مولانا عبدالحمید:

دشمن اسلامی عقائد مسخ کرنا چاہتاہے

دشمن اسلامی عقائد مسخ کرنا چاہتاہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے توکل اور توجہ الی اللہ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا دشمن کی کوشش ہے کہ جہاد، توحید اور توکل جیسے عقائد کو مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے سات اگست دوہزار بیس کے خطبہ جمعہ میں کہا: اللہ تعالی کے دشمنوں اور اس ذات پاک کے منکرین نے ہمیشہ کوشش کی ہے بہت ساری اسلامی تعلیمات اور ثقافتوں سے مقابلہ کرکے انہیں بدل ڈالے۔ ان تعلیمات میں جہاد بھی شامل ہے جس کو مٹانے یا مسخ کرنے کی پرزور کوششیں جاری ہیں۔
زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بہت سارے مسلمان بھی جہاد اور اس کی حکمت اور مقام کے بارے میں غلطی پر ہیں۔ چنانچہ چند آیات اور احادیث کے ظاہر کو دیکھ کر بلاتحقیق اور سیرت النبیﷺ سے موازنہ کے بغیر غلط نتائج نکالتے ہیں، لیکن دشمنانِ اسلام سوچ سمجھ کر میدان میں آئے ہیں اور چاہتے ہیں اس طرح کی تعلیمات کو مٹادیں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: ان تعلیمات میں توکل علی اللہ بھی شامل ہے جو دشمن کی تلاش ہے کہ اس کو مسلمانوں میں کمزور کرے اور انہیں یوں تلقین کرائے کہ سب کچھ ظاہری اسباب پر موقوف ہے؛ افسوس کی بات ہے کہ اس حوالے سے وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔ اصل شافی پر توجہ کم سے کمتر ہوتی چلی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا: ہر انسان کی فطرت میں توحید پائی جاتی ہے، یہاں تک کہ جب انسان بندگلی میں جاپہنچتاہے، نہ چاہتے ہوئے اللہ کی طرف متوجہ ہوتاہے۔ تمام آسمانی مذاہب اور خاص کر اسلام نے ہمیں یہ سکھایاہے کہ نگاہیں اللہ ہی پر ہوں، چونکہ سب کچھ اسی کے ہاتھ اور قبضہ قدرت میں ہے۔ جب بیماری آجاتی ہے، ڈاکٹر اور حکیم اسباب اور واسطے ہیں؛ توجہ رب الاسباب اور اللہ تعالی ہی کی ذات پر ہونی چاہیے۔ جیسا کہ ابراہیم ؑ نے فرمایا جب میں بیمار ہوتاہوں تو وہی مجھے شفا دیتاہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: جب تک اللہ کی مرضی و مشیت نہ ہو، اسباب کا کوئی فائدہ نہیں۔ صحابہ کرامؓ نے براہ راست اپنا دین اور عقیدہ وحی سے لیا اور انہیں توکل ہی نے وقت کے سپرپاورز کے مقابلے میں کامیاب کرایا۔
انہوں نے غزوہ ذات الرقاع میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: جب حملہ آور کافر نے اسلام لانے سے انکار کیا اور وعدہ کیا کہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے یا تعاون کرنے سے گریز کرے گا، آپ ﷺ نے انہیں چھوڑدیا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ جہاد مطلق نہیں ہے اور جب وہ مسلمانوں کے لیے کوئی خطرہ نہ ہوں اور پرامن زندگی گزاریں، ان سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ جہاد قابضوں، جابر اور ظالم سرکشوں کے خلاف ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: مدینہ منورہ میں عہد نبوی میں یہودی اور مشرکین مسلمانوں کے ساتھ رہتے تھے اور آپﷺ نے انہیں کچھ نہیں کہا؛ بلکہ ان میں معاہدہ تھا کہ ایک دوسرے کے دشمنوں کو مدد نہیں کریں گے۔ لہذا اسلام نے ہمیں پرامن زندگی گزارنے کی تعلیم دی ہے۔ ارشادِ الہی ہے: ”اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑتے اور نہ انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالاہے اس بات سے کہ تم ان سے بھلائی کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔“ممتحنہ: ۸
انہوں نے توکل کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا: یہ اسلامی تعلیمات کی اصلی اور بنیادی تعلیم ہے کہ ہر کام میں نگاہیں اللہ ہی پر ہوں اور اسی ذات سے متوسل ہوجائیں۔ جب بھی مشکلات پیش آتیں، آپﷺ نماز کی طرف توجہ کرکے اللہ تعالی سے رابطہ کرتے اور اسی ذات پاک سے مدد مانگتے تھے۔
حضرت شیخ الاسلام نے کہا: اگر اللہ تعالی نے ہمیں کوئی نعمت دی ہے، اسے اللہ کی جانب سمجھیں؛ اس کو اپنی چالاکی کا ثمرہ مت سمجھیں۔ کامیابی کے لیے محنت کے ساتھ ساتھ، ہر نتیجے کو اللہ ہی کی جانب سے سمجھیں۔ اگر کوئی مصیبت آپڑی، اس کو اپنے اعمال کا نتیجہ سمجھ کر نماز، دعا اور ذکراللہ میں مشغول ہوجائیں۔

حضرت عثمان ؓ نبی کریمﷺ کے اہل بیت اور اہم تاریخی شخصیت تھے
خطیب اہل سنت زاہدان نے یومِ شہادت حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: رسول اکرم ﷺ نے انتہائی عظیم شخصیات کو تربیت دی جن میں سیدنا عثمانؓ بھی شامل ہے۔ آپؓ کے نکاح میں نبی کریمﷺ کی دو بیٹیاں تھیں جو انتقال کرگئیں۔ جب دوسری صاحبزادی کا انتقال ہوا، آپﷺ نے فرمایا: اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی، میں ضرور اس کو عثمان کے نکاح میں لاتا۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جیش العسرہ کو مدد فراہم کی۔ یہ فوج رومیوں کے خلاف لڑنے کے لیے جارہی تھی اور حضرت عثمانؓ نے تیس سواونٹ مسلم لشکر کو دیا۔ جب مسلمانوں کو پانی کی ضرورت پڑی، حضرت عثمانؓ ہی نے کنواں کھودا۔ صلح حدیبیہ میں حضرت عثمانؓ کو سفیر بناکر مکہ بھیجاگیا جس سے معلوم ہوتاہے آپؓ ایک طاقتور سفارتکار تھے۔ جب ان کی شہادت کی افواہ پھیلائی گئی، آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کے انتقام کے لیے جہاد کا عزم کیا اور ان کی جگہ اپنے ہی ہاتھوں پر بیعت کیا۔
انہوں نے کہا: حضرات خلفائے راشدین سب نبی کریم ﷺ کے اہل بیت میں شمار ہوتے ہیں۔ حدیث کے مطابق ہر پرہیزگار شخص میرے اہل و آل ہیں۔ اگر کوئی خاندانی طورپر آپﷺ کی اولاد میں شامل ہو، لیکن اس کے اعمال برے ہوں، وہ آپﷺ کے آل میں شامل نہیں ہوں گے۔

لبنانی عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب کے آخر میں بیروت دھماکوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: بیروت میں متعدد دھماکے ہوئے ہیں جن میں درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں۔ ہم لبنانی عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ مظلوم چاہے مسلم ہو یا غیرمسلم، اس سے ہمدردی کا اظہار کرنا چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں