نے 1971ء میں تقوا اور اخلاص کی بنیاد پر اس مسجد کی تاسیس فرمائی جب وہ اس کے مستقبل کے بارے میں پر امید ہونے کے ساتھ فکرمند بھی تھے۔
اس عظیم مسجد کی تعمیر وتاسیس زاہدانی عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ سو یہ مسجد اس قوم کا مرکز حیات بن گیا جہاں وہ علم دین کی روشنائیوں اور انوار سے آگاہ ہوتے، ان کی اصلاح وتزکیہ کا بہترین مرکز ہونے کے علاوہ روزمرہ معاشرتی ودینی مسائل کے حل کی جگہ بھی جامع مسجد مکی بن گئی۔ شاندار ماضی کی حامل مکی مسجد پورے خطے کے لوگوں کے لیے ایک فوار سرچشمہ جاویدان ثابت ہوئی جس سے علم وہدایت کے چشمے پھوٹتے رہے اور اصلاح وتربیت کا نور انسانیت کو منور کرتارہا۔ اسی مسجد کے منبر پر بیٹھ کر کئی سالوں تک مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ عوام الناس کو دین کے حقائق ومعانی سمجھاتے رہے۔ مولانا رحمہ اللہ یہیں پر ایرانی اہل سنت کے جائز حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے اور انہیں اس راہ میں شدید مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا. یہاں تک کہ قضائے الہی سے اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہزاروں سوگواروں کو غمزدہ چھوڑ کر اپنے خالق کے پاس کوچ کر چلے گئے۔
لیکن جو پودے انہوں نے اگایا تھا وہ پک گئے تھے۔ چنانچہ مولانا عبدالعزیز (رح) کے سانحہ ارتحال کے بعد ان کے قابل اعتماد ساتھی اور دارالعلوم زاہدان کے مہتمم مولانا عبدالحمید ۔دامت برکاتہم۔ نے ان کے مشن کو جاری رکھا۔
“شیخ الاسلام” کے مبارک لقب کا اعزاز حاصل کرنے والے مولانا عبدالحمید ۔دامت برکاتہم۔ کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ بانی دارالعلوم کی عدم موجودگی کی خلاء کو کیسے پر کیا جائے اور ان کے عظیم مقاصد کو حاصل کرنے کی کاوشوں کو کیسے جاری رکھا جائے۔ دن رات ان کا ذہنی مشغلہ یہی تھا کہ ان کوششوں کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔ سنی مسلمانوں کے حقوق انہیں ملنے چاہیے۔ انہیں آزاد وباعزت زندگی گزارنی چاہیے جہاں وہ بغیر کسی روک ٹھوک کے اپنے خالق کی عبادت کرسکیں اور اپنی دینی خصوصیات کی حفاظت کرنے کے اہل ہوں۔ انہی سوچوں نے حضرت شیخ الاسلام کو ہر طرح کی آسائشوں اور راحتوں سے دور رکھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی اور جان ومال اسی سوچ اور درد وسوز کے لیے وقف کررکھی ہے اور اس سوز وگداز کی تپش کو ان کے بیانات سے بآسانی محسوس کی جاسکتی ہے۔
حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم کی انتھک محنتوں اور شب وروز کوششوں کی برکت سے قبائلی وعلاقائی لڑائیاں جڑ سے ختم ہوگئیں اور خلق خدا کا خون محفوظ ہوا۔
تو اس مسجد اور اس کے خدام کی کاوشوں کی بدولت تمام بلوچ قبائل متحد ومتفق ہوگئے۔ آپس کی رنجشوں کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہا۔

مسجد کی توسیع کا پروگرام

زاہدان کی آبادی کا حجم بڑھنے کے ساتھ ساتھ نمازیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہاتھا۔ تو حضرت شیخ الاسلام نے مسجد کو چاروں اطراف سے توسیع کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور عوام کی قربانیوں کی بدولت مسجد کے آس پاس پلاٹوں اور عمارتوں کو بھاری رقم کے عوض خریدا گیا۔ مگر سولہ سال گزرنے کے باوجود فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کی توسیع کا کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔
اسی وجہ سے سڑکوں اور گلیوں میں جمعہ کی نماز کے لیے صفیں بنائی جاتی ہیں۔ اس توسیعی پروگرام کی تکمیل کے بعد جامع مسجد مکی ایران کی سب سے بڑی مسجد بن جائے گی۔
گزشتہ برس سے توسیع کا نیا فیز اللہ کے فضل و کرم سے شروع ہوا. مسجد کی پرانی عمارت کو حال ہی میں منہدم کردی گئی جو اب مسجد کی نئی عمارت کا حصہ بن چکی ہے.

تقریبات ومقابلات
1991ء میں دارالعلوم زاہدان (جو مکی مسجد کے ساتھ ہی واقع ہے) کے فارغ التحصیل طلبہ کے پہلے گروپ کے اعزاز میں ایک تقریب جامع مسجد مکی میں منعقد کی گئی۔ اب کئی سالوں سے یہی تقریب ایرانی اہل سنت والجماعت کا سب سے بڑا اجتماع بن چکاہے۔
زاہدان کے باہر سے آنے والے وفود کے پرجوش استقبال اور شدید اصرار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مبارک تقریب کا دورانیہ دو دن تک بڑها دیاگیا۔ اس ایمانی تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے وفود اور شخصیات شریک ہوتے ہیں جن میں علمائے کرام، تعلیم یافتہ طبقہ اور عام مسلمان سرِ فہرست ہیں۔
اسی طرح گزشتہ کئی سالوں سے صوبائی اور ملکی سطح پر حفظ قرآن اور قراء ت کے مقابلے اس مسجد میں منعقد ہوتے ہیں۔
دینی مدارس کے طلباء پر ان مقابلوں کا انتہائی مفید اثر پڑاہے۔
نیز اس عظیم مسجد میں دینی مدارس کے درمیان صوبائی سطح پر مختلف موضوعات کے حوالے سے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ مقابلے مقالہ نگاری، تقریر اور گروپ نظم خوانی جو فارسی، عربی، بلوچی اور انگریزی زبانوں میں منعقد ہوتے ہیں۔ ان مختلف النوع مقابلوں کا طلبہ کے مستقبل کو روشن بنانے میں اہم کردار حاصل ہے۔

نوجوانوں کا اسکواڈ (انتظامات)
جامع مسجد مکی کا تعارف ناقص ہوگا اگر ان مخلص اور قربانی دینے والے نوجوانوں کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ زاہدان کے مومن وجفاکش نوجوانوں کا منظم دستہ “ستاد انتظامات ” 1993ء سے باقاعدہ اسکواڈ کی شکل میں خدمات سرانجام دے رہاہے۔ اس گروپ کے ذمے دار محترم امان اللہ ناروئی صاحب ہیں۔
انتظامات اسکواڈ کی ذمہ داریوں میں مسجد کی صفوں کو منظم کرکے مسجد کی حدود سے باہر نمازیوں کے لیے کارپٹس کا انتظام کرنا، جامع مسجد مکی اور ساتھ واقع دارالعلوم زاہدان اور اساتذہ کے گھروں کی حفاظت کرنا، نیز دینی وعلمی تقاریب کو نظم وضبط سے منعقد کرانا شامل ہے۔

معاشرے میں جامع مسجد مکی کا مقام

سنی قوم اس مسجد کو ایران کے آسمان میں اپنا واحد ستارہ نجات سمجھتی ہے جسے رات کی تاریکیوں میں رہ نمائی و روشنائی فراہم کرتی ہے۔ مکی مسجد سنی مسلمانوں کے ارمانوں اور سوچوں کا مرکز ہے۔ جب بھی دنیا اور زندگی کے ناموافق حالات کا انہیں سامنا ہوتاہے تو اس مسجد سے بہتر کوئی اور جائے پناہ انہیں میسر نہیں ہوتا جہاں وہ اپنی مشکلات کا حل پاتے ہیں۔
یہ مسجد مسلمانوں کے مال وجان اور عزت کی محافظ ہونے کے ساتھ بدعات وشرکیہ حرکتوں کے لیے ننگی تلوار بھی ہے۔ اسی مسجد میں مختلف علاقوں کے علمائے کرام اور اہل فکر جمع ہوکر امت کے فلاح وبہبود کے لیے تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ معاشرے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات جن کا تعلق مختلف مسالک اور فکری حلقوں سے ہے اسی مسجد میں جمع ہوکر اپنی قوم کے لیے فیصلے کرتے ہیں۔
اسی لیے انتخابات ودیگر سیاسی میدانوں میں ایرانی اہل سنت متحد نظر آتی ہے۔
اس اتحاد ویک جہتی کی برکت سے وہ سنی قوم جو فراموشی کے گرد وغبار میں گم ہوچکی تھی اور اس کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا ایک مضبوط ومتحد ملت کے طور پر سامنے آئی جسے دنیا فخر وعزت اور احترام کی نظروں سے دیکھتی ہے۔ اسی لیے یہ مبارک مسجد اہل سنت والجماعت کے لیے عزت وفخر کی علامت بن چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو ہر طرح کی بلاؤں اور مصیبتوں سے محفوظ رکھے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں