مولانا عبدالحمید کا صدارتی انتخابات سے پہلے تبصرہ:

ملک میں مایوسی کی فضا غالب ہے

ملک میں مایوسی کی فضا غالب ہے

اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت مولانا عبدالحمید نے اٹھائیس مئی دوہزار اکیس کے خطبہ جمعہ میں اصلاح پسندوں کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے ملک کی موجودہ فضا میں غالب مایوسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لوگوں کی امید واپس لانے کے لیے ’نئے طریقوں‘ پر زور دیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے ہزاروں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ایران میں اسلامی انقلاب قوم کے مختلف گروہوں کی کوششوں سے کامیاب ہوکر ’اسلامی جمہوریہ‘ کا نظام سامنے آیا جس کے اہم ترین مقاصد میں نفاذِ عدل شامل تھا۔
انہوں نے مزید کہا: ایرانی عوام سابقہ رجیم میں ظلم اور عدم مساوات سے نالاں تھے، اسی لیے نفاذِ عدل اور مساوات کی امید سے وہ انقلابیوں کے ساتھ مل گئے۔ لہذا نفاذِ عدل سب قومیتوں اور مسالک و مذاہب کا سب سے اہم مطالبہ ہے جنہوں نے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں کردار ادا کیا۔

قومیتیں اور مسالک اصلاح پسندوں سے مایوس ہوچکے ہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے گزشتہ عشروں میں ایرانی قوم کے اصلاح پسندوں کی جانب جھکاؤ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: اصلاح پسند جماعتوں کے نعروں کی وجہ سے ایرانی عوام کی اکثریت نے ان کی جانب رخ کیا۔ ان کا نعرہ تھا ’ایران سب ایرانیوں کے لیے‘۔ روحانی کی حکومت بھی ’تدبیر و امید‘ کے نعرے کے ساتھ بر سرِ کار آئی۔ کچھ اصلاح پسندوں نے ’امید لسٹ‘ تشکیل دی اور قوم کو پرامید بنانے کی کوشش ہوئی۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: ایرانی عوام کی ایک بڑی تعداد جو امتیازی پالیسیوں، عدم مساوات اور مختلف قسم کے مسائل سے دوچار تھی، اصلاح پسندوں کی طرف گئی، لیکن افسوس کی بات ہے کہ اصلاح پسندوں کی کارکردگی اچھی نہیں رہی؛ وہ اپنے نعروں کو جامہ عمل نہ پہناسکے۔ ان کا رویہ مایوس کن تھا اور وہ قوم کے ساتھ نہ رہ سکے۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: اصلاح پسند نہ صرف مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوئے، بلکہ انہوں نے عوام کو یہ بھی نہ بتاسکے کہ عوام کے مسائل کی جڑیں کہاں پیوست ہیں اور انہیں اپنے مسائل کے لیے کہاں جانا چاہیے؛ اصلاح پسندوں نے نہیں کہا کہ لوگوں کے مسائل کا حل قم میں ہے یا تہران یا کسی اور جگہ۔

اصلاح پسندوں نے اہل سنت کے مسائل کے لیے زحمت نہیں اٹھائی
صدر دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ آج کل ملک میں عمومی فضا مایوسی کی ہے اور اہل سنت بھی اس مایوسی کو احساس کررہے ہیں؛ وجہ یہ ہے کہ مسلسل کوششوں کے باوجود ان کے مطالبات پر توجہ نہیں دی گئی اور وزارتخانوں میں ان کے قابل افراد کی بھرتی نہیں ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا: بندہ نے کئی خطوط صدر مملکت اور ان کے نائب اول سمیت دیگر ارکانِ حکومت کے نام لکھ کر بھیجا اور انہیں اعداد و شمار سے دکھایا کہ سنی اکثریت صوبوں میں اہل سنت سرکاری محکموں میں بہت کم ہیں، جو پہلے سے ہیں وہ ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔ یہ حالت سیستان کے خطے میں جہاں سنی بڑی تعداد میں ہیں، بحرانی ہے اور ضلعی گورنر ہاؤسز سمیت دیگر محکموں میں اہل سنت ناپید ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اپنے بھیجے گئے خطوط میں بندہ نے یہ مطالبہ پیش کیا ہے کہ سرکاری محکموں میں اہل سنت کے افراد کو جگہ دینی چاہیے تاکہ ایک قسم کا تعادل حاصل ہوجائے اور شیعہ و سنی اکٹھے ہونے سے عدل قائم ہوجائے۔ چونکہ یہ ملک شیعہ و سنی دونوں کے لیے ہے اور نفاذِ عدل اسلامی انقلاب کے اہم اہداف میں شامل رہاہے۔ بانی انقلاب نے بھی کہا ہے کہ شیعہ و سنی بھائی بھائی ہیں اور حقوق میں برابر ہیں۔ انہوں نے اکٹھے محنت کرکے انقلاب لایاہے اور اس ملک کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ جب ملک میں کوئی آفت پڑتی ہے، تو سب اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہم صرف اہل سنت کے حقوق کے لیے جدوجہد نہیں کررہے ہیں، ہم چاہتے ہیں سب اپنے جائز حقوق حاصل کریں۔ اسی لیے ہم نے بعض سیستانی اور بیرجندی عزیزوں کے نام اور دیگر سنی اکثریت صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کی فہرست بھیجی تاکہ ان سے وزارتخانوں میں کام لیاجائے۔بعض ارکان پارلیمنٹ نے ان مسائل کے حل کے لیے محنت کی ہے اور بندہ بھی بحیث ایک خیرخواہ شہری کے، اپنی ذمہ داری سمجھ کر ان مسائل کو پیش کیا ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ایران میں اہل سنت سخت امتیازی رویوں اور پالیسیوں سے دوچار ہے اور یہ سلوک ملک اور نظام کے مفاد میں نہیں ہے۔ جن شہروں میں اکثریت اہل سنت کی ہے، وہاں بھی انہیں محکموں سے دور رکھاجاتاہے۔ بہت سارے شہروں میں ان کی کوئی مسجد نہیں، بعض بڑے شہروں میں جہاں شیعہ و سنی کی آبادی برابر ہے، وہاں اہل سنت کی مساجد کی تعداد ان کی آبادی سے مناسبت نہیں رکھتی ہے۔ بعض شہروں میں اہل سنت کو نمازخانوں میں نماز قائم کرنے میں مسائل سے دوچار ہونا پڑتاہے؛ جمعہ اور عیدین کو انہیں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: قومیتوں اور مسالک کے مسائل کے حوالے سے بندہ نے بارہا کوشش کی وزیرِ داخلہ سے رابطہ اور ملاقات کرے، لیکن انہیں پتہ تھا کہ انتخابات سے پہلے وہ ہم سے کیا وعدہ کرچکے تھے اور ہم کیا مطالبہ ان کے سامنے پیش کریں گے، اسی لیے ملاقات کی درخواستوں کو ٹال دیتے اور چار سال حکومت کے دوران ہمیں ایک بار بھی وزیرِ داخلہ سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔دیگر حکام کے علم میں یہ مسائل لائے گئے، لیکن مشکل اپنی جگہ پر قائم ہے۔
صدر شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان نے کہا: اہل سنت نے اصلاح پسندوں کے لیے انتخابات کے تنور کو خوب گرم رکھا، لیکن اصلاح پسندوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ اہل سنت کے لیے کچھ نہیں کرسکے۔ وہ اہل سنت کے لیے کوئی زحمت اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھے۔
انہوں نے کہا: الحمدللہ اہل سنت ایران ایک سمجھدار برادری ہے۔انہوں نے انتہاپسندی کے مقابلے میں مزاحمت کرکے ان کوششوں کو ناکام بنادیا جو بدامنی پھیلانے کی سازشیں تھیں اور اپنی حد تک اتحاد کی حفاظت اور ملک میں قیامِ امن کے لیے کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔
خطیب اہل سنت نے مزید کہا: 43 سالوں سے اہل سنت اس امید پر صبر کرتے چلے آرہے ہیں کہ ان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ اعلیٰ حکام سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اہل سنت کو نظرانداز نہ کریں، ان کے مطالبات پر توجہ دیں۔اہل سنت کو راضی رکھنا اور ان کے حقوق پر توجہ دینا اس نظام، اس کے ذمہ داران اور شیعہ علما کے مفاد میں ہے اور اس سے ایران کی سربلندی ممکن ہے۔

ایرانی قوم آزادی اور احترام چاہتی ہے
نماز جمعہ سے پہلے خطاب کے ایک حصے میں مولانا عبدالحمید نے ایرانی قوم کی پریشانیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایرانی قوم کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران، غربت اور بے روزگاری ہے، حالانکہ قوم کی سب بڑی مشکل ’روٹی‘ اور ’معیشت‘ نہیں ہے، بلکہ معاشی مسائل اخیر سالوں میں پیدا ہوئے ہیں؛ قوم کا اصل مسئلہ اس کی عزت و احترام اور اظہارِ رائے کی آزادی کا فقدان ہے۔
انہوں نے مزید کہا: لوگوں کی عزت و احترام کا خیال رکھنا چاہیے۔ لوگ آزادی چاہتے ہیں، انہیں قانونی آزادی فراہم ہونی چاہیے۔ ملک کی فضا پولیس گردی اور سکیورٹی کا ماحول قائم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ قلم اور اظہارِ رائے کی آزادی فراہم ہونی چاہیے تاکہ وہ سکون سے حکام اور علما پر تنقید کرسکیں؛ یہ آزادی اسلامی شریعت اور آئین کے مطابق قانونی ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ہم فرقہ واریت، تشدد اور لڑائی کے مخالف ہیں، لیکن آزادی سب کو حاصل ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی بات کہہ سکیں۔

عوام آنے والے انتخابات میں اس وقت شرکت کریں گے جب ان میں امید دوبارہ زندہ ہوجائے
مولانا عبدالحمید نے اپنے اہم خطاب کے ایک حصے میں آنے والے انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ ایرانی قوم بشمول اہل سنت نے امید کے ساتھ الیکشنز میں حصہ لیا، لیکن ان کی امیدوں پر پانی پھیردیا گیا۔ آج حکام کو خوب پتہ ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں اور ان کے مسائل کیا ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: لوگ اس وقت نئے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے کہ حکام نئے سازوکار اور سٹریکچر سے عوام میں امید کو دوبارہ زندہ کریں گے اور قوم اپنے مسائل کے حل کے لیے پرامید ہوجائے گی۔یہ سب باتیں کسی ذاتی غرض کے بغیر، جذبہ خیرخواہی کے تحت بتائی جارہی ہیں۔ اس سے پہلے بندہ بھی اپنی تجاویز پیش کرچکاہے، لیکن افسوس ہے کہ ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
اہل سنت کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے کہا: ملک میں یہ بہت بڑی کمزوری ہے کہ دوسروں کی آرا معلوم کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی جاتی ہے۔ بہت کم دیکھنے میں آیاہے کہ تہران یا دیگر شہروں سے کوئی ذمہ دار یہاں آئے اور ہمارے حالات کی رپورٹ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ، ہماری رائے معلوم کرے۔
انہوں نے کہا: میں کوئی مخالف نہیں ہوں، لیکن میرا خیال ہے مخالفین بلکہ دشمنوں سے بھی گفتگو کرنی چاہیے اور ان کی باتیں سننی چاہیے۔ اس سے دشمنوں کی دشمنی میں کمی آسکتی ہے اور مخالف ’موافق‘ میں تبدیل ہوسکتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے بڑے پیمانے پر صدارتی انتخابات کے لیے نام لکھوانے والے امیدواروں کو نااہل قرار دینے پر تنقید کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا: میں یہ نہیں کہتا کہ اگر مزید امیدواروں کی اہلیت منظور ہوجاتی ہے، کیا ہوتا، لیکن اہلیت کی منظوری میں ہاتھ اوپر رکھنا، دوراندیشی کی نشانی ہے۔

جیلوں میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی، عدلیہ تحقیقات کرے
صدر دارالعلوم زاہدان نے اپنے خطبہ جمعہ کے آخری حصہ میں خواتین کے ساتھ بعض جیلوں میں بدسلوکی کی رپورٹس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: خواتین قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کی رپورٹس سے مجھے سخت صدمہ ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: یہ خبریں کس حد تک درست ہیں، مجھے معلوم نہیں، لیکن عدلیہ سے درخواست ہے کہ تحقیقات کرے، اگر ایسا ہوا ہے تو ذمہ داران کو سخت سزا دی جائے۔ اگر میں عدلیہ میں ہوتا، سخت ترین سزا اسلامی شریعت کی رو سے ان افراد کے لیے مقرر کرتا جو خواتین قیدیوں کو تنگ کرتے ہیں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: کوئی خاتون جو قیدی اور اسیر بھی ہو، اگر سیاسی مخالف بھی ہو، تب بھی اسلامی شریعت نے اس کے لیے کچھ حق رکھاہے۔ مرد مفتش کسی خاتون قیدی کی تفتیش نہیں کرسکتے ہیں؛ یہ کام خاتون اہلکار کا ہے یا دیگر افرا دکی موجودی میں تفتیش و تحقیق کرنی چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں