2010ء کا سورج جہاں بہت سے لوگوں کے لیے خوشیوں کا پیغام لے کر طلوع ہوا اور بے شمار چہرے خوشی سے کھل اٹھے – ایک نئے عزم کے ساتھ لوگوں نے اس دن کی ابتداء کی – مگر دنیا کے ان جھمیلوں سے دور فلسطینی باشندوں نے 2010ء کے سورج کا استقبال اسرائیلی درندوں کی منہ زور جارحیت کا سامنا کرتے ہوئے کیا- جب اسرائیل کی غاصب فوج 3 ٹینکوں اور 2 بلڈوزروں کے ساتھ وسطی غزہ میں واقع المغازی کیمپ میں داخل ہوگئی – جہاں اسرائیلی فوج کے ظلم وستم کے شکار فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے– تقریباً 30 میٹر کے علاقے میں واقع فلسطینیوں کے لہلاتے سرسبز کھیتوں کو روندتے ہوئے ان محصور فلسطینی پناہ گزینوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین لیا –
دوسری طرف 2009ء کا سورج بھی فلسطینیوں کے حصے میں طویل داستان الم کی تلخ یادیں چھوڑ کر غروب ہوا- فلسطینی حکام کے مطابق 2009ء کے آخری لمحوں تک 7500فلسطینیوں سے اسرائیلی جیلیں آباد تھیں – یہ تعداد 1996ء میں صرف 317 تھی – یہ تمام قیدی ایسے بے گناہ افراد جن کے خلاف کسی قسم کا کوئی مقدمہ نہیں-ا ن بے ضرر عام شہریوں کو اسرائیلی فوج نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ اپنے کھیتوں میں ہل چلا رہے تھے-کچھ اپنے بچوں کے لیے راشن لینے جا رہے تھے یا محنت مزدوری کی تلاش میں سڑکیں ناپ رہے تھے –
ان اسیروں کی بڑی تعداد کا تعلق مغربی کنارے سے ہے جو 6300 کے عدد کو چھو رہا ہے اور غزہ کی پٹی سے وابستہ قیدیوں کی تعداد تقریباً 730 ہے- قدسی اور دیگر علاقوں کے 48 فلسطینی بھی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں- ان میں 17 ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ کئی سینئر سیاستدان بھی شامل ہیں – اسی ہرلبن نہیں ،اسرائیل جو درندگی اور سفاکی میں تمام ریکارڈ توڑنے کا ارادہ کئے بیٹھا ہے- اس نے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے 310معصوم بچوں کو بھی اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں عام قیدیوں کی طرح سخت مصیبتوں اور مشقتوں میں مبتلا کیا ہوا ہے – ان پھول سے بچوں کے ساتھ جن کے ابھی تتلیاں پکڑنے کے دن تھے – انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے جس کو دیکھ کر انسانیت بھی شرمندہ ہو جاتی ہے –
2000ء سے اب تک گرفتار کی گئی 850 عورتوں میں تاحال 34 خواتین اسرائیلی جیلوں میں قید وبند کی تکالیف برداشت کر رہی ہیں – ان مظلوم اور پاک دامن خواتین کو شارون اور دامون کی بدنام زمانہ اسرائیلی جیلوں میں انسانیت سوز مظالم کا سامنا ہے- آج اسلام حیران ہے – اس مغربی میڈیا کے رویے پر جو غیر جانبداری کے لیبل لگائے پھرتا ہے، حقوق نسواں کے لیے بے تاب و بے چین اور عورتوں کی ترقی کی ٹھیکیدار این جی اوز کو سوات کی ایک لڑکی کی جعلی ویڈیو میں تو ظلم کے پہاڑ توٹتے دکھائی دے رہے ہیں اور ادھر اسرائیلی جارحیت کا سامنا کرتی ان سینکڑوں خواتین پر ان کی نظر نہیں پڑتی جو کئی سال سے اسرائیلی فوج کی طرف ذہنی و جسمانی اذیت کے علاوہ جنسی ہوس کا بھی مسلسل نشانہ بن رہی ہیں –
ادھر حماس نے غزہ میں اپنی پہلی پولیس اکیڈمی کا افتتاح کردیا ہے اور رات کے گہرے سائے کی طرح پھیلتی اسرائیلی خون ریز جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے خود ہتھیار تیار کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے- حماس کے وزیر داخلہ فتحی حماد کے مطابق اس اکیڈمی میں ابتدائی طور پر 200 افراد بھرتی کئے جائیں گے جن کو یہاں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد حماس کی پولیس میں شامل کیا جائے گا-
اپنی مدد آپ کے تحت اسرائیلی غاصبوں کے مقابلے کا عزم و ارادہ ان فلسطینیوں کے لیے فتح اور شادمانی کا سورج آفاق عالم پر نمودار ہو گا- جو ان کی محنت اور لگن کے بقدر وقت کو سمیٹتے ہوئے عنقریب طلوع ہوگا-
ان اسیروں کی بڑی تعداد کا تعلق مغربی کنارے سے ہے جو 6300 کے عدد کو چھو رہا ہے اور غزہ کی پٹی سے وابستہ قیدیوں کی تعداد تقریباً 730 ہے- قدسی اور دیگر علاقوں کے 48 فلسطینی بھی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں- ان میں 17 ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ کئی سینئر سیاستدان بھی شامل ہیں – اسی ہرلبن نہیں ،اسرائیل جو درندگی اور سفاکی میں تمام ریکارڈ توڑنے کا ارادہ کئے بیٹھا ہے- اس نے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے 310معصوم بچوں کو بھی اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں عام قیدیوں کی طرح سخت مصیبتوں اور مشقتوں میں مبتلا کیا ہوا ہے – ان پھول سے بچوں کے ساتھ جن کے ابھی تتلیاں پکڑنے کے دن تھے – انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے جس کو دیکھ کر انسانیت بھی شرمندہ ہو جاتی ہے –
2000ء سے اب تک گرفتار کی گئی 850 عورتوں میں تاحال 34 خواتین اسرائیلی جیلوں میں قید وبند کی تکالیف برداشت کر رہی ہیں – ان مظلوم اور پاک دامن خواتین کو شارون اور دامون کی بدنام زمانہ اسرائیلی جیلوں میں انسانیت سوز مظالم کا سامنا ہے- آج اسلام حیران ہے – اس مغربی میڈیا کے رویے پر جو غیر جانبداری کے لیبل لگائے پھرتا ہے، حقوق نسواں کے لیے بے تاب و بے چین اور عورتوں کی ترقی کی ٹھیکیدار این جی اوز کو سوات کی ایک لڑکی کی جعلی ویڈیو میں تو ظلم کے پہاڑ توٹتے دکھائی دے رہے ہیں اور ادھر اسرائیلی جارحیت کا سامنا کرتی ان سینکڑوں خواتین پر ان کی نظر نہیں پڑتی جو کئی سال سے اسرائیلی فوج کی طرف ذہنی و جسمانی اذیت کے علاوہ جنسی ہوس کا بھی مسلسل نشانہ بن رہی ہیں –
ادھر حماس نے غزہ میں اپنی پہلی پولیس اکیڈمی کا افتتاح کردیا ہے اور رات کے گہرے سائے کی طرح پھیلتی اسرائیلی خون ریز جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے خود ہتھیار تیار کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے- حماس کے وزیر داخلہ فتحی حماد کے مطابق اس اکیڈمی میں ابتدائی طور پر 200 افراد بھرتی کئے جائیں گے جن کو یہاں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد حماس کی پولیس میں شامل کیا جائے گا-
اپنی مدد آپ کے تحت اسرائیلی غاصبوں کے مقابلے کا عزم و ارادہ ان فلسطینیوں کے لیے فتح اور شادمانی کا سورج آفاق عالم پر نمودار ہو گا- جو ان کی محنت اور لگن کے بقدر وقت کو سمیٹتے ہوئے عنقریب طلوع ہوگا-
آپ کی رائے