شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

انسان کی تخلیق کا فلسفہ اصلاح معاشرہ ہے

انسان کی تخلیق کا فلسفہ اصلاح معاشرہ ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے دوہزار انیس کے آخری جمعہ میں اپنے خطاب میں انسان کی تخلیق کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے اصلاح معاشرہ اور اپنی حد تک فساد سے مقابلہ کو تمام انسانوں خاص کر مسلمانوں کی ذمہ داری یاد کی۔

مولانا عبدالحمید نے سورت العنکبوت کی آیت انتیس سے بیان کا آغاز کرتے ہوئے کہا: حق و باطل کی شناخت بہت اہم ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا و آخرت کی حقیقت کیا ہے؟ دنیا میں ہماری کیا کیا ذمہ داریاں ہیں؟ ہماری تخلیق کا فلسفہ کیا ہے؟ اگر انسان اپنی ذمہ داریوں سے واقف نہ ہو، یہ بہت سنگین غلطی ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا: بہت سارے لوگ اپنی ذمہ داریوں سے بے خبر ہیں؛ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن پاک نے ہمیں غور و فکر اور تدبر کا مشورہ دیا ہے۔ قرآن ہی کی تعلیمات کی رو سے پتہ چلتاہے انسان کی کچھ ذمہ داریاں ہیں؛ حکم آیا ہے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی نجات کے لیے محنت کریں۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: آپ ﷺ رحمت للعالمین تھے اور پوری انسانیت کی ہدایت و نجات کے لیے حریص تھے۔ ہمیں بھی لوگوں کے لیے خیرخواہی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اپنی حد تک ہمیں لوگوں کی اصلاح و کامیابی کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ بے حسی کا مظاہرہ کرنا ہماری دینی و انسانی ذمہ داری کے خلاف ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ہم ایک ایسے دور سے گزررہے ہیں کہ حالات ایسے پیدا ہوئے ہیں کہ لوگوں کو جہنم کی طرف دکھیل رہے ہیں۔ ظلم وستم، شراب نوشی و جادو، لڑائی جھگڑے اور ہر قسم کے گناہ سماج میں پھیل چکے ہیں۔ ایسے میں آرام سے بیٹھنا اور بے حسی دکھانا دانشمندی کے خلاف ہے۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: دشمن کے ثقافتی حملوں کے سامنے بے بس نہیں ہوں، اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ اغیار کی ثقافت و اطوار اپنانے کے بجائے ہم اپنی اسلامی ثقافت ہم دوسروں تک پہنچائیں اور اس کی اشاعت کے لیے محنت کریں۔

انہوں نے ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے کہا: عیسائیوں کے پاپ نے حال ہی میں کہا ہے سب لوگ اللہ کو محبوب ہیں۔ اگر انسان اشرف المخلوقات ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو جرم اس کی مرضی کرڈالے اور پھر بھی اللہ کا محبوب بندہ رہے۔ قرآن میں واضح ہوا ہے کہ اللہ تعالی ظالم اور انصاف سے دور لوگوں سے محبت نہیں کرتاہے۔

خطیب اہل سنت نے مزید کہا: انسان اس وقت اللہ کا محبوب بن جاتاہے جب اس کے اعمال و کردار اور باتیں ٹھیک ہوں اور اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق ہوں۔ اللہ کی اطاعت کرنے والے محبوب الہی بن جاتے ہیں، جو لوگ اپنی خواہشات کے پیچھے لگ جاتے ہیں، وہ شیطان کے بندہ و غلام بن جاتے ہیں۔یہ کیسے ہوسکتاہے کہ کوئی نہتے لوگوں پر بم برسائے اور خدا کا محبوب رہے؟ جو لوگ عقل و انصاف کو پاوں تلے روندتے ہیں، وہ خدا کے محبوب نہیں ہوسکتے۔

بھارت کے تازہ شہریت قانون مسلمانوں کی توہین ہے
اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں اہل سنت ایران کے ممتاز دینی و سماجی رہ نما نے مودی سرکار کے تازہ شہریت قانون کو ایک واضح امتیازی سلوک یاد کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کی توہین قرار دی۔ مولانا عبدالحمید نے امتیازی رویوں کے بھیانک نتائج پر حکومتوں کو وارننگ دیتے ہوئے انہیں ظلم و امتیازی رویوں سے لڑنے کا مشورہ دیا۔

مولانا نے کہا: بھارت دنیا کے بہترین ممالک میں شمار ہوتاتھا جہاں آزادی اور جمہوریت کا راج تھا، لیکن یہ اس زمانے کے مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ نرندرا مودی جیسے انتہاپسند اور متعصب شخص اس ملک کا وزیر اعظم بن چکاہے۔

انہوں نے مزید کہا: جب سے بھارت کے موجودہ وزیراعظم اقتدار میں آچکاہے، مسلمانوں کے مسائل بھی شدت اختیار کرچکے ہیں؛ کئی عشروں کے بعد کشمیریوں کی خودمختاری اور قانونی آزادی ان سے چھین لی گئی اور اب یہ امتیازی بل پاس ہوا ہے جس نے مسلمانوں کو نظرانداز کیا ہے۔

صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: انڈیا اگر دیگر ملکوں سے جلاوطن مہاجرین کو قبول نہیں کرسکتاہے، اس حوالے سے ایک ایسے قانون کو منظور کرانا چاہیے تھا جو تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے یکسان ہوتا؛ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ غیرمسلموں کو شہریت دی جائے اور مسلمانوں کو مسترد کردیا جائے۔ اسی لیے بھارت کا نیا شہریت قانون ایک واضح ظلم اور امتیازی سلوک ہے جو تمام مسلمانوں خاص کر مسلمانانِ ہند کی توہین ہے۔

مولانا عبدالحمید نے واضح الفاظ میں کہا: مسٹر مودی کیوں عقل سے کام نہیں لیتاہے اور اپنی امتیازی پالیسیوں اور منصوبوں سے بھارت کو بدامنی کی جانب دکھیل رہا ہے؟! بھارتی حکمرانوں اور بھارت کے ہندووں اور غیرمسلموں کو میرا پیغام ہے کہ اپنے ملک کو بدامن نہ کریں۔

امتیازی سلوک کے منفی اثرات پر وارننگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: امتیازی سلوک کسی بھی ملک اور سماج میں بدامنی کا باعث بن جاتاہے۔ یہ انتہائی غلط سوچ اور پالیسی ہے کہ حکومتیں سمجھتی ہیں بندوق اٹھاکر زبردستی سے امن بحال کرسکتی ہیں، کسی بھی ملک میں پائیدار امن انصاف اور امتیازی سلوک کے خاتمے سے حاصل ہوجاتاہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: امتیازی سلوک اسلام کے نقطہ نظر سے بھی اور عقل و منطق اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے مذموم اور مردود ہے، یہ قوموں اور حکومتوں کے مفادات کے خلاف ہے۔

انہوں نے حکومتوں کو امتیازی سلوک کی بیخ کنی کی دعوت دیتے ہوئے کہا: تمام ملکوں اور حکومتوں کو چاہیے کم از کم اپنے ہی مفادات اور امن کی خاطر ظلم اور امتیازی سلوک کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اتحاد اور امن نعرے لگانے اور زبان و دعوے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ نعروں اور دعووں کا میدان بہت چھوٹا ہے، اتحاد حقیقی اور عملی ہونا چاہیے، عمل سے اس کا ثبوت دینا چاہیے۔

چین اور میانمار حکومتوں کے رویے مسلمانوں سے انصاف کے خلاف ہیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان کے سنی نمازیوں سے اپنے خطاب میں چین اور میانمار میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے حکومتی مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: میانمار اور چین کی حکومتیں مسلمانوں کے خلاف انسانیت سے دور برتاؤ کرتی ہیں اور ان پر مظالم کے ایسے پہاڑ توڑے جارہے ہیں جن کے تذکرہ سے انسان کا سر شرم سے جھک جاتاہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا: چین و میانمار کی حکومتیں کیوں انسانی اصول اور حقوق کو پامال کرتی ہیں؟ ان جرائم سے پتہ چلتاہے کہ جب انسان اپنی فطرت سے دور ہوجائے، کس قدر ظالم اور رحم سے خالی ہوجاتاہے۔

مسلمانوں کی بے بسی؛ اختلافات اور مفادات کی وجہ سے حکمران دفاع سے عاجز
ممتاز عالم دین نے اپنے خطاب کے آخر میں مسلم حکمرانوں کی کمزور ی و بے بسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: مسلم ممالک کے پاس ہوسکتاہے قوت ہو، لیکن اختلافات اور تفرقہ کی وجہ سے اور اپنے ہی مفادات کی خاطر یہ ممالک مسلمانوں کے حقوق کا دفاع نہیں کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: آج ہوسکتاہے کسی جگہ غیرمسلم مسلمانوں کا دفاع کریں، لیکن مسلمان خود ایک دوسرے کے حقوق کا دفاع نہیں کرتے ہیں۔ ہماری امید یہی ہے کہ اللہ تعالی خود مظلوم مسلمانوں کا دفاع کرے اور ان کے حالات میں بہتری لائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں