علامہ احمد مفتی زادہ کی جہد مسلسل عبارت زندگی پر ایک نظر

علامہ احمد مفتی زادہ کی جہد مسلسل عبارت زندگی پر ایک نظر
moftizadehاسلام کا سورج جزیرہ نمائے عرب میں  طلوع ہوا جس نے رفتہ رفتہ عراق، شام اور فارس کے باسیوں کو اپنے آغوش میں لیا۔ دیگر اقوام کی طرح کرد قبائل بھی مشرف بہ اسلام ہوئے جنہوں نے آگے چل کر اسلامی تاریخ میں ایک مسلم قوم کی حیثیت سے اہم کارنامے سرانجام دیے۔

کردوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں صلیبیوں کیخلاف جہاد میں بڑھ چڑ کرحصہ لیا۔ اس کے علاوہ اس قوم کی ماؤں نے بہت سارے علماء وائمہ کرام جنم دیے جنہوں نے اسلامی کتب خانوں میں بڑی تعداد میں تصنیفات چھوڑ دیے۔ کرد علماء ومصنفین کے سوانح عمری شیخ عبدالکریم مدرس کی کتاب “ہمارے علماء کے علمی خدمات” میں تفصیل سے دستیاب ہیں۔
بعض کرد علمائے کرام کے نام جن کے اسلام اور مسلمانوں کے لیے خدمات ناقابل فراموشی ہیں درج ذیل ہیں۔ محمد بن محمد(ابن اثیر) جو کرد نژاد ہے، احمد بن محمد بن ابراہیم بن خلکان، معروف شاعر احمد شوقی، احمد تیمور پاشا، متعدد تصانیف کا اعزاز حاصل کرنے والا ابراہیم کورانی، ابراہیم فصیح حیدری جن کی مایہ ناز تفسیر “فصیح البیان فی التفسیر القرآن” مشہور ہے اور علامہ شیخ احمد مفتی زادہ جن کے سوانح عمری مختصراً اس مقالے میں پیش کیے جائیں گے۔ اس مختصر میں ان کی جد وجہد، مزاحمت اور استقامت بھری زندگی کا احاطہ یقینا ًمشکل ہے۔
علامہ مفتی زادہ (رح) کی پیدائش 1933ء کو ایرانی کردستان کے دارالحکومت “سنندج” میں ایک دیندار گھرانے میں ہوئی۔ آپ کے والد محمود مفتی اور چچا کا شمار کردستان کے ممتاز علمائے کرام میں ہوتاتھا۔ آپ کے دادا علامہ عبداللہ دشی نیز کردستان کے مایہ ناز عالم دین تھے جن کا نام عبدالکریم مدرس کی کتاب “علماءنا فی خدمۃ العلم” میں اکابر علماء کردستان کی فہرست میں درج ہے۔
علامہ عبداللہ (علامہ مفتی زادہ کے دادا) ” باوہ” شہر کے مضافاتی علاقہ “دشہ” سے سنندج منتقل ہوئے جہاں اسلامی علوم اور شریعت کی تبلیغ وتعلیم کے لیے آپ نے مرکزی شہر سنندج کو اپنا مرکز بنالیا۔
علامہ عبداللہ رح کے چھ صاحبزادے تھے جنہوں نے عالم اسلام کے مختلف شہروں میں قابل قدر خدمات سرانجام دیے۔
1۔ ممتاز عالم دین ماموستا ملا محمد رشیدی جن کا انتقال بیروت میں ہوا۔
2۔ ملا خالد مفتی جو وفات تک کردستان کے قاضی القضاۃ تھے۔
3۔ برہان الاسلام ملا محمد مہری جو استنبول یونیورسٹی میں عربی زبان اور حقوق کے استاذ تھے۔
4۔ تہران یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر محمد صدیق مفتی زادہ۔
5۔ ڈاکٹر عبدالرحمن مفتی زادہ ۔
6۔ شیخ احمد مفتی زادہ رح کے والد ماموستا محمود مفتی زادہ جو علامہ عبداللہ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔
ماموستا محمود مفتی اکثر اسلامی علوم خاص طور پر فقہ، اصول اور فلسفہ میں ماہر تھے۔
اپنے والد کی حیات ہی میں آپ کردستان کے قاضی متعین ہوئے۔ اس کے بعد فقہ شافعی کے ممتاز پروفیسر کے طور پر تہران یونیورسٹی میں کئی سالوں تک خدمات سرانجام دیتے رہے۔
حالات نے کرد عوام کو کئی ملکوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک ہی زبان وثقافت کے لوگ مختلف ملکوں کے حکمرانوں کے رحم وکرم پر رہے جنہوں نے ان کے بنیادی حقوق غضب کردیے۔
ایسے میں بعض ایسی تنظیمیں منظر عام پر آئیں جو کرد قوم کی آزادی کے نعرے لگانے لگے۔ بے شمار کرد نوجوانوں کی طرح ”کاک احمد” نے بھی ڈیموکریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اپنے دور میں یہ جماعت سب سے منظم اور بڑی کرد پارٹی تھی۔ 1962ء کو مذکورہ پارٹی میں شمولیت کے الزام میں کاک احمد گرفتار ہوئے۔
جیل میں دوران قید ایک خواب نے ان کی سوچ میں یوٹرن لایا۔ علامہ مفتی زادہ رح کو یقین ہوگیا کہ نجات کا واحد راستہ اور مقابلہ ومزاحمت کی راہ صرف ایمان ہے اور انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ قرآن وسنت سے دوری ہے۔
کچھ عرصے کے بعد ” کاک مفتی زادہ” کی رہائی ہوئی اور 1963ء کو آپ نے سنندج کی سید مصطفی مسجد سے اپنی دینی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ اسی بارے علامہ مفتی زادہ رح فرماتے ہیں: ” بعض حالات و واقعات کے ضمن میں ایک عرصے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری سابقہ سرگرمیاں اور طور طریقہ غلط تھا۔ 1962ء کے بعد میں نے پورے عزم کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز پر اسلامی انقلاب کے لیے جد وجہد کا آغاز کردیا۔”

ازدواجی زندگی
جب کاک مفتی زادہ عراق میں تعلیم حاصل کررہے تھے تو خالہ زاد بہن سے ان کی شادی ہوئی مگر کچھ مسائل کی وجہ سے یہ رشتہ ناکام ہوا۔ آپ کی دوسری شادی ایک ممتاز کرد عالم دین کی صاحبزادی سے ہوئی جو حیات کے آخر تک آپ کے ساتھ رہیں۔ خدیجہ بنت حاجی عبدالرحمن کا تعلق اگر چہ ایک خوشحال ومالدار گھرانے سے تھا مگر وہ زہد، صبر اور استقامت کے نمونہ تھیں اور زندگی کے آخری لمحات تک اپنے داعی، خادم اور مبارز خاوند کی ہمدم وہمسفر ساتھی رہیں۔
آپ کی وفادار بیوی کا انتقال 1971ء میں ہوا۔ آپ کے انتقال کے بعد علامہ مفتی زادہ (رح) نے دوبارہ شادی نہیں کی اور پورے عزم وحوصلے کے ساتھ قرآن وسنت سے دفاع کرتے رہے۔

مناصب وسرگرمیاں
ایک مدت تک علامہ مفتی زادہ سنندج کے “دارالاحسان” اسکول میں پڑھاتے رہے۔ اس کے بعدتہران منتقل ہوئے جہاں ایک دفتر میں کام کرنے کے علاوہ تہران یونیورسٹی میں بھی لیکچرار مقرر ہوئے۔ نیز طویل عرصے تک ریڈیو تہران اور ریڈیو کردستان میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 1962ء کے بعد جب ان کی سوچ اور افکار میں تبدیلی آئی تو انہوں نے تکلفات سے دور سادہ اور درویشانہ زندگی گزارنے کو ترجیح دی اور موت تک غریبوں والی زندگی گزاردی۔ انہوں نے ہرگز خود کو ایسے اداروں اور تنظیموں سے وابستہ نہیں کیا جو آپ کے مالی مصارف برداشت کریں۔ چنانچہ علامہ مفتی زادہ رح خود فرماتے ہیں: “شروع میں “زاغہ” اور “دہ ردہ رھش” (دیواندرہ) نامی بستیوں میں زراعت سے وابستہ رہا اور زمینداری کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ اس کے بعد بعض ساتھیوں سے مل کر سنندج کے “امانیہ” نامی پرائیویٹ ادارے میں ملازمت اختیار کی۔”

علامہ مفتی زادہ بطور قاضی کردستان
کردستان میں “حاکم شرع” کا مطلب قاضی القضاۃ ہے جو عوام کے فقہی مسائل اور روزمرہ پیش آنے اختلافات کو شریعت کی روسے حل کرتاہے۔ قاضی کا عالم دین ہونا ضروری ہے جو عوام کے ایسے مسائل کا حل پیش کرتاہے جو سرکاری عدالتوں کے حوصلے سے باہر ہے۔ یہ منصب اگرچہ غیر سرکاری ہے لیکن سرکار کی طرف سے رجسٹرڈ اور قانونی ہے جس کے فیصلہ سرکاری عدالتوں کے فیصلوں کے برابر ہیں۔
علامہ مفتی زادہ کے چچا ماموستا خالد مفتی کے قضاوت سے استعفا کے بعد 1976ء میں کاک مفتی زادہ کو یہ منصب قبول کرنے کی پیش کش کی گئی۔ شروع میں انہوں نے انکار کیا پھر اس ڈر سے کہ کوئی نا اہل شخص کے ذمے یہ ذمہ داری نہ آئے، منصب قضاء کی اہمیت اور حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ مفتی زادہ رح نے یہ ذمہ داری قبول کی۔
ایرانی انقلاب سے ایک سال پہلے شاہ ایران کے دور میں حکومت سخت ان کے خلاف ہوئی۔ اس کی اصل وجہ علامہ مفتی زادہ رح کی سیاسی سرگرمیاں تھیں جو حکومت کے خلاف تھیں۔
لیکن علامہ کے قاضی شرع ہونے کی وجہ سے انہیں گرفتار نہیں کرسکتے تھے چنانچہ سازشوں کا سہارا لیتے ہوئے انہیں منصب قضاء سے برطرف کرنے کی سرتوڑ کوششیں شروع ہوئیں۔ لیکن قاضی کردستان علامہ مفتی زادہ رح نے مطالبہ کا مسترد کردیا۔ ان کامقصد ذاتی مفادات نہیں تھا بلکہ وہ اس پلیٹ فارم سے اپنی سرگرمیوں کو بہتر طریقے سے آگے بڑھا سکتے تھے۔ آپ نے انقلاب (1979ء) کی ابتدا تک اس ذمہ داری کے بوجھ اٹھاتے رہے پھر مشاغل ومصروفیات کی کثرت کی وجہ سے مستعفی ہوگئے۔
جیسا کہ پہلے گزرگیا آپ (رح) کی سیاسی ودینی سرگرمیوں کی ابتدا 1963ء سے ہوئی جو موت تک مسلسل جاری رہیں۔ ان کی پوری زندگی جہد مسلسل اور اصلاح ودعوت سے عبارت تھی، مساجد مدارس اور عوام الناس سے ان کا رشتہ ہمیشہ برقرار رہا۔ 1978ء میں انہوں نے “مریوان” شہر میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی پھر “سنندج” میں اسی طرح کا ایک اور مدرسہ تعمیر کیا۔ یہ مدارس خطے کے سنی نوجوانوں کے لیے بہترین تعلیمی ادارے ثابت ہوئے۔ جب انقلابیوں نے شاہ ایران کیخلاف تحریک چلائی اور کھلم کھلا مظاہرے اور جلسے شروع ہوئے تو علامہ مفتی زادہ نے اس تحریک کی حمایت کو اپنی ملی ودینی ذمہ داری سمجھ کر شاہ کیخلاف تحریک کا بھر پور ساتھ دیا۔ سنندج کی مسجد امین میں کئی جلسے منعقد کراکے عملی طور پر انہوں نے حکومت مخالف تحریک کا ساتھ دیا۔ اس راہ میں ان کے کئی ساتھی شہادت کے اعلی درجے پر بھی فائز ہوئے۔ علیحدہ پسند کردوں کی مخالفت بھی کرنی پڑی۔ علامہ مفتی زادہ رح نے اس امید کے ساتھ انقلابیوں کی حمایت کی کہ ظلم وفساد کا دور ختم ہوکر نور و کامیابی کا عہد زرین شروع ہوجائے گا۔
شاہ ایران کی شکست اور انقلابیوں کی کامیابی کے بعد جب نئے آئیں کا مسودہ تیار ہورہاتھا انہیں محسوس ہوا انقلاب اپنے نہج اور وعدوں سے عدول کررہاہے، مذہبی و مسلکی اور قومی اقلیتوں کے حقوق پامال ہورہے ہیں تو علامہ مفتی زادہ رح نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور بھرپور طریقے سے ان ظالمانہ شقوں کو مسترد کردیا۔
علامہ مفتی زادہ نے آئین کی بعض شقوں کی ترمیم کامطالبہ پیش کیا جس کے پاداش میں انہیں پس دیوار زنداں ڈال دیا گیا۔
جیل میں آپ کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ قید کے دوران آپ پر مظالم کے ایسے پہاڑ توڑے گئے کہ ان کاتصور بھی مشکل ہے۔ طرح طرح کے جسمانی ونفسیاتی تشدد کے تختہ مشق بننے والے علامہ مفتی زادہ رح کئی مہینوں تک تنگ وتاریک کوٹھڑیوں میں بند رہے جہاں سورج کی ایک کرن بھی نہیں جاسکتی تھی، چار مہینہ تک آپ کو ایک بیت الخلاء میں بند رکھاگیا۔
چنانچہ ممتاز سنی عالم دین کئی بیماریوں میں مبتلا ہوئے مگر اس کے باوجود ان کا علاج کرایا گیا نہ ہی کسی کو ان سے ملنے دیا گیا۔ یہاں تک کہ مرحوم مفتی زادہ نماز پڑھنے سے بھی عاجز ہوئے اور ڈاکٹروں نے انہیں قریب الموت قرار دیا۔
ایسے ہی حالات میں پانچ سال گزر گئے اور پوری سنی قوم ان کی آزادی کا انتظار کررہی تھی کہ ان کی خواہش پوری نہ ہوسکی اور علامہ مفتی زادہ رح سے کہا گیا کہ تحریری طور پر وعدہ کرے کہ آیندہ سنی مسلمانوں اور قومی اقلیتوں کے حقوق کی بات نہ کرے۔ مگر کوہ صبر و استقامت نے اس سے انکار کیا اور اپنے حقوق سے چشم پوشی کے بجائے جیل میں باقی رہنے پر رضامند ہوئے۔
ایرانی سنیوں پر ایسے برے حالات آنے کے با وجود ہرگز انہوں نے بندوق اٹھانے کا ارادہ تک بھی نہیں کیا اور قانونی راستے سے اپنے حقوق مانگتے رہے اور ان کی جد وجہد اب بھی جاری ہے۔

سانحہ ارتحال
دس سال کالی کوٹھڑیوں میں سڑے رہنے کے بعد جب ایرانی حکام کو یقین ہوگیا اس قیدی کے دن تھوڑے رہ گئے تو انہیں چھوڑ دیا گیا۔
دوران قید انہیں کئی لا علاج امراض لاحق ہوچکے تھے، انہیں اس قدر اذیت وتشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ وہ نابینا ہوگئے تھے۔ ان کی رہائی اس وجہ سے ہوئی کہ ان کی موت جیل سے باہر واقع ہو۔ آپ کی خدماتی زندگی کے آخری ایام چارپائی پر گزرے۔ آپ اگر چہ بیماریوں اور نت نئے تشدد و اذیتیوں کی وجہ سے از حد کمزور ہوچکے تھے مگر ان کی حق گو زبان پھر بھی نہ رکتی۔ جیل سے رہائی کے چند مہینہ بعد 1993ء میں اس عظیم دینی وسیاسی شخصیت کو اللہ تعالی نے دنیا کے غموں اور مصیبتوں سے آزاد کرایا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں