خطیب اہل سنت زاہدان:

اللہ تعالیٰ سے تعلق انسانی زندگی کی ترقی اور سکون کا باعث ہے

اللہ تعالیٰ سے تعلق انسانی زندگی کی ترقی اور سکون کا باعث ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے تازہ ترین بیان میں اللہ تعالیٰ سے تعلق کی اہمیت اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں اس کے مثبت اثرات کی نشاندہی کرتے ہوئے قرآن و سنت کی اتباع اور نیک اعمال بجالانے کی ضرورت پر زور دیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے سترہ جون دوہزار بائیس کے خطبہ جمعہ میں سورت یونس کی آیات 57-58 کی تلاوت سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ آج کل دنیا میں اللہ سے تعلق کمزور ہوچکاہے۔ حالانکہ ماضی میں لوگوں کے تعلقات اللہ سے اچھے رہے ہیں اور آج کی نسبت سے ان کے تعلقات بہت بہتر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: آج کل زبان سے اللہ کی محبت اور اس ذات پاک سے تعلق کے دعوے بہت ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اللہ سے قلبی تعلق انسان کے لیے حیات کا باعث اور پوری دنیا کے مفاد اور فلاح کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ خیر، فیض اور برکات کا سرچشمہ اور منبع ہے؛ اس سے تعلق جتنا زیادہ مضبوط ہو اتنا ہی انسان کے لیے فائدہ مند ہے۔ اچھے کام جیسے بیماروں کی عیادت، صدقات و خیرات دینا، لوگوں کی خدمت کرنا اور ان کے مسائل حل کرنے میں کوشش کرنا سب اللہ کی یاد شمار ہوتے ہیں اور یہ تب میسر ہوتے ہیں جب دل میں اللہ کی محبت موجزن ہو۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: سب سستیوں، اعمال کی کمزوریوں اور بے توفیقیوں کی وجہ دل میں اللہ کی محبت کا فقدان اور اس سے عدم تعلق ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت جو محبتِ الہی کا ایک اہم ذریعہ اور قرب ِ خداوندی کا باعث ہے، ہماری زندگی میں ناپید یا کمزور ہے۔ نماز پڑھتے ہیں تو سستی کے ساتھ؛ حضورِ قلب، مناجات کی حالت اور اللہ کی طرف توجہ بہت کم ہے۔ ذکر و تلاوت کے وقت تاثر اور رازونیاز کی حالت نہیں ہے؛ جبکہ ماضی کے لوگوں کے سامنے اللہ کی یاد ہوتی تو وہ رونے لگتے اور سخت متاثر ہوجاتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا: گھروں میں ذکر و تلاوت اور دین کی فضا قائم ہونی چاہیے۔ جب خواص کے گھروں میں ایسی فضا نہیں ہے، پھر عوام سے کیا گلہ! بہت سارے لوگ فجر کی نماز کے لیے نہیں اٹھتے، جو اٹھتے ہیں نماز پڑھ کر فورا سوجاتے ہیں حالانکہ مناسب یہی ہے کہ اس مبارک وقت میں آدمی ذکر وتلاوت اور خدا کی یاد میں مشغول و مصروف ہوجائے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: ہمارا تعلق نبی کریم ﷺ سے درود شریف پڑھنے اور ان کی سنتوں پر عمل کرنے سے بڑھتاہے، لیکن وہ بھی ہم نے چھوڑدیاہے یا کمزوری کی نذر ہوگیاہے۔ آپﷺ سببِ خیر اور ہماری نجات کے ذریعے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: قرآن پاک ایک جامع اور آدمی کو انسان بنانے والی کتاب ہے جس میں دنیا و آخرت کی اچھائیاں جمع ہیں۔ یہ پوری دنیا کی دولت سے بڑھ کر اور بہتر ہے۔ یہ پروردگارِ دو جہاں کا کلام ہے اور دنیا و آخرت کی نجات اسی میں ہے۔ قرآن کی تلاوت کریں اور اپنی اولاد کو بھی سکھائیں۔ اس عظیم کتاب کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا دروازہ ہم پر کھلتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: شاید دشمنوں کے پروپگینڈا اور شبہات سے ہم لوگ متاثر ہوچکے ہیں اور دنیا کی محبت میں گرفتار ہوکر دین اور آخرت کو بھول چکے ہیں۔ سستی، بے عملی اور اللہ سے تعلق کی کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ دل میں اللہ کی محبت کے بجائے غیراللہ کی محبت آچکی ہے۔ جب تک دل میں اللہ کی محبت غالب نہ ہوجائے، ہم پورے مومن نہیں بن سکتے ہیں۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: زندگی میں ترقی اور سکون اللہ سے مضبوط تعلق اور اس کی یاد سے حاصل ہوتے ہیں۔ اللہ سے تعلقات بنائیں اور قبر کو مت بھولیں۔ دنیا کو بھی چلائیں تاکہ دوسرے لوگ استفادہ کریں اور اپنی اور دوسروں کی آخرت کو بھی آباد کریں۔

گھروں اور مساجد میں لائبریری بنائیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے مساجد اور گھروں میں تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں کی ضرورت واضح کرتے ہوئے کہا: اپنی زندگی کے سب کاموں کے لیے منصوبہ بندی کریں۔ تلاوتِ قرآن، درود اور ذکر و تعلیم کے لیے ایک مناسب ترتیب ہونی چاہیے۔ گھر میں دینی ماحول بنائیں اور بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت کے لیے منصوبہ بندی کریں۔
انہوں نے مزید کہا: ہر گھر میں ایک لائبریری جس میں قرآن پاک سمیت مفید دینی کتابیں موجود ہوں، بنائیں۔ بچوں کی تعداد کے مطابق قرآن پاک اس میں رکھیں اور ان کے لیے مطالعہ اور تلاوت کے لیے وقت خاص کریں۔ دینی اور علمی مذاکرہ کے لیے بھی گھروں میں پروگرام رکھیں اور وقت مختص کریں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ذکر، تلاوت اور نیک اعمال سے اپنے گھروں کو مسجد بنائیں تاکہ مساجد کی طرح گھروں میں بھی دینی ماحول پیدا ہوجائے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول برحق ﷺ سے تعلق بڑھ جائے۔ اسی طرح، ائمہ مساجد مقتدیوں کی مدد سے مسجدوں میں لائبریری بنائیں اور اس میں مفید دینی کتابوں سمیت اسکولوں اور کالجوں کی دستیاب کتابیں بھی رکھیں۔ اہل علم اور اساتذہ کو دعوت دیں کہ وہ بچوں کو مسجدوں میں پڑھائیں اور ان کے لیے بیان کریں۔
ممتاز عالم دین نے اپنے بیان کے اس حصے کے آخر میں شادی کی تقریبات میں فائرنگ اور عام شاہراہوں میں تیز رفتاری سے گاڑی چلانے سے منع کرتے ہوئے کہا ان اقدامات سے بے گناہ شہریوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور یہ گناہ اور حرام ہے۔

ایران کے جوہری پروگرام کا پرامن حل پوری دنیا کے مفاد میں ہے
اپنے بیان کے دوسرے حصے میں مولانا عبدالحمیدنے ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے بین الاقوامی مذاکرات میں تعطل اور سست روی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فریقین کو نرمی اور لچک دکھانے کی دعوت دی۔
مولانا عبدالحمید نے زاہدان کے مرکزی اجتماع برائے نماز جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: جوہری مذاکرات میں تعطل اور جنگ کے منڈلاتے سایے نے سب کو پریشان کردیا ہے۔ یہ خطرہ اور پریشانی پائی جاتی ہے کہ کہیں ایک اور جنگ خطے میں چھیڑ نہ جائے جو پوری دنیا کے لیے خطرناک ہے۔
انہوں نے مزید کہا: یوکرین جنگ میں روسی حکام اور تجزیہ کاروں کے غلط تجزیوں کی وجہ سے روس کے وسائل بھی تباہ ہوئے اور روس و یوکرین کو بھاری جانی و مالی نقصانات بھی اٹھانا پڑا۔ اس جنگ کے منفی اثرات سے پوری دنیا متاثر ہوئی۔ امریکا اور نیٹو کی افغانستان پر یلغار اور عراق پر امریکی حملہ بھی ایک ایسی ہی جنگ اور غلطی کی مثالیں تھیں۔
ممتاز عالم دین نے کہا: اگر ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان کوئی جنگ واقع ہوجائے، جانبین کی طاقت کو سامنے رکھ کر یوں نتیجہ نکالاجاسکتاہے کہ یہ انتہائی تباہ کن لڑائی ہوگی اور پورا مشرق وسطی اس کی لپیٹ میں آسکتاہے۔ ایسی جنگ کا وقوع ہرگز سمجھدارانہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: عقل مندی کا تقاضا ہے کہ دونوں فریق مذاکرات کی میز پر اکٹھے ہوجائیں اور سب نرمی اور اپنے موقف میں لچک کا مظاہرہ کریں۔ ایران کے حکام بھی جنگ کے خطرے کو ٹالنے اور کشیدگی کم کرنے کے لیے مزید لچک دکھائیں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: جوہری مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا پورا خطہ اور دنیا کے عین مفاد میں ہے۔ یہ خطہ مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ پہلے ہی سے کشیدگی پائی جاتی ہے اور اس کو مزید نہیں بڑھانا چاہیے۔ سب کو چاہیے ایک تباہ کن جنگ روکنے کے لیے محنت کریں۔
انہوں نے ایران پر عائد پابندیوں کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہوئے کہا: ایران کے خلاف پابندیوں کو بڑھانے کے بجائے ان کا خاتمہ دینا ضروری ہے۔ ایران کی آبادی آٹھ کروڑ سے زائد ہے۔ پابندی لگانے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان پابندیوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ عوام پر پڑتے ہیں۔
مولانا نے اپنے نکات کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہا: معاشی پابندیاں عائد کرنے کی پالیسی شروع ہی سے ایک غلط پالیسی تھی اور ان پابندیوں کو مذاکرات سے ختم کرنا چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں