دنیا میں کسی بھی مذہب اور مسلک کی مقدسات کی توہین نا جائز ہے۔
دین اسلام نے غیر مسلموں کی مقدس شخصیات ومقامات کی توہین کوبھی حرام قرارقرار دیاہے۔ چہ جائیکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مقدسات اور عقائد کی گستاخی میں لگ جائے۔ یہ بدرجہا مذموم اور حرام عمل ہے۔ جو لوگ اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں ان کا کوئی دین ومذہب نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کو اپنے اصل مقاصد اور عوام کی چاہت کے خلاف سرگرمیوں سے گریز کرنا چاہیے۔ آج کل متعدد حلقے سرکاری میڈیا کے ناقدین میں شامل ہوگئے ہیں لیکن ہم (اہل سنت) تیس سالوں سے سرکاری میڈیا کے امتیازی سلوک سے شکوہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے متعلقہ حکام نے ابھی تک اس کا نوٹس نہیں لیا ہے نہ ہی اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ سرکاری میڈیا بدستور اہل سنت والجماعت کی مقدسات کا مذاق اڑارہا ہے۔ اہل سنت کی تقریبات کو بالکل کوریج نہیں دیاجارہا یا چند سیکنڈ تک تقریبات کے مخصوص اور سلیکٹڈ حصے دکھائے جاتے ہیں۔
خطیب اہل سنت نے اپنے بیان کی ابتدا قرآنی آیت «وکذلک جعلناکم امۃ وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس» سے کرتے ہوئے اسلام کو اعتدال اور میانہ روی کا دین قرار دیا۔ انہوں نے کہا اعتدال بہترین اور سب سے پسندیدہ امر ہے۔ اسلام افراط وتفریط سے دور ہے۔ جبکہ دوسرے مذاہب کا دامن اس آفت سے پاک نہیں ہے۔ اسلام زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال سے کام لینے کا درس دیتاہے۔ اللہ تعالیٰ عبادالرحمن کی صفات یوں بیان فرماتے ہیں: «والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذٰلک قواماً» یعنی اللہ کے بندے وہ ہیں جو خرچ کرتے وقت اسراف اور بخل وکنجوسی دونوں سے دور رہتے ہیں اور درمیانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کھانے، پہننے اور رہنے کی جگہ میں بھی اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا چاہیے۔ اگرایک گھرمیں دس افرادرہتے ہیں تو بیس افرادکے لیے کھاناتیارکرنا اور روٹی خریدنا اسراف ہے۔لوگ اس طرح کرتے ہیں پھر روٹی جب بچ جاتی ہے تو بھیڑبکریوں کی غذابن جاتی ہے۔ مغرب میں بہت سارے لوگ اپنے عرف اور رواج کی بناپر اسراف سے اجتناب کرتے ہیں۔ ایسالگتاہے ہم اتنا اپنے دین اورشریعت کی تعلیمات پرعمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے جتنی کوشش وہ اپنے روایات اور رواج پرعمل پیراہونے میں کرتے ہیں۔ اسلام بخل اورکنجوسی کی دعوت نہیں دیتا بلکہ میانہ روی کاحکم دیتاہے۔
خطیب اہل سنت شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا معاشی مسائل اوربحرانوں کی ایک بڑی وجہ اسراف ہے۔ کچھ لوگ اسراف اور عیش وعشرت میں مگن ہیں دوسری طرف بعض لوگوں کی غربت کا حال یہ ہے کہ ایک روٹی خرید نے کے قابل بھی نہیں ہیں اور نان شب کو ترس رہے ہیں اس غربت کی وجہ ملک میں معاشی بحران ہے۔ انہوں نے مزید کہا اسلام نے پانی کے حوالے سے بھی اسراف سے سخت منع کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے وضو کرتے وقت بقدر ضرورت پانی استعمال کیا جائے چاہے وضو کرنے والا بہتے دریا کے کنارے پر ہی کیوں نہ ہو۔ میانہ روی و اعتدال کی وضاحت اور تشریح کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا انفاق اور صدقے میں بھی اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ صدقہ وخیرات میں اتنا آگے نہیں بڑھناچاہیے کہ دینے والا خود غربت اور تنگ دستی کا شکار ہوجائے اور لینے والوں کی صف میں شامل ہوجائے۔ اسی طرح جن کے پاس مال و دولت وافر مقدارمیں ہے انہیں زکات دینے پر بس نہیں کرنا چاہیے خاص طور پر جب معاشرے میں غربیوں اور نادار لوگوں کی کمی نہیں۔ فرمان الہی ہے: «و آٰت ذا القربیٰ حقہ والمسکین و ابن السبیل ولاتبذّر تبذیرا، انّ المبذرین کانوا اخوان الشیاطین» اس قرآنی آیت کی روسے اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی شمار ہوتے ہیں۔
جامع مسجد مکی کے خطیب نے کہا مال ودولت غلط راستوں پر خرچ کرنا بھی اسراف کے زمرے میں آتاہے۔ جیسا کہ شراب، منشیات، سگریٹ وغیرہ خریدنے پر پیسہ گنوا دینا جو نقصان کے علاوہ کوئی اور فائدہ ان سے حاصل نہیں ہوتا۔ زائد مال ودولت کو ناجائز جگہوں پر خرچ کرنے کے بجانے اللہ کی راہ میں وقف کرنا چاہیے۔ غربیوں اور فقیروں پر خرچ کرنا چاہیے۔ «یسئلونک ماذا ینفقون، قل العفو» اے رسول! آپ سے پوچھتے ہیں کیا چیز خرچ کریں، کہہ دیجیے زائد مال کو، اس کا مطلب ہے اگر ضرورت سے زائد کسی کے پاس دولت ہو توغریبوں اور مستحق لوگوں پر خرچ کرے۔
آپ کی رائے