دنیا کو ’نفاذِ عدل‘ کے لیے سیرت خاتم النبیینﷺ کی پیروی کرنی پڑے گی

دنیا کو ’نفاذِ عدل‘ کے لیے سیرت خاتم النبیینﷺ کی پیروی کرنی پڑے گی

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے چھبیس نومبر دوہزار اکیس کے خطبہ جمعہ میں نبی کریم ﷺ سمیت تمام انبیا ؑ کی سیرت میں موجود فراخدلی اور نفاذِ عدل کی مثالوں کو دنیا والوں اور اصحابِ اقتدار و حکومت کے لیے قابل تقلید یاد کیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے ہزاروں نمازیوں سے نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا: اہل دنیا کے لیے بہترین طریقہ اور سیرت، نبی کریم ﷺ کی سیرت ہے۔ آج کی دنیا مادی ترقی میں پیش پیش ہے، لیکن جو کمی ہے وہ نبی کریم ﷺ سمیت سب انبیاؑ کی سیرت اور اخلاق کی اتباع ہے۔ جو قومیں خود کو زیادہ مہذب سمجھتی ہیں، ان میں اخلاقی کمزوری زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا: اللہ رب العزت نے نبی کریم ﷺ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دنیاوالوں کے لیے بہترین نمونہ اور مثال قرار دیاہے۔ جب تک لوگ ان حضرات کی پیروی نہیں کریں گے، اس وقت تک وہ اپنی حقیقی جگہ اور مقام تک نہیں پہنچیں گے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: نبی کریم ﷺ زندگی کے تمام شعبوں میں ہمارے لیے مثال اور نمونہ ہیں۔ دنیا کے سب افراد بشمول سیاستدان، بیوروکریٹس، حکام اور عام لوگ کامیابی اور اپنی عزت کے لیے سب پیغمبروں اور نبی کریم ﷺ سمیت صحابہ و اہل بیت کی سیرت کی پیروی کرنے کے محتاج ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: دنیا والوں کی ضرورت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے کریمانہ اخلاق، بے نظیر فراخدلی، اعلیٰ ظرف، ایمان و اعتقاد، بہادری، سخاوت، بزرگی اور اقوال و کردار کی اتباع کریں۔ انبیا علیہم السلام، نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کی اعلیٰ ظرفی، یکسان نگاہیں اور عدل و انصاف میں پیروی سے سماج میں حقیقی اتحاد، پائیدار امن اور سکون حاصل ہوجائے گا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: امید کرتے ہیں دنیا کی تمام حکومتیں خاص کر وہ حکومتیں جن کے نام دینی اور اسلامی ہیں، وہ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کی سیرت اور روش کی پیروی میں کامیاب ہوکر عوام کی خدمت، نفاذ عدل اور مختلف قومیتوں، مسالک اور مذاہب کے بارے میں مساوات سے کام لینے میں سرخرو ہوجائیں؛ اللہ تعالیٰ کی رضامندی اسی میں ہے۔

مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں ایرانی صدر کے مشیر خاص کی موجودی اور سفر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ماموستا ڈاکٹر کریمی دینی مدارس اور عصری جامعات کے فاضل ہیں اور انہیں ضرورتوں، ترجیحات اور مسائل کا بخوبی علم ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ مشیر کی تقرری سے قوم اور حکومت درمیان فاصلے کم ہوں اور یہ مشیر محض برائے نام نہ ہو۔ اسی لیے عوامی مسائل اعلیٰ حکام تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہے۔

ماموستا عبدالسلام کریمی: بجٹ اور عہدوں کی درست تقسیم حکومتوں پر عوام کا حق ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید سے پہلے ماموستا ڈاکٹر عبدالسلام کریمی نے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت کا سلام سیستان بلوچستان کے عوام تک پہنچایا۔انہوں نے اپنے خطاب میں بجٹ اور عہدوں کی عادلانہ تقسیم کو عوام کا حکومتوں پر حق قرار دیا۔
لسانی و مذہبی برادریوں کے امور میں صدر کے مشیر خاص نے کہا: جیسا کہ مرشد اعلیٰ نے فرمایاہے اتحاد کوئی حکمت عملی نہیں، بلکہ سٹریٹجی ہے۔ ہماری جڑیں، ہمارا خدا، پیامبر اور قبلہ ایک ہیں، حتیٰ کہ ہمارے دشمن بھی مشترک ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ عمل میں ہم ثابت کریں ہم ایک ہیں اور ہمارے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: آئین کے مطابق اس ملک میں کوئی دوسرے درجے کے شہری نہیں ہے، سب کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ بانی انقلاب نے بھی یہی کہا ہے کہ شیعہ و سنی بھائی بھائی ہیں اور انہیں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ مرشد اعلیٰ بھی مختلف مسالک کی مقدسات کے احترام پر زور دیتے ہیں اور اس مسئلے کو سرخ لکیر سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر کریمی نے کہا: ہم سب آدمؑ کی اولاد ہیں؛ مرد، عورت اور مختلف لسانی و مذہبی برادریوں میں کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ زبان ا ور نسل کے انتخاب میں ہمارا کوئی کردار نہیں؛ یہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ تھا؛ لہذا اس وجہ سے کسی کی توہین اور تحقیر جائز نہیں ہے۔
انہوں نے صوبہ سیستان بلوچستان کی اعلیٰ شخصیات اور حکام سے اپنی ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سب کی کوشش ہے مسائل حل ہوں اور کسی کے حق میں کوئی ظلم نہ ہو۔ ضلعی اور صوبائی عہدوں میں اہل سنت سے کام لینے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
صدر رئیسی کے مشیر نے کہا: جیسا کہ حکومت کا عوام پر حق ہے، عوام کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عہدوں اور بجٹس کو عادلانہ تقسیم کرے تاکہ کوئی بھی ایرانی یہ محسوس نہ کرے کہ اسے نظرانداز کیاگیا ہے۔ اس ملک کی حفاظت کی خاطر شیعہ و سنی دونوں کے خون بہہ چکے ہیں۔
ڈاکٹر کریمی نے اپنے بیان کے ایک حصے میں صوبہ سیستان بلوچستان میں شناختی کارڈ کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک کچھ افراد اس صوبے میں شناختی کاغذات سے محروم ہیں۔ زاہدان کے شیرآباد ٹاؤن میں ایک بچی سے میں نے بات کی۔ میں نے اس سے پوچھا تمہاری خواہش کیا ہے؟ اس نے پارک یا مکان کی درخواست نہیں کی، اس نے کہا میں چاہتی ہوں سکول جاکر پڑھوں۔ کیا انقلاب سے چالیس سال گزرنے کے بعد یہ کوئی بڑا مطالبہ ہے؟
انہوں نے امید ظاہر کی گورنر سیستان بلوچستان اس صوبے سے غربت کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردے اور علمائے کرام سمیت سب طبقات اپنے اپنے حصے کا کام کرکے غربت کی بیخ کنی کے لیے محنت کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں