بارک اوباما نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں 21 ہزار کے اضافے کا حکم دیا لیکن اس سے کوئی خاص مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکے۔ ناکام امریکی حکمت علمی کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لینے اور 92 دن کے تکلیف دہ انتظار کے بعد، جس کے دوران بارک اوباما کی وار کونسل کا متعدد مرتبہ اجلاس ہوا، امریکی صدر نے طالبان کی تحریک کو کچلنے اور مشکلات میں پھنسی ہوئی افغان حکومت کی سیکورٹی صلاحیتوں میں 18 ماہ میں اضافہ کرنے اور ایک ایسے ملک کیلئے مزید 30 ہزار فوجیوں کو سخت ترین مشن پر افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا جسے اب سلطنتوں کے قبرستان کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔
68 ہزار فوجی پہلے ہی افغانستان میں تعینات ہیں اور آئندہ موسم گرما میں مزید 30 ہزار فوجی ان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔ ایسی صورتحال میں امریکا نہ صرف نیٹو افواج کی قیادت کر رہا تھا بلکہ جنگ کے مقاصد بھی طے کر رہا تھا۔ لیکن اب بارک اوباما کو ایک ایسی جنگ کا مشاہدہ کرنا پڑے گا جس میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہوگا اور دور دراز سرزمین پر دشمن کے خلاف ایسی جنگ جاری ہوگی جس میں بظاہر کسی ٹھوس کامیابی کا امکان نہیں۔ جنگ کے نتائج ان کے عہدہ صدارت کا فیصلہ کریں گے اور ان کی سیاسی قسمت کا تعین کرنے کے ساتھ آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں کے مواقع پر اثر انداز ہوں گے۔
واشنگٹن کی جانب سے پیدا کئے گئے جنگی جنون نے ہچکچاہٹ کا شکار امریکی اتحادیوں، بالخصوص یورپ، پر ایک ایسے غیر ملکی مشن کیلئے مزید فوجی بھجوانے کیلئے دباؤ ڈالا جو اس (یورپ) کے روایتی دائرہٴ اثر سے باہر ہے۔ نیٹو کے 28 میں سے 25 رکن ممالک نے 7 ہزار اضافی فوجی بھیجنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے جبکہ نیٹو کے جارح سیکریٹری آندرے فوغ راسموسین دیگر رکن ممالک پر بھی ایسا کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ امریکا کو چھوڑ کر 42 دیگر ممالک نے پہلے ہی افغانستان میں اپنے فوجی لگا رکھے ہیں اور بہ الفاظ راسموسین اضافی تعیناتی سے نیٹو کے افغان مشن میں ایک نئی ہلچل پیدا ہوگی۔ ایک مرتبہ نئی جنگی کوششیں معدوم ہونے اور نیٹو مشن کے طویل ہونے کے بعد ہر مغربی ملک میں نیٹو کے افغانستان میں اضافی فوجی مقرر کئے جانے کی مخالفت مزید بڑھ جائے گی۔ حال ہی میں جرمنی میں ہونے والا ایک سروے انتہائی معلوماتی ہے۔ سروے میں حصہ لینے والوں کی دو تہائی تعداد چاہتی ہے کہ افغانستان سے جرمن فوجیوں کو جلد از جلد واپس بلالیا جائے۔ یہ واضح ہے کہ مزید فوجی بھیجنے کیلئے صدر بارک اوباما کو اپنے فوجی کمانڈرز کے دباؤ کا سامنا تھا۔ ایک ایسی راہ جس سے جنگ شدت اختیار کرجائے گی، اختیار کرنے میں صدر اوباما کو تذبذب میں مبتلا کردیا اور اس وجہ سے ہونے والی تاخیر نے اہمیت اختیار کرلی۔ تذبذب کی وجہ یہ تھی کہ اس جنگ سے مزید تباہی آتی اور امریکی خزانے کو زبردست قیمت ادا کرنا ہوتی، کامیابی یا ناکامی کی ذمہ داری اوباما پر آتی۔ اگرچہ اس سلسلے میں افغانستان میں متعین امریکی کمانڈر جنرل اسٹینلی میک کرسٹل بھی اس کے ذمہ دار ہوتے اور انہیں بھی نتائج دکھانا ہوتے کیونکہ انہوں نے ہی مزید چالیس ہزار فوجیوں کا مطالبہ کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ اگر ان کا مطالبہ پورا نہ کیا گیا تو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
صدر اوباما نے پینٹاگون اور ری پبلیکنز سمیت ہر ایک کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ ری پبلکن پارٹی فوج میں اضافہ چاہتی تھی جبکہ ڈیموکریٹس مستقل فوجی مشن کے مخالف تھے اور جنگ مخالف لابی نے قدامت پرستوں اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس پر الزامات عائد کئے تھے کہ وہ امریکا کو ایک اور ناقابل فتح جنگ میں جھونک رہے ہیں۔
اگرچہ بارک اوباما کی حکمت عملی مبہم تھی لیکن ان کی جانب سے جولائی 2011ء تک پیش کردہ انخلاء کی حکمت عملی، جس کے تحت ابتدائی طور پر اضافی بھیجے گئے تیس ہزار فوجیوں کو واپس بلایا جائیگا، ڈیموکریٹس اور لبرلز کو خوش کرنے کیلئے تھی، لیکن یہ حکمت علمی غیر حقیقت پسندانہ معلوم ہوتی ہے اور شاید کامیاب نہ ہوپائے۔ اس کے علاوہ، اس حکمت عملی نے ری پبلیکنز کو صدر اوباما پر یہ الزامات عائد کرنے کیلئے مشتعل کردیا کہ اس سے امریکی فوجیوں کو خطرات لاحق ہوجائیں گے اور طالبان جنگجوؤں کو تقویت ملے گی۔ شاید طالبان جنگجو وقتی پسپائی اختیار کرکے 18 ماہ تک اس بات کا انتظار کریں کہ کب امریکی فوجی افغانستان سے انخلاء شروع کریں۔ طالبان کی اس حکمت عملی کے نتیجے میں امریکی اور اتحادی افواج یہ دعویٰ کرنے کا موقع دے سکتی ہے کہ جنگجوؤں کے حملے کم ہوچکے ہیں اور افغانستان کے زیادہ تر علاقے مستحکم ہوچکے ہیں اور اس لئے اب وقت آچکا ہے کہ فوجیوں کو گھر واپس بھیجا جائے۔
بطور ایک زیرک سیاست دان، صدر بارک اوباما نے افغانستان میں مکمل کامیابی کا وعدہ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے القاعدہ کو شکست دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ فتح کیلئے یہ ضروری ہوگا کہ افغانستان کے بے خوف طالبان جنگجوؤں کو شکست دی جائے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس کی وجہ سے گزشتہ آٹھ سال کے دوران امریکا کی زیر قیادت نیٹو فورسز کی کارکردگی پر بحث ہو رہی ہے۔ فتح کیلئے جن دیگر اقدامات کی ضرورت ہے ان میں افغان حکومت کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانا، افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت سے کرپشن کا خاتمہ کرنا اور قومی تعمیر نو کے پروجیکٹس شروع کرنا شامل ہیں۔
چونکہ افغانستان میں پاکستان کی مدد کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی، جیسا کہ امریکی حکام کہتے ہیں، مذکورہ بالا مبہم مقصد کے حصول کیلئے یہ ضروری ہے کہ فوجی اور غیر فوجی سطح پر امداد کے ذریعے اسلام آباد کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ دہشت گردوں سے لڑ سکے اور شدت پسندی پر قابو پاسکے۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے جس کیلئے امریکا، جہاں ووٹرز امریکا کی طویل جنگ کے حوالے سے بے صبر ہوتے جا رہے ہیں، کو صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا۔ امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے فوجیوں کی تعداد میں 21 ہزار کے ”اضافے“ نے محدود کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ امریکی میرینز کا 10 ہزار فوجیوں پر مشتمل چاق و چوبند دستے کو گزشتہ موسم گرما میں طالبان کے گڑھ ہلمند، جہاں پہلے ہی 9 ہزار برطانوی اور چند ہزار افغان نیشنل آرمی فورسز کے اہلکار تعینات تھے، بھیجا گیا تھا تاکہ علاقے پر قبضہ کیا جا سکے اور پوست کی کاشت کے خلاف افغان حکومت کو مضبوط کیا جا سکے۔ طویل لڑائی اور بھاری نقصانات اور دیہاتیوں کی نقل مکانی کے بعد، امریکی اور برطانوی فوجی کمانڈرز اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے فوجیوں کی تعداد ان علاقوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کیلئے کافی نہیں تھی جنہیں انہوں نے حاصل کیا تھا۔ طالبان جنگجو اپنے محفوظ ٹھکانوں کی طرف چلے گئے، مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے اور ”مار کر بھاگو“ طرز پر حملے کرنے لگے اور سڑک کنارے بم نصب کرتے رہے جس کی وجہ سے غیر ملکی افواج کا بھاری جانی نقصان ہوا۔
یہی بات مزید زمینی افواج کی ضرورت کی وجہ بنی اور اسی لئے دشمنوں کے خلاف صرف ہلمند میں فوجیوں کی تعداد دگنی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جنرل میک کرسٹل نے دور دراز علاقوں میں فوجی اڈے ختم کرنے کی نئی پالیسی شروع کردی ہے اور اب وہ قصبوں اور شہروں کا دفاع کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ نورستان، پکتیا، پکتیکا اور دیگر پختون آبادی والے علاقوں میں جن چوکیوں کو خالی کردیا گیا تھا ان پر اب طالبان نے قبضہ کرلیا ہے اور اپنی کامیابی کو ویڈیو ٹیپس کے ذریعے مشتہر کررہے ہیں۔ افغانستان میں زمینی جنگ غیر ہموار ہے۔
ایک طرف آئندہ موسم گرما میں امریکا اور نیٹو فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ 47 ہزار ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ، نجی کنٹریکٹرز کی شکل میں ایک لاکھ 3 ہزار اہلکار بھی موجود ہیں جن کی ذمہ داریوں میں ہر نوعیت کے کام شامل ہیں جن میں حسّاس مقامات کی سیکورٹی اور غیر ملکی قافلوں کو تحفظ فراہم کرنا شامل ہے۔
اس کے بعد افغان نیشنل آرمی ہے جس کی تعداد 90 ہزار ہے جسے 2010ء میں بڑھا کر ایک لاکھ 34 ہزار کرنے کا پروگرام ہے جبکہ افغان نیشنل پولیس کی تعداد 70 ہزار ہے۔ درحقیقت، اس طرح کی بھی تجاویز موجود ہیں کہ افغان نیشنل آرمی کی تعداد دگنی یا اسے 4 لاکھ تک کردیا جائے اور اس بات کی کوئی وضاحت موجود نہیں ہے کہ انہیں تنخواہ کی ادائیگی کون کرے گا، وہ بھی ایک ایسے ملک میں جو خود اپنی حکومت چلانے کیلئے غیر ملکی امداد پر انحصار کر رہا ہے۔ ایک اور مسلح فورس بھی موجود ہے جس کا نام اربکی (Arbaki) ہے۔ یہ دیہی ملیشیا ہے اور بالکل ویسے ہی کام کرتی ہے جیسے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور اضلاع میں حکومت نواز لشکر کرتے ہیں۔
ان سب کو ملا کر ایک ایسی موثر مسلح فورس بنتی ہے جس میں ممکن ہے کہ تربیت کا فقدان ہو لیکن انہیں یہ معلوم ہے کہ جنگ کیسے ہوتی ہے، خصوصاً اس وقت جب تاجک، ازبک اور ہزارہ قبائل کے لوگوں کو پختون علاقوں میں تعینات کیا جائے اور اس کے باوجود یہ فورس معمولی ہتھیاروں سے لیس ان طالبان کے خلاف لڑنے میں ناکام ہوگئی ہے جن کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ امریکی صدر بارک اوباما کے نیشنل سیکورٹی کے مشیر ریٹائرڈ جنرل جیمز جونز اب یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان جنگجوؤں کی تعداد 27 ہزار ہے۔ انہوں نے ماضی قریب میں اندازاً کہا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ کے 100 سے بھی کم جنگجو موجود ہیں۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ اسامہ بن لادن کے 100 کے قریب افغانستان میں موجود ساتھی اور چند پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ساتھی، جو طویل سرحد کو عبور کرسکتے ہیں، ایک ایسا گروپ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو بقول صدر بارک اوباما امریکا کی سلامتی کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں موجود طالبان اور دیگر مزاحمت پسند گروپس کو معلوم ہے کہ وہ اس قدر بڑی فورس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ماضی میں اپنی حکمت عملی کے مطابق، وہ لڑنے کی بجائے پھیل جائیں گے اور جب موقع ملے گا وہ منظم شکل اختیار کرکے اتحادی افواج کو زبردست نقصان پہنچائیں گے۔ ایک طالبان کمانڈر نے پہلے کبھی کہا تھا کہ امریکیوں کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس بہت سارا وقت۔
عظیم تر دشمن کے خلاف لڑائی میں اب تک طالبان نے اپنے بھرپور عزم کا اظہار کیا ہے اور وہ اپنے مشکل وقت کے ختم ہونے کا انتظار کریں گے اور مزاحمت کو اس امید کے ساتھ زندہ رکھیں گے کہ بالآخر غیر ملکی افواج ملک چھوڑ کر چلی جائیں گی یا ان کے ساتھ سیاسی ڈیل کرلیں گی۔
واشنگٹن کی جانب سے پیدا کئے گئے جنگی جنون نے ہچکچاہٹ کا شکار امریکی اتحادیوں، بالخصوص یورپ، پر ایک ایسے غیر ملکی مشن کیلئے مزید فوجی بھجوانے کیلئے دباؤ ڈالا جو اس (یورپ) کے روایتی دائرہٴ اثر سے باہر ہے۔ نیٹو کے 28 میں سے 25 رکن ممالک نے 7 ہزار اضافی فوجی بھیجنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے جبکہ نیٹو کے جارح سیکریٹری آندرے فوغ راسموسین دیگر رکن ممالک پر بھی ایسا کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ امریکا کو چھوڑ کر 42 دیگر ممالک نے پہلے ہی افغانستان میں اپنے فوجی لگا رکھے ہیں اور بہ الفاظ راسموسین اضافی تعیناتی سے نیٹو کے افغان مشن میں ایک نئی ہلچل پیدا ہوگی۔ ایک مرتبہ نئی جنگی کوششیں معدوم ہونے اور نیٹو مشن کے طویل ہونے کے بعد ہر مغربی ملک میں نیٹو کے افغانستان میں اضافی فوجی مقرر کئے جانے کی مخالفت مزید بڑھ جائے گی۔ حال ہی میں جرمنی میں ہونے والا ایک سروے انتہائی معلوماتی ہے۔ سروے میں حصہ لینے والوں کی دو تہائی تعداد چاہتی ہے کہ افغانستان سے جرمن فوجیوں کو جلد از جلد واپس بلالیا جائے۔ یہ واضح ہے کہ مزید فوجی بھیجنے کیلئے صدر بارک اوباما کو اپنے فوجی کمانڈرز کے دباؤ کا سامنا تھا۔ ایک ایسی راہ جس سے جنگ شدت اختیار کرجائے گی، اختیار کرنے میں صدر اوباما کو تذبذب میں مبتلا کردیا اور اس وجہ سے ہونے والی تاخیر نے اہمیت اختیار کرلی۔ تذبذب کی وجہ یہ تھی کہ اس جنگ سے مزید تباہی آتی اور امریکی خزانے کو زبردست قیمت ادا کرنا ہوتی، کامیابی یا ناکامی کی ذمہ داری اوباما پر آتی۔ اگرچہ اس سلسلے میں افغانستان میں متعین امریکی کمانڈر جنرل اسٹینلی میک کرسٹل بھی اس کے ذمہ دار ہوتے اور انہیں بھی نتائج دکھانا ہوتے کیونکہ انہوں نے ہی مزید چالیس ہزار فوجیوں کا مطالبہ کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ اگر ان کا مطالبہ پورا نہ کیا گیا تو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
صدر اوباما نے پینٹاگون اور ری پبلیکنز سمیت ہر ایک کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ ری پبلکن پارٹی فوج میں اضافہ چاہتی تھی جبکہ ڈیموکریٹس مستقل فوجی مشن کے مخالف تھے اور جنگ مخالف لابی نے قدامت پرستوں اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس پر الزامات عائد کئے تھے کہ وہ امریکا کو ایک اور ناقابل فتح جنگ میں جھونک رہے ہیں۔
اگرچہ بارک اوباما کی حکمت عملی مبہم تھی لیکن ان کی جانب سے جولائی 2011ء تک پیش کردہ انخلاء کی حکمت عملی، جس کے تحت ابتدائی طور پر اضافی بھیجے گئے تیس ہزار فوجیوں کو واپس بلایا جائیگا، ڈیموکریٹس اور لبرلز کو خوش کرنے کیلئے تھی، لیکن یہ حکمت علمی غیر حقیقت پسندانہ معلوم ہوتی ہے اور شاید کامیاب نہ ہوپائے۔ اس کے علاوہ، اس حکمت عملی نے ری پبلیکنز کو صدر اوباما پر یہ الزامات عائد کرنے کیلئے مشتعل کردیا کہ اس سے امریکی فوجیوں کو خطرات لاحق ہوجائیں گے اور طالبان جنگجوؤں کو تقویت ملے گی۔ شاید طالبان جنگجو وقتی پسپائی اختیار کرکے 18 ماہ تک اس بات کا انتظار کریں کہ کب امریکی فوجی افغانستان سے انخلاء شروع کریں۔ طالبان کی اس حکمت عملی کے نتیجے میں امریکی اور اتحادی افواج یہ دعویٰ کرنے کا موقع دے سکتی ہے کہ جنگجوؤں کے حملے کم ہوچکے ہیں اور افغانستان کے زیادہ تر علاقے مستحکم ہوچکے ہیں اور اس لئے اب وقت آچکا ہے کہ فوجیوں کو گھر واپس بھیجا جائے۔
بطور ایک زیرک سیاست دان، صدر بارک اوباما نے افغانستان میں مکمل کامیابی کا وعدہ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے القاعدہ کو شکست دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ فتح کیلئے یہ ضروری ہوگا کہ افغانستان کے بے خوف طالبان جنگجوؤں کو شکست دی جائے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس کی وجہ سے گزشتہ آٹھ سال کے دوران امریکا کی زیر قیادت نیٹو فورسز کی کارکردگی پر بحث ہو رہی ہے۔ فتح کیلئے جن دیگر اقدامات کی ضرورت ہے ان میں افغان حکومت کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانا، افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت سے کرپشن کا خاتمہ کرنا اور قومی تعمیر نو کے پروجیکٹس شروع کرنا شامل ہیں۔
چونکہ افغانستان میں پاکستان کی مدد کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی، جیسا کہ امریکی حکام کہتے ہیں، مذکورہ بالا مبہم مقصد کے حصول کیلئے یہ ضروری ہے کہ فوجی اور غیر فوجی سطح پر امداد کے ذریعے اسلام آباد کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ دہشت گردوں سے لڑ سکے اور شدت پسندی پر قابو پاسکے۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے جس کیلئے امریکا، جہاں ووٹرز امریکا کی طویل جنگ کے حوالے سے بے صبر ہوتے جا رہے ہیں، کو صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا۔ امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے فوجیوں کی تعداد میں 21 ہزار کے ”اضافے“ نے محدود کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ امریکی میرینز کا 10 ہزار فوجیوں پر مشتمل چاق و چوبند دستے کو گزشتہ موسم گرما میں طالبان کے گڑھ ہلمند، جہاں پہلے ہی 9 ہزار برطانوی اور چند ہزار افغان نیشنل آرمی فورسز کے اہلکار تعینات تھے، بھیجا گیا تھا تاکہ علاقے پر قبضہ کیا جا سکے اور پوست کی کاشت کے خلاف افغان حکومت کو مضبوط کیا جا سکے۔ طویل لڑائی اور بھاری نقصانات اور دیہاتیوں کی نقل مکانی کے بعد، امریکی اور برطانوی فوجی کمانڈرز اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے فوجیوں کی تعداد ان علاقوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کیلئے کافی نہیں تھی جنہیں انہوں نے حاصل کیا تھا۔ طالبان جنگجو اپنے محفوظ ٹھکانوں کی طرف چلے گئے، مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے اور ”مار کر بھاگو“ طرز پر حملے کرنے لگے اور سڑک کنارے بم نصب کرتے رہے جس کی وجہ سے غیر ملکی افواج کا بھاری جانی نقصان ہوا۔
یہی بات مزید زمینی افواج کی ضرورت کی وجہ بنی اور اسی لئے دشمنوں کے خلاف صرف ہلمند میں فوجیوں کی تعداد دگنی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جنرل میک کرسٹل نے دور دراز علاقوں میں فوجی اڈے ختم کرنے کی نئی پالیسی شروع کردی ہے اور اب وہ قصبوں اور شہروں کا دفاع کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ نورستان، پکتیا، پکتیکا اور دیگر پختون آبادی والے علاقوں میں جن چوکیوں کو خالی کردیا گیا تھا ان پر اب طالبان نے قبضہ کرلیا ہے اور اپنی کامیابی کو ویڈیو ٹیپس کے ذریعے مشتہر کررہے ہیں۔ افغانستان میں زمینی جنگ غیر ہموار ہے۔
ایک طرف آئندہ موسم گرما میں امریکا اور نیٹو فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ 47 ہزار ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ، نجی کنٹریکٹرز کی شکل میں ایک لاکھ 3 ہزار اہلکار بھی موجود ہیں جن کی ذمہ داریوں میں ہر نوعیت کے کام شامل ہیں جن میں حسّاس مقامات کی سیکورٹی اور غیر ملکی قافلوں کو تحفظ فراہم کرنا شامل ہے۔
اس کے بعد افغان نیشنل آرمی ہے جس کی تعداد 90 ہزار ہے جسے 2010ء میں بڑھا کر ایک لاکھ 34 ہزار کرنے کا پروگرام ہے جبکہ افغان نیشنل پولیس کی تعداد 70 ہزار ہے۔ درحقیقت، اس طرح کی بھی تجاویز موجود ہیں کہ افغان نیشنل آرمی کی تعداد دگنی یا اسے 4 لاکھ تک کردیا جائے اور اس بات کی کوئی وضاحت موجود نہیں ہے کہ انہیں تنخواہ کی ادائیگی کون کرے گا، وہ بھی ایک ایسے ملک میں جو خود اپنی حکومت چلانے کیلئے غیر ملکی امداد پر انحصار کر رہا ہے۔ ایک اور مسلح فورس بھی موجود ہے جس کا نام اربکی (Arbaki) ہے۔ یہ دیہی ملیشیا ہے اور بالکل ویسے ہی کام کرتی ہے جیسے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور اضلاع میں حکومت نواز لشکر کرتے ہیں۔
ان سب کو ملا کر ایک ایسی موثر مسلح فورس بنتی ہے جس میں ممکن ہے کہ تربیت کا فقدان ہو لیکن انہیں یہ معلوم ہے کہ جنگ کیسے ہوتی ہے، خصوصاً اس وقت جب تاجک، ازبک اور ہزارہ قبائل کے لوگوں کو پختون علاقوں میں تعینات کیا جائے اور اس کے باوجود یہ فورس معمولی ہتھیاروں سے لیس ان طالبان کے خلاف لڑنے میں ناکام ہوگئی ہے جن کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ امریکی صدر بارک اوباما کے نیشنل سیکورٹی کے مشیر ریٹائرڈ جنرل جیمز جونز اب یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان جنگجوؤں کی تعداد 27 ہزار ہے۔ انہوں نے ماضی قریب میں اندازاً کہا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ کے 100 سے بھی کم جنگجو موجود ہیں۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ اسامہ بن لادن کے 100 کے قریب افغانستان میں موجود ساتھی اور چند پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ساتھی، جو طویل سرحد کو عبور کرسکتے ہیں، ایک ایسا گروپ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو بقول صدر بارک اوباما امریکا کی سلامتی کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں موجود طالبان اور دیگر مزاحمت پسند گروپس کو معلوم ہے کہ وہ اس قدر بڑی فورس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ماضی میں اپنی حکمت عملی کے مطابق، وہ لڑنے کی بجائے پھیل جائیں گے اور جب موقع ملے گا وہ منظم شکل اختیار کرکے اتحادی افواج کو زبردست نقصان پہنچائیں گے۔ ایک طالبان کمانڈر نے پہلے کبھی کہا تھا کہ امریکیوں کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس بہت سارا وقت۔
عظیم تر دشمن کے خلاف لڑائی میں اب تک طالبان نے اپنے بھرپور عزم کا اظہار کیا ہے اور وہ اپنے مشکل وقت کے ختم ہونے کا انتظار کریں گے اور مزاحمت کو اس امید کے ساتھ زندہ رکھیں گے کہ بالآخر غیر ملکی افواج ملک چھوڑ کر چلی جائیں گی یا ان کے ساتھ سیاسی ڈیل کرلیں گی۔
رحیم اللہ یوسف زئی
آپ کی رائے