دہلی میں مذہبی فسادات: ہلاکتوں کی تعداد 23، فوج بلانے کا مطالبہ

دہلی میں مذہبی فسادات: ہلاکتوں کی تعداد 23، فوج بلانے کا مطالبہ

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں متنازع شہریت قانون پر احتجاج کے دوران ہونے والے مذہبی فسادات کے نتیجے میں ہلاک افراد کی تعداد 23 ہوگئی جبکہ 200 سے زائد لوگ زخمی ہیں۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ کیا کہ فسادات کے نتیجے میں 23 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ادھر بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق دہلی کے شمال مشرقی علاقوں، موجپور، جعفرآباد، چاند باغ اور کراول نگر میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ حکام نے فسادات سے متاثرہ تمام علاقوں میں شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات بھی دے دیے ہیں۔
تاہم پولیس کا دعویٰ ہے کہ صورتحال قابو میں ہے لیکن تناؤ کی فضا بدستور برقرار ہے، اسکول بند ہیں جبکہ اسمبلی پر پابندی جاری ہے۔
اس ضمن میں دہلی پولیس کمشنر نے صحافیوں کو بتایا کہ اہلکاروں نے متاثرہ علاقوں میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں جبکہ 2 شمال مشرقی علاقوں کو مظاہرین سے خالی کروالیا گیا۔
خیال رہے کہ بھارت کے متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والا احتجاج پیر اور منگل کو مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان جھڑپ کی صورت اختیار کرگیا تھا جس میں پتھروں، تلواروں حتیٰ کہ بندوقوں کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔
فسادات کے دوران مشتعل ہجوم نے متعدد گاڑیوں، عمارتوں اور ایک ٹائر مارکیٹ کو نذر آتش کردیا جس کے باعث متاثرہ علاقوں میں ہر طرف تباہی کے آثار موجود جبکہ معمولات زندگی معطل ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت قانون پر احتجاج کافی وقت سے جاری ہے تاہم بھارتی دارالحکومت میں یہ فسادات ایسے وقت میں سامنے آئے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔
دورے کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے پرتشدد کارروائیوں کے بارے میں سنا ہے لیکن اس سلسلے میں بھارتی وزیراعظم نے بات نہیں کی۔
تمام صورتحال پر برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کے رپورٹرز نے ہجوم کو پتھر، پائپس، لاٹھیاں برساتے دیکھا جبکہ اس دوران آگ لگانے اور لوٹ مار کے بھی واقعات رونما ہوئے۔

فوج بلانے کا مطالبہ
اس ضمن میں دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجروال نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں فوج تعینات اور کرفیو نافذ کیا جانا چاہیئے۔
ہندوستان ٹائم کی رپورٹ کے مطابق کہ دہلی کے وفاقی اکائی ہونے کی وجہ سے اروند کیجروال کے پاس یہاں کا اختیار نہیں اور پولیس اور پبلک آرڈر براہ راست مرکزی حکومت کی وزارت داخلہ تابع ہیں۔
اس سلسلے میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے ہسپتال انتظامیہ کے حوالے سے بتایا کہ زخمیوں کی تعداد 200 سے زائد ہے جس میں ایک چوتھائی پولیس اہلکار ہیں۔
اس ضمن میں ایک پولیس اہلکار نے فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں ’جہاں پولیس موجود ہیں وہاں مظاہرین ان پر حملے کررہے ہیں اور جہاں موجود نہیں وہاں وہ آپس میں لڑ رہے ہیں‘۔

دہلی کے متاثرہ علاقوں میں صورتحال کیا ہے؟
بھارتی نشریاتی ادارے دی پرنٹ کی ویڈیو میں عینی شاہدین نے الزام عائد کیا کہ فسادات کرنے والوں کو پولیس کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔
علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ مشتعل افراد نے انہیں دھمکیاں دیں کہ ’اگر وندے ماترم کہو گے تو ہی یہاں رہ سکتے ہو ورنہ سارے جلادیے جاؤ گے‘۔
ویڈیو میں دی پرنٹ کی نامہ نگار سونیا اگروال نے بھی بتایا کہ جب وہ رپورٹنگ کے لیے علاقے میں آنے لگیں تو مشتعل افراد نے آنے سے روکا جو کسی کو بھی ریکارڈنگ کرنے نہیں دے رہے تھے۔
رپورٹر نے بتایا کہ ان سے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیا وہ ہندو ہیں یا مسلمان ان کا نام پوچھا گیا، جبکہ موقع پر موجود ’جے شری رام‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔
اس سلسلے میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو ایک رہائشی نے بتایا کہ ’علاقے میں شاید ہی کوئی پولیس والا موجود ہو، شرپسند علاقے میں گھومتے ہوئے لوگوں کو دھمکی دے رہے ہیں اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کررہے ہیں۔
جعفرآباد میں ایک ٹیلر نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگ ایک دوسرے کو مارر ہے ہیں، گولیاں چل رہی ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ واپس اپنے گاؤں جارہے ہیں ’کیوں کہ یہاں کوئی کام نہیں تو ہم یہاں کیوں مرنا چاہیں گے، یہاں رہنے سے بہتر ہے کہ چلے جائیں‘۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو نے اپنی رپورٹ میں نامہ نگاروں کے حوالے سے دہلی فسادات کی منظر کشی کی ہے جس کے مطابق نامہ نگار جب تشدد سے متاثرہ علاقے میں کوریج کے لیے پہنچے تو وہاں ہجوم نے ان سے وہ موبائل فون چھیننے کی کوشش کی جس میں پُرتشدد واقعات کی ریکارڈنگ موجود تھی۔
نامہ نگار کا کہنا تھا کہ اس وقت شمال مشرقی دہلی کو دیکھیں تو جیسے ’شہر بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق بی بی سی کی ٹیم نے جعفر آباد کے متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی کیا تھا جہاں لوگوں نے ایک پوری مارکیٹ کو آگ لگا دی تھی ایک مقامی شخص نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان دکانوں میں زیادہ تر دکانیں مسلمانوں کی تھیں۔
نامہ نگار کے مطابق جلتے ہوئے بازار سے اٹھتی ٹائروں کی بو اور دھوئیں کو دور سے دیکھا جاسکتا تھا لیکن انہیں اس پورے واقعے کو کیمرے پر ریکارڈ کرنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقے سے لگ بھگ 500 میٹر دور کچھ نوجوان دکانوں پر پتھر پھینک رہے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی حرکات کیمرے پر ریکارڈ ہو رہی ہیں تو پتھراؤ کا رخ صحافیوں کی طرف کردیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بی بی سی کی ٹیم نے جے شری رام کے نعرے بھی سنے، نامہ نگار کے مطابق ’بہت ساری جگہوں پر ہم نے 100 سے 200 افراد کا ہجوم دیکھا جن میں سے کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ترنگا(بھارتی جھنڈا) تھا، لوگ جے شری رام ، بھارت ماتا کی جے ، وندے ماترم جیسے نعرے بلند کررہے تھے جبکہ ہجوم میں شامل کچھ افراد ‘ملک کے غداروں کو گولی مارو’ جیسے نعرے بھی لگا رہے تھے۔‘
بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا تھا کہ ’اس دوران بعض مسلمان لڑکے بھی محلوں کی گلیوں میں کھڑے تھے جن کے ہاتھوں میں لوہے کی سلاخیں اور ایسی دوسری چیزیں تھیں۔‘

اگر پولیس کارروائی کرتی تو صورتحال مختلف ہوتی، بھارتی سپریم کورٹ
بھارتی اخبار دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق دہلی میں فسادات کے حوالے سے بھارت کی سپریم کورٹ نے پولیس کو کہا کہ اگر آپ کارروائی کرتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔
عدالت عظمیٰ کے جج نے یہ ریمارکس ایڈووکیٹ امیت شاہ کی جانب متنازع شہریت قانون کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں مظاہرہ کرنے والوں کو دوسرے مقام پر منتقل کرنے کے لیے دائر درخواست کی سماعت میں دیے۔
جسٹس جوزف نے کہا کہ پولیس میں پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان سب سے بڑی وجہ ہے، اگر آپ اشتعال انگیز بیانات دینے کے بعد لوگوں کو بھاگنے نہ دیتے تو یہ سب نہ ہوتا، اگر آپ قانون کے تقاضے کے مطابق کارروائی کرتے تو صورتحال مختلف ہوتی‘۔
دوسری جانب دہلی کی ہائی کورٹ نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ ’ایک چھوٹے ہسپتال‘ میں پھنسے ہوئے فسادات کے 22 متاثرین کو محفوظ راستہ فراہم کر کے بہتر سہولیات والے سرکاری ہسپتال میں منتقل کیا جائے۔

سونیا گاندھی کا وزیر داخلہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
نئی دہلی کی صورتحال پر بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے وزیر داخلہ امیت شاہد کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ امیت شاہ اور وزیراعلیٰ دہلی اروند کیجروال اتوار کے روز سے کہاں ہیں؟، وزیراعلیٰ کو متاثرہ علاقوں میں ہونا چاہیے۔
سونیا گاندھی کا مزید کہنا تھا کہ ’کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کو یقین ہے کہ صورتحال سنگین ہے اور مناسب سیکیورٹی فورس کو تعینات کیا جانا چاہیئے۔
انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ کس طرح سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اس قسم کے بحران کی صورت میں آل پارٹی اجلاس منعقد کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے جب سے مودی حکومت آئی ہے جہاں تک مجھے یاد پے ایسا کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا جو افسوس کی بات ہے لیکن حقیقت ہے۔

شہریت قانون اور اس کے خلاف احتجاج
واضح رہے کہ گزشتہ برس 11 دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی جبکہ اس فہرست میں مسلمان شامل نہیں۔
اس قانون کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا تھا کہ مرکز اس کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے نافذ کیے گئے متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج تقریباً 2 ماہ سے جاری ہے، تاہم اس میں شدت گزشتہ دنوں اس وقت سامنے آئی جب امریکی صدر بھارت کے دورے پر پہنچے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں