شہدائے زاہدان کی یاد میں ایرانی قوم نے اتحاد کا مظاہرہ کیا

شہدائے زاہدان کی یاد میں ایرانی قوم نے اتحاد کا مظاہرہ کیا

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے گیارہ نومبر دوہزار بائیس کے خطبہ جمعہ میں ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے احتجاج کرنے والوں کے لیے پھانسی کی سزا مطالبہ کرنے والوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے عوام کی آواز سننے اور آزادی فراہم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے ایرانی قوم کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے شہدائے زاہدان کی یاد میں اتحاد کا مظاہرہ کیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے ہزاروں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ارکان پارلیمنٹ نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت بیان دیاہے جو حیرت انگیز ہے؛ پارلیمنٹ عوام کا گھر ہے اور عوام ہی کے نمائندے وہاں موجود ہیں۔ تم عوام کے نمائندے ہو اور تمہیں عوام کی آواز بن کر ان کی باتیں حکام تک پہنچانا چاہیے۔
انہوں نے ارکان مجلس شورائے اسلامی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تمہیں عوام کا دفاع کرنا چاہیے تاکہ جنگی گولیوں سے کوئی انہیں نہ مارے۔ عوام کو بھی نصیحت کریں کہ کسی چیز کو مسمار نہ کریں اور ان کی غلطیوں کو یاددہانی کرائیں، لیکن ساتھ ساتھ سکیورٹی اہلکاروں کو بھی بتائیں کہ یہ لوگ ایران ہی کے عوام ہیں اور گولی مارکر قتل نہ کریں۔ سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے کوشش کریں اور قوم کے حقوق کا دفاع کریں۔ جب تم کوئی خط لکھتے ہو، یہ یاد رکھو کہ تم عوام کے نمائندے ہو۔ کیا دنیا کے کسی پارلیمنٹ میں عوام کے نمائندے عوام ہی کے قتل کا مطالبہ کرتے ہیں؟!
مولانا عبدالحمید نے پارلیمنٹ میں چابہار کے نمائندے کے مایک کو بند کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: چابہار کے نمائندہ معین الدین سعیدی کے لیے نیک تمنائیں ہیں جنہوں نے عوام کا درد بیان کیا اور بلاوجہ شہید ہونے والے عوام کا دفاع کیا۔ افسوس ہے کہ ایک ایسا نمائندہ جس نے عوام کا دفاع کیا، اس کا مایک بند کردیا گیا تاکہ اس کی آواز دوسروں تک نہ پہنچے۔ پارلیمنٹ کے وائس سپیکر نے ہمارے لوگوں کو علیحدہ پسند اور تخریب کار قرار دیا جو انتہائی افسوسناک ہے۔ عوام کا کوئی نمائندہ ایسی باتیں کرے، یہ انتہائی افسوسناک ہے۔

سب حکام کو معلوم ہے ہمارے لوگ ناحق قتل ہوئے
مولانا عبدالحمید نے امن کی حفاظت پر زور دیتے ہوئے کہا: زاہدان اور خاش میں پیش آنے والے افسوسناک واقعات میں متعدد بے گناہ شہری شہید ہوئے۔ اس کے باوجود ہم نے امن کی بحالی پر محنت کی۔ قبائلی عمائدین کے لیے جتنا ممکن تھا، انہوں نے امن کی خاطر کوشش کی اور ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اب یہ معلوم ہونا چاہیے کون نہتے شہریوں کو قتل کرانے میں ملوث ہیں اور انہیں مارنے کی وجہ کیا ہے؟

شہدا کے گھروالوں نے پیسے کی تجویز کو ٹکرادیا
خطیب اہل سنت نے زاہدان کے خونین جمعہ کے شہدا کے کیس کے بارے اپ ڈیٹ دیتے ہوئے کہا: اس کیس میں کچھ اقدامات کیے گئے ہیں جو تسلی بخش ہیں، لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ حکام اس جنایت کی کھل کر مذمت کریں۔ یہ میڈیا ذرائع جنہوں نے عوام کو علیحدہ پسند یاد کرکے جھوٹ سے دعویٰ کیا کہ احتجاج کرنے والے لوگ پولیس سٹیشن پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، حالانکہ ان کے ذہن و خیال میں ایسی کوئی بات نہیں تھی، وہ عوام سے معافی مانگ کر ان کی اس الزام سے پاکی کا اعلان کریں۔ اس جنایت میں ملوث دیگر افراد کو بھی ٹرائل کرائیں۔
انہوں نے مزید کہا: شہدائے زاہدان کے اہل خانہ کو بتایا گیا ہے کہ تمہیں پیسہ دیں گے، لیکن انہوں نے اس پیشکش کو مسترد کی ہے۔ وہ اپنی عزت محفوظ رہنے کی درخواست کرتے ہیں اور جو الزامات ان کے عزیزوں کو لگایا گیا، ان کا ازالہ کریں۔ جو وکلا تہران سے متعین ہوئے ہیں، انہیں یہاں آنے کی اجازت ملنی چاہیے تاکہ کیس آگے بڑھے۔ عوام خود قانون کے ماہر نہیں ہیں۔ شہیدوں کے کیس کی پیروی کے لیے ایک مخصوص پینل تشکیل ہوئی ہے جو مثبت اقدام ہے۔ یہ صرف زاہدان کے شہدا سے متعلق ہے اور ملک کے عام مسائل اپنی جگہ باقی ہیں۔

نہتے شہریوں پر تم نے کیسے فائرنگ کی؟
مولانا عبدالحمید نے حکام کی خیرخواہوں کی باتیں ٹکرانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: آج پوری قوم متحد ہے؛ مشترکہ مسائل، زندگی کے دباؤ، آزادی اور انصاف پسندی نے انہیں متحد کیا ہے۔ ہم سب نے اپنی اپنی حد تک آواز اٹھائی کہ موجودہ داخلہ و خارجہ پالیسیوں کو تبدیل کریں۔ عوام پریشان ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں؛ خیرخواہی سے یہ باتیں کہتے ہیں۔ میرے علاوہ متعدد شخصیات نے مختلف سماجی گروہوں سے آواز اٹھائی؛ اگر ان کی باتیں سنتے، آج ملک گیر احتجاج دیکھنے میں نہ آتے۔ عوام کی رضامندی حاصل ہوجاتی اور وہ اپنے مطالبات حاصل کرلیتے، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: زاہدان اور خاش کے خونین جمعوں میں نہتے شہریوں کو قتل کی نیت سے گولی مارکر شہید کردیا گیا۔ عوام کو کیوں جنگی گولیوں سے ماراجاتاہے؟ پتہ نہیں یہ فورسز جو بیت المال سے تنخواہ لیتے ہیں کہاں انہوں نے ٹریننگ حاصل کی ہے؟ یہ اگر ایران کے شہری بھی نہ ہوں اور ان کا تعلق باہر ملک سے ہو، پھر بھی انہیں اتنی بے دردی سے قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔کسی جانور اتنی بے رحمی سے قتل کرانے کا تصور مشکل ہے۔ تم نے ان نہتے لوگوں کو کیسے مارا جن کے ہاتھ میں کوئی اسلحہ نہیں تھا؟ انہوں نے زیادہ سے زیادہ ایک پتھر ماراہے یا احتجاج کی آواز اٹھائی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے ایرانی قوم کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے زاہدانی شہدا کی چہلم کے بہانے سے زاہدانی عوام سے تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس اتحاد کے مظاہرے کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا: یہی اتحاد اور یکجہتی ہے جو ملک کی حفاظت یقینی بناتاہے اور قومی امن کو استحکام دیتاہے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: اس قوم کی قدر کرنی چاہیے؛ حکام ان کی آواز سن لیں۔ یہ تمہارے محسن ہیں۔ انقلاب ان ہی افراد اور ان کی اولاد کی محنتوں سے کامیاب ہوا۔ ایسی قوم جو اعلی ثقافتی اقدار، اخلاق اور عمل سے مالامال ہو، کم ہی ملتی ہے۔ خواتین، نوجوان اور جامعات میں زیرِ تعلیم طبقہ ایرانی قوم کے حصے ہیں اور حکومت کو چاہیے ان کی خدمت کرے۔ ان لوگوں کی خدمت تمہاری ذمہ داری ہے۔

اپنی کمزوری دشمن پر نہ ڈالیں
انہوں نے کہا: اگر آج لوگ احتجاج کے لیے نکلے ہیں، یہ تمہاری ہی کمزوری کی وجہ سے ہے۔ اپنی کمزوری چھپانے کے لیے دشمن کو مشتعل کرنے کا ذمہ دار نہ بتائیں۔اپنی کمزوریاں دیکھ لیں کہ انصاف کی فراہمی اور عوام کی خدمت کے لیے اور ان کے مسائل حل کرانے میں کیا کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں۔
مولانا نے کہا: آج لوگ اگر چلارہے ہیں، اس کی وجہ غیرملکی قوتوں اور دشمنوں کا اشتعال دلانا نہیں ہے۔ یہ لوگ پھنس چکے ہیں اور مجبور ہوکر احتجاج کررہے ہیں۔ ہم عوام کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے حالات ہمیں اچھی طرح معلوم ہے۔

صحافیوں کو رہا کریں
ممتاز عالم دین نے مزید کہا: کچھ لوگ کہتے ہیں ہمیں آزادی حاصل ہے، ورنہ ہم یہ باتیں نہیں کہہ سکتے تھے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی جتھوں کو آزادی حاصل نہیں ہے۔ کیا اظہارِ رائے کی آزادی ہے؟ہم سخت سیسنر دیکھ رہے ہیں۔ کئی صحافی اب جیل میں ہیں، انہیں رہا کریں۔ کیا تمہیں یاد نہیں ایک جج نے بیک جنبش قلم بارہ اخبارات کو بند کرایا؛ دنیا کے کس ملک میں بارہ اخبارات کو بیک وقت بند کیا جاتاہے؟ کہاں قلم اتنا بند اور محدود کیا جاتاہے؟ دیگر ملکوں میں بھی پابندیاں ہیں، لیکن تم جمہوریت اور آزادی کا دعویٰ کرتے ہو، لہذا خود کو آزاد ممالک سے تقابل کرائیں۔
انہوں نے کہا: میرا عقیدہ ہے جو آزادی خلفائے راشدین کے دور میں تھا وہ آج کے جمہوری ملکوں میں بھی نہیں؛ میں چیلنج کرکے کہتاہوں اور مناظرہ کے لیے بھی تیار ہوں کہ آج کی جمہوریت میں جو آزادی ہے، وہ نبی کریم ﷺ کے دور کی آزادی سے کم ہے۔ میں اسلامی جمہوریہ ایران کو خلفائے راشدین اور حضرت علیؓ کے دور سے موازنہ کرتاہوں تو اس تقابل میں کھوجاتاہوں کہ ان کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا، وہ مخالفین کی بات سنتے تھے اور مسلم و غیرمسلم کو انصاف فراہم ہوتا تھا۔

مسلح افواج عوام کے لے مرجائیں، ان کا قاتل نہ بنیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے مسلح اداروں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: تم ان ہی لوگوں کی اولاد ہو اور یہ لوگ تمہاری بہنیں اور مائیں ہیں۔ خواتین کی عزت کریں اور ان سے نرمی کا مظاہرہ کریں۔ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات قوم کے بہترین افراد ہیں، ان سے اچھا برتاؤ رکھیں اور انہیں عزت دیں۔ علما، دانشوروں، طلبہ اور قوم کے تمام افراد کی باتوں کو سن لینا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: مسلح اداروں کے اہلکاروں کو میری نصیحت ہے کہ عوام کو جنگی گولیاں نہ ماریں۔ یہ لوگ اسی وطن کے فرزند ہیں اور تمہیں اس قوم کی خاطر جان دینا چاہیے۔ مسلح افواج کے لیے یہی چیز عزت اور فخر ہے کہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر جان کی بازی لگائیں۔ اگر یہ لوگ تمہاری پٹائی کرتے ہیں، کوئی پروا نہ کریں، لیکن تم لوگوں کو مارنے سے باز آئیں۔ تمہاری عزت اور قدر اسی میں ہے۔
انہوں نے احتجاج کرنے والوں کو بھی نصیحت کرتے ہوئے کہا: اپنا احتجاج پرامن رکھیں۔ دوکانوں، بینکوں اور گاڑیوں کو نہ جلائیں۔ سکیورٹی فورسز کو نہ ماریں اور ان سے نہ الجھیں۔ اپنا احتجاج قابو میں رکھیں اور پرامن رہیں۔ پرامن احتجاج تمہارا حق ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے عدلیہ حکام کو مخاطب کرتے ہوئے احتجاج کرنے والوں کو ‘محارب’ اور ‘باغی’ قرار دینے سے گریز کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا: ایک یہودی کا قرضہ نبی کریم ﷺ پر تھا۔ تو اس نے ایک مرتبہ آواز اٹھائی اور آپﷺ کا گریبان پکڑا۔صحابہؓ نے آواز بلند کی اور اسے روکنے کی کوشش کی، لیکن آپﷺ نے منع فرماتے ہوئے کہا: تمہیں روکنے اور آواز اٹھانے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ مجھے بتائیں کہ میں اس کا حق ادا کروں۔ اسے کہتے ہیں عوام کی آواز سننا۔ اسی طرح حضرت عمر ؓ کو ایک بوڑھی خاتون نے روکا کہ مہر کے بارے میں تم کوئی نصیحت کرسکتے ہو، لیکن منبر پر مہنگی مہر رکھنے سے منع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ عمرؓ نے کہا: کاش عمر اس عمررسیدہ خاتون کی حد تک سمجھ سکتا۔ یہ درست بات ہے۔ انہوں نے درست بات کو تسلیم کی۔ حضرت علیؓ کو پتہ چلا ایک یہودی خاتون کے خلخال کو کسی نے غصب کیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا اس حکومت کی کیا قدر ہے جب ایک خاتون امن محسوس نہ کرے۔

علما ہر حال میں عوام کے ساتھ رہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے حکام کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: میں خیرخواہی کی بنا پر کہتاہوں کہ عوام کی بات سن لیں۔ دیکھ لیں ان کا مسئلہ کیا ہے؟ جیسا کہ بانی انقلاب اور سپریم لیڈر کی باتوں میں ہے، اصل ارادہ قوم کا ہے۔ قوم کے ارادے کے سامنے سرِ تسلیم خم کریں۔ تمہاری عزت اسی میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: آج علما حکومت کے عنان ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں۔ پوری تاریخ میں علما عوام کے ساتھ رہ چکے ہیں اور اس کے سوا ہمارا کوئی راستہ نہیں ہے۔ شیعہ و سنی کے علما عوام کے ساتھ رہے ہیں اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔ امید ہے ہمارا مستقبل خیر ہو۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اگر تم سو سال حکومت کرو، اس حکومت کی کیا قدر ہے؟ حکومت کی قدر انصاف کی فراہمی اور اخلاق، سچائی، دیانتداری اور خدمت خلق میں ہے۔ جب اللہ اور خلق اللہ ناراض ہوں، پھر اس حکومت کی کیا قدر ہے۔ اللہ کی قسم ایسی حکومت کی کوئی قدر نہیں۔ حکومت اپنا نام اسلامی رکھے یا کچھ اور، لیکن سب کسی طرح اللہ کی طرف سے انصاف دلانے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آزادی دلوانے کے نمائندے حکام ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبی ﷺ کو فرماتاہے کہ غریبوں اور کمزور لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو۔ ایسی حکومت قدر رکھتی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں زاہدانی نمازیوں کو نصیحت کی کہ پرامن رہیں اور احتجاج کے دوران کسی کو نقصان نہ پہنچائیں۔ سکیورٹی اہلکار اپنی بیرکوں میں ہے تاکہ تم ہی امن قائم کرو۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں