سنی طلباء کی چھٹی بین الصوبائی کانفرنس، رپورٹ

سنی طلباء کی چھٹی بین الصوبائی کانفرنس، رپورٹ
jalase-daneshزاہدان (رپورٹ: سنی آن لائن) دارالعلوم زاہدان کے شعبہ برائے یونیورسٹی طلباء نے گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی پورے ایران کی یونیورسٹیز سے تعلق رکھنے والے طلباء کیلیے ایک عظیم الشان اجتماع کا انتظام کیا جہاں نامور علمائے کرام اور دانشوروں سے استفادہ کا موقع انہیں میسر آیا۔
یہ دوستانہ اور محبت بھری کانفرنس جس میں ایران کے گوشہ وکنار سے سینکڑوں طلباء شریک ہوئے تین مارچ بروز بدھ بعد نماز مغرب شروع ہوئی جو چار مارچ کی عشاء کی نماز تک جاری رہی، اس اہم اور ایمانی اجتماع کی تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

تین مارچ (بدھ) کے پروگرامز
نماز مغرب کے بعد پہلی نشست کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا جس کے بعد “یزد یونیورسٹی” کے ایک اسٹوڈنٹ نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ اس کے بعد “پیام نور یونیورسٹی” اردکان میں فارسی ادب کے ماسٹر کرنے والے مولوی صلاح الدین شہنوازی نے “نظریاتی جنگ” کے بارے میں اپنے تحقیقی اور قابل قدر خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے قرآنی آیت«ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا…» کی تلاوت کے بعد حق وباطل کے درمیان صدیوں سے جاری معرکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت وپیدائش سے لیکر اب تک حق وباطل کا معرکہ جاری ہے۔ باطل تازہ ترین ذرائع اور وسائل سے لیس ہونے کے باوجود ہرگز اپنا مقصد پورا نہیں کرسکا جو حق اور اہل حق کا خاتمہ ہے۔
آگے چل کر مولوی شہنوازی نے بانی دارالعلوم کراچی مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ سے نقل قول کرتے ہوئے کہا حق سے لڑائی ومقابلہ میں باطل کے اہم ہتھیار جو انسانیت کی گمراہی و بربادی کے لیے استعمال ہوتے ہیں دو چیزیں ہیں، ایک شکوک وشبہات پیدا کرنا اور دوسرا ہیتھیار شہوات کو عام کرنا ہے۔ شبہات پیدا کرنے سے مسلمانوں کو اپنے دین وایمان میں کمزور کیا جاتاہے اور فحاشی وعریانی کو فروغ دیکر اسلامی ماحول اور معاشرے کو تباہ کیا جاتاہے۔
موصوف نے ہارون الرشید کے دور کے مغربی فلاسفروں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا مغربی فلاسفروں نے مسلمانوں کے سامنے اپنی شکست کے عوامل پر ریسرچ کیا۔ تحقیق کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اپنے فلسفہ اور سوچ کو مسلم علماء کا لبادہ اڑھا کر مسلمان علاقوں میں پھیلا دیا جائے تا کہ اس طرح مسلمانوں کی طاقت کے سرچشموں کا پتہ لگایا جاسکے اور ان مراکز کے خاتمہ کی کوشش کی جائے۔ اس مشن پر کام کرنے کے لیے انہیں مسلمانوں کے دارالحکومت جانا پڑا۔ فلاسفروں نے وہاں ایک مسافرخانے میں پڑاؤ ڈالا۔ چونکہ بظاہر مسلمان عالم دین لگ رہے تھے اس لیے لوگوں نے ان سے کہا آپ 24 گھنٹے تک مفت کھانا حاصل کرسکیں گے۔ فلاسفروں نے وجہ پوچھی تو مسلمانوں نے کہا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ یہ سن کر فلاسفروں نے آپس میں کہا مسلمانوں کی کامیابی کے نصف راز معلوم ہوا۔ اگلے دن بازار چلے گئے اور ایک دوکان سے کوئی چیز خرید کر چلے گئے۔ وہی چیز دوبارہ انہیں ضرورت ہوئی تو انہوں نے اسی دوکان والے کا رخ کیا جو سستا بیچتاتھا۔ جب وہاں پہنچے تو دوکان والے نے کہا میرے پڑوسی سے یہ چیز خریدیں۔ وجہ پوچھنے پر اس نے کہا میرے پڑوسی کے دوکان والے نے صبح سے اب تک کچھ نہیں کمایا ہے۔ اور اسلامی تعلیمات نے ہمیں یہ سبق دیا ہے۔ یہ سن کر فلاسفروں نے کہا مسلمانوں کی کامیابی کا راز پورا پتہ چل گیا؛ جو اپنے لیے پسند کرتے ہو دوسروں کے لیے بھی پسند کرو۔
مغربی فلاسفر واپس اپنے علاقے جاکر کارگزاری سنانے لگے۔ سارے دشمن فلاسفروں نے مسلمانوں کی ان خصوصیات کا اعتراف کیا۔ مسلمان معاشرے کو ان صفات حسنہ سے محروم کرنے کے لیے انہوں نے ایک سازش کا تا نابانا بن لیا۔ چنانچہ فلسفی کتابوں کا ترجمہ کراکے مسلمانوں کو اپنے فلسفہ سے آشنا کرانے لگے۔ جس معاشرے میں فلسفہ نے قدم رکھ دیا تو عقائد اور احکام الہی پر عمل کرنے کا جذبہ رفتہ رفتہ کمزور ہوجاتاہے۔مغربی فلاسفروں نے ہارون الرشید کے دربار میں اثر ورسوخ حاصل کرلیا اور اس طریقے سے اپنی کتابوں کی اشاعت کا کام کرتے رہے اور مسلمانوں کے ایمان پر نقب زنی کی کوششوں میں تیزی لاتے رہے۔ یہاں تک کہ ابن سینا ودیگر مسلمان دانشور میدان میں اتر کر انہیں شکست فاش سے دوچار کر گئے۔
مولوی شہنوازی نے نظریاتی جنگ کے دو اہم عناصر (استشراق اور استشمار) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: “لوئیس نہم” کہتاہے:« اذا اردتم ان تھزموا المسلمین فلا تحاربوھم بالسلاح…» یعنی مسلمانوں کو شکست دینے کے لیے مسلحانہ لڑائی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کی قوت ایمانی کو کمزور کیا جائے۔ چونکہ اسی قوت ایمانی اور عقیدے نے ان میں انقلاب کی روح پھونک دی ہے۔ ،مغربی فلاسفورں نے 600 سال تک جد وجہد جاری رکھی اور اپنی شکست خوردہ تہذیب کی تعمیر نو کے بعد “استشراق واستشمار” کے ہتھیاروں سے عالم اسلام پر حملہ آور ہونے لگے۔ اس کے بعد “رینشیسن” تحریک کی طاقت کے ذریعے شہوتوں اور عریانیت کے فروغ کے لیے سرگرم ہوئے۔
اردکان یونیورسٹی کے طالب علم اور ندائے اسلام میگزین کے رکن نے آخر میں مغرب کی چالوں کا بہترین توڑ اور مقابلہ قرآن کے احکامات پر عمل کرنے کو قرار دیا جو سورۃ العصر میں بیان ہوئے ہیں۔ انہوں نے مفتی محمدشفیع رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا تذکرہ کیا کہ عریانیت پھیلانے والوں کا راستہ “تواصوا بالحق وتواصوا بالصبر” سے بند کیا جائے۔ نور ایمان سے بہرہ ور شخص جہاں بھی ہو نور اور صحیح سوچ کے انوار کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے گا۔ صحیح سوچ کوشش ومحنت سے حاصل ہوتی ہے۔ دین اور ایمان بھی محنت سے حاصل ہوجاتے ہیں۔
مولوی شہنوازی کی تقریر کے بعد تہران کی “شہید رجائی یونیورسٹی” کے ایک طالب علم نے “دین بیزاری کے اسباب” کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ مقالے کی ابتدا میں انہوں نے دین کو سب سے مضبوط مادی معنوی ستون قرار دیا۔ انہوں نے کہا سعادت وکامیابی تک پہنچنے کے لیے خودشناسی اور اس کے بعد معاشرے سے مضبوط تعلق از حد ضروری ہے۔ دینداری اور اسلام دوستی کو کن خطرات کا سامنا ہے؟ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا سائنس، شادی اور دوستی قائم کرنے سے دینداری کو خطرہ ہوسکتاہے۔ چونکہ اسلام کی رو سے ایسے فن اور ہنر سے دوری کرنی چاہیے جو فرد کی دینداری کو خطرہ میں ڈالتاہے۔ اسی طرح ایسی دوستی ۔ شادی اور ازدواجی زندگی جس سے تدین اور دین داری کو خطرہ ہو اس سے بھی بچنا چاہیے۔ دین بیزاری کے بعض اسباب و وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے رجائی یونیورسٹی کے طالب علم نے کہا غربت، برا ماحول، ثقافتی وتہذیبی یلغار، تشدد اور بعض علماء کا غلط رویہ ایسی چیزیں ہیں جو افراد کو دین بیزار بناتی ہیں۔
آخر میں انہوں نے دین بیزاری کا راستہ روکنے کیلیے علماء اور مفکرین کے کردار پر بات کی کہ اگر وہ صحیح طور پر دین کا تعارف پیش کریں تو اس مصیبت کی راہ بند ہوسکتی ہے۔
عشاء کی نماز کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا جس کے بعد سوال پوچھنے کے لیے حاضرین کو ٹائم دیا گیا۔
یونیورسٹیز کے طلبہ نے عقیدہ، تاریخ، اخلاق، دعوت ودیگر موضوعات کے بارے میں اپنے سوالات اور شبہات متعلقہ سیکشن میں بیٹھے علمائے کرام کے سامنے پیش کرکے تشفی بخش جواب حاصل کیا۔

جمعرات کے پروگرامز

جمعرات (5 مارچ) کی نماز فجر کے بعد طلباء نے حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم کے درس تفسیر میں شرکت کی۔ ناشتے کے بعد اجتماع کی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ دوسری نشست میں تلاوت قرآن پاک کے بعد “دفتر امور دانشجویان” (یونیورسٹی طلباء) دارالعلوم زاہدان کی طرف سے مولوی حبیب اللہ مرجانی نے حاضرین کی خدمت میں خوش آمدید عرض کرنے کے بعد “دفتر امور طلبہ” کی تاریخ اور بارہ سالوں کے دوران اس کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔
مولوی مرجانی نے اجتماع کے عنوان “اسلام؛ اعتدال اور رحمت ورافت کا دین” کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے طلبہ اسلامی معاشرے کے دوبازؤں کی مانند ہیں۔ چونکہ بعض لوگ ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو حقائق سے دور کرنے کے چکر میں ہیں اسی لیے ہم نے اس عنوان کا انتخاب کیا۔
اس کے بعد صوبہ کردستان کے دارالحکومت “سنندج” سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے “ضروری اور بے کار” کے عنوان سے ایک مقالہ پیش کیا۔
اگلے مقرر “احمد احمدیان” مہاباد یونیورسٹی کے پروفیسر تھے جنہوں نے “مذہبی پلورالزم” (کثرت ادیان) کے بارے میں گفت وگو کی۔ (ان کی تقریر مکتوبہ شکل میں حاضرین کو مہیا کی گئی)
استاد احمدیان کی تقریر کے بعد بلوچستان کے شہر نیکشہر سے آنے والے ایک نظم گروپ نے اپنی نظم خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ اس کے بعد ایرانی اہل سنت کے نامور محقق، مترجم اور لکھاری محترم ڈاکٹر مسعود انصاری نے “اعتدال” کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا، ڈاکٹر انصاری نے اعتدال کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیر دعوت کی ضروریات میں سے قرار دیا۔
انہوں نے کہا اعتدال توحید اور سنت خداوندی کی بنیاد ہے۔ اس وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مثال دی کہ اگر اللہ تعالیٰ “الرحیم” رحم کرنے والا ہے تو “المنتقم” انتقام لینے والا بھی ہے، اگر “القہار” غضب کرنے والا ہے تو “الغفار” نہایت بخشنے والا بھی ہے۔
ڈاکٹر مسعود انصاری کے بعد صوبے سیستان وبلوچستان کے ممتاز صحافی اور سرگرم ثقافتی کارکن محمود براہوئی نژاد نے “معیشت، میڈیا اور تعلیم” کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔
اس کے بعد ممتاز عالم دین، سرپرست دارالافتاء دارالعلوم زاہدان اور مایہ ناز رسالہ “ندائے اسلام” کے ایڈیٹر مفتی محمد قاسم قاسمی نے “پیام انبیاء کا تحفہ” کے عنوان سے پر مغز خطاب کیا۔
اپنی گفتگو کے آغاز میں انہوں نے اس اجتماع کو نعمت خداوندی اور اللہ کی طرف سے توفیق قرار دیا۔ اپنی بات ثابت کرنے کیلیے انہوں نے ارشاد نبوی (ص) پیش کیا کہ قیامت کے دن ایک ایسا گروہ بھی ہوگا جسے اولیاء وصالحین بھی فخر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان کی جگہ مشک اور لؤلؤ کی بلندیوں پر ہوگئی ۔ حدیث کے مطابق یہ لوگ وہ ہوں گے جو مختلف علاقوں اور قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اللہ کی رضا کے حصول کے لیے ایک جگہ پر جمع ہوتے ہیں۔
ماہ ربیع الاول اور نبی کریم (ص) کی ولادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس دنیا میں جتنی بھی ترقی اور سہولیات کے اسباب نظر آتے ہیں یہ سب انبیاء علیہم السلام کی خدمات کے مرہون منت ہیں۔ چونکہ انبیاء نے بغیر کسی دنیوی لالچ کے، صرف خیرخواہی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے انسانیت کو زندگی گزارنے کے صحیح راستے دکھایا۔
مفتی قاسمی نے انبیاء علیہم السلام خاص طور پر نبی کریم (ص) کے مثالی اور قابل تقلید ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا: آج کل ہمارے مسائل کی جڑ مثالی شخصیات کا بحران ہے۔ بعض لوگ ایسے افراد کو اپنا آئیڈل اور ماڈل قرار دیتے ہیں جو ہرگز اچھے لوگ نہیں تھے بلکہ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو خطرناک جرائم میں ملوث تھے اور ہزاروں بیگناہ انسانوں کے قاتل تھے، مثلاً ہلاکو اور چنگیز اور ان جیسے افراد۔ یا وہ ایسے لوگ تھے اور ہیں جو انسانی تاریخ میں انتہائی جابر، موقع پرست اور کرپٹ حکمران کے طور پر پہنچانے جاتے ہیں جنہوں نے عوام کی صلاحیتوں کا غلط استعمال کیا۔ مگر اللہ کے پیغمبر ایسے نہیں تھے، وہ ایک ملک یا علاقہ یا ایک مخصوص طبقے تک محدود نہیں تھے، بلکہ انہوں نے پوری انسانیت کو عزت اور دنیا وآخرت کی کامیابی سے ہمکنار کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔
سہ ماہی ندائے اسلام کے ایڈیٹر نے قرآنی آیات؛ «وجاھدوا فی اللہ حق جہادہ ھواجتباکم…» سے استدلال کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے انبیاء کی ذمہ داری کو اس امت کے ذمہ ڈالاہے، چاہے وہ امتی یونیورسٹی کا لیکچرار ہو یا طالب علم، لڑکا ہو یا لڑکی غرض معاشرے کے کسی بھی طبقے سے اس کا تعلق ہو، وہ «ھو اجتباکم» (تمہیں چن لیا ہے) کا مصداق ہے۔ اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے “رحمۃ للعالمین” ہوں گے۔
آگے چل کر قرآنی آیت؛ «لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیداً…» کی تلاوت کے بعد انہوں نے کہا یہ امت سارے انسانوں کے استاد ومعلم اور راہ انبیاء کو بیان کرنے والی امت ہے۔ مسلمان مرنے اور مارنے کیلیے صرف نہیں آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں سارے معرکوں اور غزوات میں دونوں اطراف (مسلمان اور کفار) سے کل 118 افراد مارے گئے۔ ان غزوات اور جہادی کارروائیوں کا فلسفہ اسلام کی روسے یہ تھا کہ انسانیت کی کامیابی کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور کینسر کے غدود کا خاتمہ کیا جائے۔
مولانا قاسمی صاحب نے ہر مسئلے میں اور دن رات کے ہر لمحے میں تقوا کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا احکام خداوندی اور اسلامی علوم پر عمل کرنا فرد اور ماحول کی حفاظت کا نسخہ اکسیر ہے۔ انہوں نے کہا تاریخ میں کتنے گروہ، پارٹی اور حکمران گزرے ہیں جنہوں نے خود کو اور اپنی قوم اور ما تحتوں کو بیچ دیا تھا، اس لیے کہ ان کے قول وعمل میں تضاد تھا۔ دریافت واختراع، ریسرچ اور تحقیق وغیرہ….. اہم چیزیں ہیں لیکن ان سے زیادہ اہم ہمارا اصل مقصد ہے۔
دارالعلوم زاہدان کے استاذالحدیث نے مزید کہا: آج کل بہت سارے لوگ افسوس کررہے ہیں کہ کاش ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہوتے، انہیں ملاقات کرکے ان سے استفادہ کرتے؛ لیکن امام ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ اپنی کتاب “آداب زندگی” میں یوں رقمطراز ہیں: نبی کریم (ص) کی عدم زیارت اور عدم مصاحبت کے متمم اور تلافی دو چیزیں ہیں۔ ایک قرآن، کہ اسے سیکھ کر پڑھ لیا جائے اور حفظ کرکے اس پر عمل کیا جائے۔ چونکہ قرآن پاک روحانی قوت سے بھرا ہوا ہے اور ایک سدابہار کتاب ہے۔
دوسری چیز نماز ہے جو معنوی اثرات رکھتی ہے۔ نماز سے بڑھ کر کوئی عمل موثر نہیں ہے۔ اسی نماز کی برکت سے غیراللہ کے تعلقات اور غیراللہ کی محبت دلوں سے نکلتی ہے۔
آخر میں مولانا قاسمی نے حاضرین مجلس کو اسلامی غیرت کی حفاظت کی ترغیب دی اور کہا حالات حاضرہ اور تازہ ترین وقائع وحوادث سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی اسلامی غیرت وحمیت کو ترقی دینی چاہیے اور دنیا کے حالات سے پوری طرح باخبر رہ کر تعلیم کے حصول کیلیے محنت کرنی چاہیے۔
مولانا محمد قاسم قاسمی کے پر مغز بیان کے بعد “پیام آوران رسالت” نامی نظم گروپ نے ایک خوبصورت نظم پیش کی۔ اس کے بعد زاہدان سے منتخب رکن قومی اسمبلی انجینئر فروزش نے تقریر کی۔
مسٹر فروزش نے معاشرے کی اصلاح کو دین ودنیا کی اہم ترین مبحث قرار دیا۔ انہوں نے آس پاس پر نظر دوڑانے سے واضح ہوتا ہے کہ دین اور سیاست کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوچکی ہے چونکہ اصل مقصد تک پہنچنے کیلیے ضروری اقدامات نہیں اٹھائے جاچکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا وہی شخص اصلاح کے حوالے سے تھیوری پیش کرسکتاہے کہ معاشرے میں رواداری اور تحمل سے کام لے، بغیر تعصب وتنگ نظری کےانصاف کی فراہمی کے لیے کوشش کرے۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بعض شرائط کا ہونا ضروری ہے مثلاً عقلمندی وفراخدلی کا مظاہرہ کرکے دیگر مذاہب ومسالک کے عقائد کا احترام کیا جائے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو اسلامی معیاروں کے تناظر میں دیکھ لیں تو ان میں بڑا فاصلہ نظر آتاہے۔ اگر ہمارا معاشرہ اسلام کے معیاروں کے مطابق آگے بڑھے تو اس صورت میں مذہب، معیشت، سیاست اور امن وامان کے مسائل میں ترقی وکامیابی حاصل ہوگی۔
زاہدانی عوام کے نمائندے نے کہا سائنس اور دین کے حوالے سے ہم نے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اس بارے میں دنیا کے سامنے کچھ کہنے کے قابل ہیں۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم کے حصول کا اصل مقصد ہم نے متعین نہیں کیا ہے۔ صرف ڈگری حاصل کرنے کی تک و دو کررہے ہیں۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں ہمارے ملک کا نام دوسرے درجے کے ملکوں کی فہرست سے خارج ہوجائے تو درج ذیل امور پر ہمیں خصوصی توجہ دینی ہوگی۔
1۔ دانشوروں اور ماہریں کے براہ راست اور کامل تعلقات
2۔ ٹیکنالوجی اور جدید ذرائع کا ملک میں درآمد کرنا
3۔ سائنس اور صنعت کا انفراسٹکچر بنانا
4۔ ملکی ترقی کو عوامی ہونی چاہیے اور عوام کے فنکشن اور نوجوان طبقے کی مدد سے آگے بڑھنا چاہیے۔
دوسرے لفظوں میں سچائی اور محنت سے کامیابی ہمارے قدموں کو چومے گی۔ جمعرات کی صبح کی نشست انجیئر فروزش کی تقریر سے برخاست ہوئی۔
دو پہر کے بعد مہمان طلباء نے جامعہ کے احاطے میں منعقد بوک فیر کا دورہ کیا۔ جمعرات کی عصر سے مغرب تک یونیورسٹی طلباء نے علماء اور دانشوروں سے قریب سے جاکر ملاقات کی۔
اس اجتماع کی آخری نشست شب جمعہ کو منعقد ہوئی۔ مغرب کی نماز کے بعد تلاوت قرآن پاک اور اس کے بعد دارالعلوم زاہدان کے طلبہ کی خوبصورت نظم سے نشست شروع ہوئی۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان وخطیب جامع مسجد مکی اس اجتماع کے آخری مقرر تھے۔
سرپرست دارالعلوم زاہدان مولانا عبدالحمید نے عصری تعلیمی اداروں کے سنی طلباء سے خطاب کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی سیرت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا ان عظیم ہستیوں کی درخشان اور خیر وبرکت والی زندگی ہر مسلمان کے لیے نمونہ ہونی چاہیے۔ کوئی بھی شخص اب تک ایسے کامل اسوہ حیات اور آئیڈیل پیش کرسکا نہ اب کرسکتا ہے نہ ہی مستقبل میں ایسے سیمبل پیش کر سکے گا۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا کس قدر افسوسناک بات ہے کہ رواں سال میں صدارتی انتخابات کے بعد رو نما ہونے والے بعض لوگوں نے سیاسی اختلافات کو جنگ جمل اور صفین سے تشبیہ دی، حالانکہ کوئی بھی معاصر شیعہ یا سنی عالم دین حضرات طلحہ وزبیر، خلفائے راشدین اور اہل بیت سے قابل مقایسہ نہیں اور اس باطل قیاس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اگر تشبیہ دینا ہی ہے تو اس زمانے کے اختلافات کو اسی دور کے سیاسی اختلافات سے تشبیہ دی جائے نہ کہ ان نیک اور عظیم شخصیتوں کے اختلافات سے جو اسلامی تہذیب کے سب سے پہلے شاگرد اور تربیت یافتہ تھے۔ جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ومحبت کا شرف حاصل تھا اور وہ بے مثال انسان دین وہدایت اور علم کے روشن مینار تھے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے دین اور سائنس کو ناقابل تفکیک اور لازم وملزم قرار دیتے ہوئے کہا ہمارے سٹوڈنٹس کو بی ایس یا ماسٹر کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ عصری تعلیمی اداروں کے طلباء کو چاہیے مختلف شعبوں میں مہارت اور تخصص حاصل کرنے کی کوشش کریں، اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نت نئی ایجادات اور خیالات سے اپنی قوم اور ملک کی خدمت کریں۔
یہ بات تجربہ سے ثابت ہوچکی ہے کہ جتنی غربت اور پسماندگی زیادہ ہوا اتنی ہی فکری ترقی بھی بڑھ جاتی ہے۔ اکثر مفکرین کی جائے پیدائش بستیاں اور ان کا بنیادی تعلق چھوٹے علاقوں سے رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا تعلیم کے حصول کیلیے ہمیں سختی وتکلیف برداشت کرنی چاہیے، آرام وراحت چھوڑنی پڑتی ہے مگر ساتھ ہی اپنی بنیاد دین اور ہدایت سے بھی غافل نہیں ہونا چاہیے، اس طرح ہم ہر قسم کی خوبیوں کے محافظ بن جائیں گے، ہمیں علم دین، شریعت اور سنت کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی آگے ہونا چاہیے تا کہ اگلی نسلوں کی خدمت کر سکیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا ہم سب ایرانی ہیں اور ایران ہمارا وطن ہے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتاہوں کہ اہل سنت ایران سے بڑھ کر کوئی بھی شخص خالص ایرانی نہیں ہوسکتا۔
ہم دیگر ایرانیوں کے ساتھ برادرانہ زندگی کے خواہاں ہیں اور یہ ہمارا ملی اور اسلامی جذبہ ہے۔ ہم پوری انسانیت کے لیے فلاح وبہبود کی امید رکھتے ہیں۔ مگر وہ قوم جو باقاعدہ طور پر ہم سے حالت جنگ اور محاربہ میں ہو۔ محارب کون ہے؟ اس بارے میں علمی بحث کی جاسکتی ہے۔ میں اپنے خیالات کا اظہار کسی اور موقع پر کروں گا۔
انہوں نے کہا قرآن وسنت نے انسان اپنی جگہ بلکہ جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنے پر بھی زور دیا ہے۔ یہاں تک بعض جگہوں پر درختوں اور گھاس وغیرہ کے حقوق کا تذکرہ بھی دینی کتابوں میں ملتا ہے۔ اسلام ہر تہذیب ومذہب سے بڑھ انسانی حقوق کی رعایت پر زور دیتا ہے، اتنی سی بات ہے کہ اسلامی معاشروں میں ان حقوق کا خیال رکھا جائے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا شیعہ بھائیوں کے ساتھ ہمارے خیرخواہانہ جذبے ہمیشہ قائم رہیں گے اور ایرانی عیسائیوں، یہودیوں ودیگر اقلیتوں کے ساتھ انسان ہونے کے ناطے قومی وملی جذبات اس ملک کے مفادات وممکنہ خطرات کے پیش نظر ثابت رہیں گے۔
ملکی آئین اور بین الاقوامی معاہدوں کی روسے جن پر ایران نے بھی دستخط کردیا ہے اسی طرح اسلامی شریعت اور عرف عام کے مطابق ہمیں پوری طرح دینی اور سماجی آزادی حاصل ہے۔ ملک میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا جتنی اقوام ایران میں آباد ہیں سب کو برابر کے حقوق ملنے چاہیے۔ اسلام نے علاقائی تہذیبوں، ثقافتوں اور لوگوں کی رسم ورواج کا خاتمہ نہیں کیا ہے۔ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی رسم ورواج کا احترام کرتے تھے اور صرف ان کی اصلاح فرماتے تھے۔ اسلام نے لوگوں کی تہذیبوں، زبانوں، طرز لباس اور ثقافتوں کی محافظت کی ہے۔ قومی وعلاقائی زبانیں اور ثقافتوں کو نہیں مٹانا چاہیے۔ کردی، بلوچی، فارسی، عربی، ترکی ودیگر زبانیں جس طرح اسلامی تاریخ کے دوران محفوظ رکھی گئیں اب بھی قومی ورثہ کی طرح ان کی حفاظت کرنی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا اسلام میں جبر وزبردستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہر مذہب ومسلک کے ماننے والے پوری طرح آزاد ہیں کہ اپنی فقہ کے مطابق تعلیم حاصل کریں اور اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلوائیں۔
ایرانی آئین میں سنی مسلمانوں کے لیے جو مذہبی آزادی مقرر کی گئی اسے جامہ عمل پہنانا چاہیے۔
ہمارے پاس کوئی اختیار اور طاقت نہیں البتہ ہم قانون کے حوالے سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہر شہر، تعلیمی ادارہ، ملٹری ڈپارٹمنٹس وغیرہ میں اہل سنت کو تعلیم وتبلیغ کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ مذہبی معاملات میں ہمارے سامنے کسی کو رکاوٹ ڈالنے کا حق نہیں ہے۔
ایک اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہمارے ملک (ایران) میں ایک خاص پارٹی یا حلقہ فکر کے لوگ حکومت نہیں کر سکتے، ہمارے خیال میں وہ حکومت کامیاب حکومت قرار پائے گی جو ساری قومیتیوں اور مذاہب کو اقتدار میں شریک کرتی ہے اور صلاحیت کے حامل افراد کو نظر انداز کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بعض عناصر کو میری یہ خیرخواہانہ گزارشات کیوں بری لگتی ہیں حالانکہ میرا مقصد ان باتوں سے ملک اور حکام کے لیے خیرخواہی ہے۔ بادشاہی نظام ختم ہوچکاہے، ہم “اسلامی جمہوریہ” کے دور حکومت میں ہیں۔ اسلام اور جمہوریت دونوں آزادی پر زور دیتے ہیں۔ اس لیے اہل سنت برادری جو 31 سالوں سے طرح طرح کے مسائل اور پابندیوں کا سامنا کررہی ہے ان رکاوٹوں کو ختم کرنا چاہیے۔ بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے کہ حکام بالا اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھائیں اور وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیرقانونی اقدامات کا خاتمہ کریں جو اہل سنت کو وفاقی مناصب اور ملٹری اداروں سے دور رکھنے کے لیے کیے جارہے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ شیعہ بھائیوں کی طرح اپنے ملک کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ سنی برادری ملک کی عزت وترقی اور ملّی اتحاد کے لیے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرے گی اور اس حوالے سے شیعہ ایرانیوں سے پیچھے نہیں ہوں گے۔
کسی بھی صورت میں ہم اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے اور قانونی راستوں سے اپنے حقوق حاصل کرنے کی جد وجہد جاری رکھیں گے، اس ملک میں ہمارا مستقبل تاریک ومبہم نہیں ہونا چاہیے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا اہل سنت والجماعت ایران ایک سے زائد مرتبہ افراط وتفریط سے اپنی بیزاری کا اعلان کر چکی ہے۔ ہم تشدد اور انتہا پسندی کے خلاف ہیں اور ہمیشہ اس کی مذمت کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہمارا راستہ اور طریق قانون کا راستہ ہے۔ اب تک حکام سے اپنی ملاقاتوں کے دوران، خطوط کے ذریعہ نیز انٹرویوز اور خطبوں میں ہم نے بلا غرض اپنے قانونی حقوق پر زور دیا ہے کہ ہمارے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ہم حکومت یا شیعہ برادری کے دشمن نہیں ہیں، ہماری ڈکشنری میں تشدد اور موقع پرستی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
ہم پورے ملک اور ہر ایرانی کی عزت وترقی کے خواہشمند ہیں۔ حکام بالا خاص طور پر رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہماری مشکلات کے خاتمہ کے لیے اقدامات اٹھائیں اور ملازمتوں کی تقسیم کے حوالے سے حائل رکاوٹوں کی بیخ کنی کریں۔
حکام کو انتہا پسندوں کے اقدامات سے متاثر نہیں ہونا چاہیے، انہیں وسعت ظرفی اور دور اندیشی کے ساتھ اتحاد قائم کرنے اور امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا جس طرح شروع میں آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ علاقائی اور قبائلی رسم ورواج اور زبانیں ہماری پہچان ہیں، ایرانی خواتین کی چادر ایران کی قومی پہچان ہے جو اسلامی تہذیب سے یہاں آیا ہے۔ بلوچ خواتین کے کپڑے اور علاقائی لباس کی حفاظت ہونی چاہیے۔ سرکاری ٹی وی، وزارت تعلیم، کالجوں اور یونیورسٹیوں نیز حکومت کو تمام ثقافتوں کی حفاظت کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
خطیب اہل سنت زاہدان اور شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا ہم سپر پاور ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتے، ہم میں بہت ساری خامیاں ہیں چونکہ ہم سارے ایرانیوں کو اقتدار میں حصہ نہیں دلواسکے ۔ عوام نعروں سے تھک چکے ہیں۔ صحیح سوچ وفکر کے ساتھ اتحاد ویکجہتی اور بھائی چارے کے لیے مزید کوشش کرنی چاہیے تا کہ ہمارا ملک آزاد، خوشحال اور اسلامی فلاحی ریاست بن جائے۔
حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم کی ناصحانہ تقریر کے بعد ملکی وبین الاقوامی سطح پراعزازات حاصل کرنے والے بعض مایہ ناز سنی اساتذہ وطلبہ کے اعزازمیں انہیں یادگارمڈل پیش کیاگیا۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں