جو بائیڈن: مسلمان ممالک پر سفری پابندیاں ختم کرنے سمیت 15 صدارتی حکم ناموں پر دستخط

جو بائیڈن: مسلمان ممالک پر سفری پابندیاں ختم کرنے سمیت 15 صدارتی حکم ناموں پر دستخط

امریکہ کے 46 ویں صدر جو بائیڈن کے دورِ صدارت کا آغاز صدارتی حکم ناموں سے ہوا ہے اور انھوں نے پہلے ہی دن 15 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں۔
ان صدارتی حکم ناموں میں متنازع سفری پابندیوں کا خاتمہ، پیرس ماحولیاتی معاہدے کی بحالی اور تمام وفاقی املاک میں لازمی ماسک پہننے کے بل پر دستخط کیے گئے ہیں۔
جو بائیڈن کے زیادہ تر حکم نامے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں کو ختم کرنے سے متعلق ہیں۔
جو بائیڈن حلف اٹھانے کے بعد اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں پہنچنے کے لیے انھوں نے سیاست کے میدان میں 50 برس کا وقت گزارا لیکن شاید انھوں نے کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ صدارت کے پہلے ہی دن انھیں متعدد بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نو منتخب صدر کی انتظامیہ جو کہ ایوانِ صدر ’وائٹ ہاؤس‘ کا حصہ کہلاتی ہے، کے چیف آف سٹاف رونلڈ کلائین نے کچھ روز پہلے ہی بائیڈن کے پہلے چند دنوں کے اقدامات کے بارے میں ایک یادداشت جاری کی تھی۔
اس یادداشت میں کہا گیا تھا کہ جو بائیڈن صدر بنتے ہی چند اہم معاملات میں رخصت ہونے والے صدر ٹرمپ کے کئی اقدامات کو کالعدم قرار دینے کے حکم نامے جاری کریں گے اور امریکی قوم کو درپیش بڑے بڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے اقدامات کا اعلان کریں گے۔
اُن کے مطابق صدر بننے کے پہلے دس دن میں جو بائیڈن کانگریس کی منظوری سے پہلے ہی صدارتی حکم نامے جاری کریں گے تاکہ وہ اپنے ملک کو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کے ’تباہ کن اقدامات‘ سے محفوظ کر سکیں۔
واضح رہے کہ ہر آنے والا امریکی صدر اسی طرح شروع کے دنوں میں بہت سارے حکم نامے جاری کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایسا ہی کیا تھا تاہم ان کے کئی حکم ناموں کو بعد میں عدالت میں چیلنج کر دیا گیا تھا تاہم رون کلائین کا خیال ہے کہ جو بائیڈن کے جاری کردہ حکم ناموں کا وہ انجام نہیں ہو گا جو ٹرمپ کے حکم ناموں کا ہوا تھا کیونکہ نئے صدر قانون کی روح کو سمجھتے ہیں۔

بائیڈن کی میانہ روی
نو منتخب صدر کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ مفاہمت پسند سیاست دان ہیں۔ وہ سینیٹ کے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے 35 برس تک رکن رہے اور عموماً سب کو ملا جلا کر ساتھ لیے چلتے رہے۔ انھوں نے عراق جنگ میں صدر بش کی حکومت کا ساتھ دیا تھا اس لیے بعض مبصرین کی نظر میں وہ آئندہ اپنی حکومت میں بھی میانہ روی اختیار کریں گے۔
تاہم ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما اور امریکہ کے سابق لیبر سیکرٹری رابرٹ ریخ کہتے ہیں کہ جس ریپبلکن پارٹی کے ساتھ مل جل کر جو بائیڈن ماضی میں کام کرتے رہے ہیں وہ اب بالکل ہی بدل چکی ہے۔ ’اب وہاں میانہ روی والا کوئی ماحول نہیں ہے۔‘
رابرٹ ریخ کہتے ہیں کہ اب نئے صدر جو بائیڈن کو دلیرانہ اقدامات لینا ہوں گے کیونکہ اب دوسری جانب مصالحت کار موجود ہی نہیں۔ ان کے بقول اب بائیڈن کو ابراہم لنکن کی طرح تیزی سے جرات مندانہ فیصلے کرنا پڑیں گے جس طرح کہ غلامی کے خاتمے کا فیصلہ تھا۔

کورونا کے خلاف جنگ
بائیڈن ایک ایسے دور میں امریکہ کے صدر بنے ہیں جب کووڈ کی عالمی وبا زوروں پر ہے اور امریکہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے جہاں اب تک اس سے چار لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے خلاف بائیڈن کی انتخابی مہم کے دوران سب سے بڑا مسئلہ وبا سے نمٹنے کا انداز تھا جس پر سابق صدر ٹرمپ کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب نئی انتظامیہ کی ترجیحات میں سب سے اوپر یہی معاملہ ہے۔
جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ ان کی انتظامیہ کو جن اہم ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا ان میں کورونا کے خلاف جنگ بھی شامل ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ کورونا کے خاتمے کے لیے اپنی حکمتِ عملی فوری طور پر نافذ کر دیں گے۔
اس سلسلے کے ابتدائی اقدامات میں جو بائیڈن کی جانب سے جاری صدارتی حکم نامے کے مطابق ملک بھر میں وفاقی مقامات اور بین الریاستی سفر کے دوران ہر فرد کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دیے دیا گیا ہے۔
تاہم اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ مختلف ریاستوں کے وہ گورنر جو ماسک لازمی بنانے کے مخالف تھے، اپنا فیصلہ بدلنے پر تیار ہوں گے کیونکہ صدر کو ایسا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں کہ وہ ملک بھر میں عوام کو ماسک پہننے کا پابند کر سکیں۔
جو بائیڈن کو اس صورتحال کا ادراک ہے اور ان کے مطابق وہ اس سلسلے میں گورنروں سے ذاتی طور پر بات کریں گے اور اگر وہ نہ مانے تو مقامی انتظامیہ سے بھی رابطے کیے جا سکتے ہیں۔

100 دن میں 100 ملین افراد کو ویکسین کی فراہمی
جو بائیڈن عوام کو ویکسین کی فراہمی کا عمل بھی تیز کرنا چاہتے ہیں اور اپنی صدارت کے ابتدائی 100 دن کے دوران ویکسین لگوانے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ تک دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک تجویز تمام دستیاب ویکسین کی فراہمی ہے نہ کہ کچھ ویکسین کو دوسری خوراک کے لیے روک لیا جائے۔

عالمی ادارہ صحت میں واپسی
جو بائیڈن نے اپنے ابتدائی حکم نامے میں عالمی ادارہ صحت میں واپس جانے کا اعلان بھی کیا ہے۔
واضح رہے کہ رخصت ہونے والے صدر ٹرمپ نے اس ادارے پر کورونا وائرس کے دوران چین کی سخت بازپرس نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

اقتصادی اقدامات
گذشتہ ہفتے جو بائیڈن نے امریکہ کی کورونا سے متاثرہ معیشت کی بحالی کے لیے 19 کھرب ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا۔
اس بارے میں وائٹ ہاؤس کے سٹاف کے سینیئر ارکان کو جاری کی گئی اس یادداشت میں چیف آف سٹاف رون کلائین نے کہا کہ ’نئے صدر کے حکم نامے ایسے لاکھوں امریکیوں کو اقتصادی تکلیفوں سے نجات دلائیں گے جو اس وبا کے دوران دشواریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ نو منتخب صدر بائیڈن صرف ٹرمپ حکومت کے سنگین نقصانات کو پلٹنے کی کوشش ہی نہیں کریں گے بلکہ ملک کو آگے بڑھانے کے اقدامات بھی لیں گے۔‘
انھوں نے کہا تھا کہ صدر بائیڈن کے ویژن پر مکمل طور پر عملدرآمد کے لیے کانگریس کو کئی قوانین کی منظوری دینا ہو گی جن میں ایک اعشاریہ نو ٹریلین ڈالر کے اخراجات کے قانون کی منظوری بھی شامل ہے۔
اگر کانگریس اس کی منظوری دے دیتی ہے تو اس میں امریکہ کے تمام شہریوں کو 1400 ڈالر کی رقم کی ادائیگی بھی شامل ہے۔
صدر بائیڈن کا یہ پیکیج 900 ارب ڈالر کے اس امدادی پیکیج کے علاوہ ہے جس کی منظوری کانگریس دسمبر 2020 میں دے چکی ہے اور اسے جو بائیڈن نے ایک بڑے منصوبے کی ابتدائی قسط قرار دیا تھا۔

ماحولیات کا مسئلہ
امریکہ کی موجودہ اقتصادی مشکلات کورونا کی وبا سے جڑی ہیں لیکن ماحولیات کا معاملہ امریکہ میں سیاسی تقسیم کی ایک بڑی وجہ ہے۔
جو بائیڈن اقتدار میں آنے سے پہلے یہ کہہ چکے تھے کہ وہ اپنے دورِ صدارت کے پہلے دن پیرس ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کریں گے اور انھوں نے اپنے ابتدائی حکم نامے میں اس معاہدے میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ اس عالمی معاہدے کا ایک بڑا مقصد دنیا کے درجۂ حرارت کو قبل از صنعتی زمانے کے درجۂ حرارت سے دو ڈگری سے زیادہ بڑھنے سے روکنا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 میں طے پانے والے اس معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا اور امریکہ ایسا فیصلہ کرنے والا پہلا ملک تھا۔
جو بائیڈن نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے 100 دن کے اندر ماحولیات کے موضوع پر ایک عالمی سربراہی کانفرنس بھی منعقد کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہ کہ وہ رواں برس کے دوران ہی ایسی قانون سازی بھی کروانا چاہتے ہیں جس کے تحت سنہ 2050 تک امریکہ میں ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کو مجموعی طور پر صفر پر لایا جا سکے۔

کی سٹون ایکس ایل پائپ لائن منصوبے کی منسوخی
اپنے صدارتی دور کے آخری دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کے صوبہ البرٹا سے امریکی ریاست نبراسکا تک تیل کی ترسیل کی 12 ہزار میل لمبی کی سٹون ایکس ایل پائپ لائن کی تعمیر کی منظوری دی تھی لیکن جو بائیڈن نے سابق صدر کے اس فیصلے کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔

سفری پابندیوں کا خاتمہ
سابق صدر ٹرمپ نے جنوری 2017 میں امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے سات دن بعد جن سفری پابندیوں کا اعلان کیا تھا، نئے صدر جو بائیڈن نے ان کا خاتمہ کر دیا ہے۔
ابتدائی طور پر ان پابندیوں کا نشانہ سات مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک بنے تھے تاہم بعد میں عدالتی احکامات کے بعد ان پابندیوں میں کچھ تبدیلیاں بھی لائی گئی تھیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران، لیبیا، صومالیہ، شام، یمن، وینزویلا اور شمالی کوریا کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کی تھیں۔

امریکی شہریت کا راستہ
جو بائیڈن نے امیگریشن کے حوالے سے جو ایک اور اہم وعدہ کیا تھا وہ ملک میں موجود ایک کروڑ دس لاکھ غیرقانونی تارکینِ وطن کے لیے امریکی شہریت کی راہ ہموار کرنے کے اقدامات تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں جلد ہی کانگریس میں ایک مسودۂ قانون بھیجیں گے۔
اس قانون کے مسودے کے بارے میں تارکینِ وطن کی تنظیم نیشنل امیگریشن فورم کے سربراہ پاکستانی نژاد علی نورانی کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر امریکہ میں موجود غیر قانونی تارکینِ وطن کے لیے ایک آٹھ برس کا ایک قانونی راستہ مہیا کیا جائے گا تاکہ وہ امریکی شہری بن سکیں جبکہ بچپن سے آئے تارکینِ وطن کے لیے اس سے بھی مختصر عرصہ ہو گا۔
اور پھر اگلے دس دن تک امریکی صدر بائیڈن کریمینل جسٹس سسٹم، امیگریشن، بچھڑے ہوئے رشتہ داروں کو دوبارہ سے اپنے خاندان سے ملانے کے اقدامات کا اعلان کریں گے۔

سرحدی دیوار کی تعمیر کا خاتمہ
جو بائیڈن نے سابق صدر ٹرمپ کے دورِ صدارت کی پہچان بننے والے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے منصوبے کو بھی روک دیا ہے۔
صدر بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران اس منصوبے کو رقم کا ضیاع قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کی وجہ سے اصل خطرات سے نمٹنے کے لیے درکار وسائل کا رخ موڑا گیا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے مطابق وہ دیوار کی تعمیر کی بجائے وفاقی رقوم کو سرحدی نگرانی کے نئے انتظامات پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

خارجہ پالیسی اور بائیڈن
چین
جو بائیڈن کے نامزد وزیر دفاع جنرل آسٹن نے حال ہی میں امریکی سینیٹ کی کمیٹی میں اپنی تقرری کی توثیق کے لیے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ چین کو اپنا اصل مدمقابل سمجھتا ہے۔ انھوں نے سینیٹرز کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکی چین کو اپنے لیے سب سے بڑا چیلنج سمجھتا ہے۔
تاہم امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ ہینری کیسنجر نے حال ہی میں لکھا ہے کہ امریکہ کے لیے یہ وقت موزوں نہیں کہ وہ چین کے انسانی حقوق کے بارے میں تنازع کھڑا کرے۔ ان کے مطابق اب وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ امریکہ چین سے اقتصادی اور تجارتی تعلقات بہتر کرے جو کہ پچھلی حکومت کے زمانے میں خراب ہو گئے تھے۔

ایران
جوہری معاملات پر ایران اور پانچ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے سے صدر ٹرمپ نے یکطرفہ علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا لیکن ابھی تک امریکہ کی نئی انتظامیہ اس معاہدے کے بارے میں خاموش ہے۔
جو بائیڈن نے ماضی میں اعلان کیا تھا کہ وہ چاہیں گے کہ امریکہ ایران کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائے لیکن ان کی اس تجویز کی سینیٹ نے مخِالفت کی تھی۔
ایران نے اُس معاہدے کی حد سے زیادہ مقدار میں یورینیم کی افزودگی شروع کردی ہے جس وجہ سے اب واپسی کا معاملہ پیچیدہ ہو گیا ہے اور کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔

یورپ
یورپ سے تعلقات میں پہلی مثبت تبدیلی تو صدر بائیڈن کے اہلکار رون کلائین کے اس اعلان سے نظر آتی ہے کہ امریکہ پیرس ماحولیاتی معاہدے میں واپس جا رہا ہے لیکن انھیں نیٹو کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر بھی نظرِ ثانی کرنا ہو گی۔
یورپی یونین اور اُس سے الگ ہونے والے ملک برطانیہ کے بارے میں نئی حکومت کی حکمت عملی پر بھی فی الحال خاموشی ہے۔ شمالی کوریا سے تعلقات کی بہتری اور وینیزویلا سے لڑائی جو انھیں ٹرمپ کی میراث کی صورت میں ملی ہے، اب دیکھتے ہیں کہ صدر بائیڈن اس پر کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

جنوبی ایشیا
امریکہ کی ماضی کی حکومتیں انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرتی آئی ہیں لیکن اس کے باوجود جو بائیڈن اور ان کی نائب صدر کملا ہیریس نے کشمیر میں انسانی حقوق پر مذمتی بیانات جاری کیے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اب اقتدار میں آنے کے بعد ان کے بیانات کس قسم کی عملی صورت اختیار کرتے ہیں۔
افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا ہوتا ہے یا وہ افغان طالبان سے مذاکرات کے انجام تک اس بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہیں، جس کے لیے انھیں پاکستان کی ضرورت ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ ان معاملات میں صدر ٹرمپ کے نقشہِ راہ پر چلیں گے یا اُن کا اپنا کوئی نیا وژن ان کی حکومت کی پالیسیوں کی رہنمائی کرے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں