والد ایک عظیم ہستی

والد ایک عظیم ہستی

باپ ایک سائبان شفقت ہے جس کے سائے میں اولاد پروان چڑھتی ہے۔ باپ کے ہوتے ہوئے اولاد خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔ باپ کے ہوتے ہوئے بیٹے بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جیسے ہی باپ کا سایہ عافیت سر سے اٹھتا ہے تو فوراً ہی اولاد کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سر پر کتنا بوجھ آن پڑا ہے۔ باپ دنیا میں اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے۔ انسان جو کچھ بھی ہے والد ہی کی وجہ سے ہے۔ والد اپنی اولاد کی پرورش کے لیے اپنی جان تک لڑادیتا ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی اولاد کی راحت رسانی میں صرف کردیتا ہے۔ دنیا کی تمام نعمتیں اولاد کو لاکر دینے کی کوشش کرتا ہے، جس کے لیے اپنی خواہشات کو بھی دبا دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے کو خود سے آگے جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، کسی دوسرے کو خود سے زیادہ ترقی کرتا ہوا دیکھ کر شاید ہی کوئی خوش ہو لیکن والد کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ چاہتا ہے اس کی اولاد اس سے آگے بڑھے۔ وہ بچوں کو ترقی کرتا ہوا دیکھ کر پھولا نہیں سماتا۔ خود اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے کوشش کرتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ جو کام میں نہیں کرسکا میرے بچے کریں۔ والد ایک ایسا مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی اولاد کی نگہبانی کرتا ہے۔
اللہ رب العزت نے بھی والدین کی عظمت کا جابجا تذکرہ فرمایا ہے۔ ان کی عظمت بیان فرماتے ہوئے تلقین کی ہے کہ ان کا ہر حکم بجا لاؤ سوائے اس حکم کے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور ان کے سامنے اف تک نہ کہو۔ ان کے سامنے عاجزی اختیار کرو۔ بڑھاپے میں ان کا خیال رکھو۔ ان کی خدمت کرکے اپنے لیے حصول جنت کا راستہ ہموار کرو۔ ایک مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بددعا فرمائی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جو اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور ان کی خدمت کرکے جنت نہ حاصل کرسکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: آمین۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت نہ کرنا بالخصوص جب وہ بڑھاپے میں پہنچ جائیں کتنی بڑی بدنصیبی ہے۔ ایک موقع پر باپ کا مقام بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”باپ جنت کے بیچ کا دروازہ ہے، اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے۔“ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا، وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا، وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی، یا رسول اللہﷺ کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے ماں باپ میں سے دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور پھر (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخلے کا حق دار نہ بن سکا۔“
ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میرا باپ میرا سارا مال خرچ کر دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کو بلایا۔ جب والد کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی شکایت کی ہے تو انہیں بہت رنج ہوا۔ راستے میں چلتے ہوئے انہوں ن ے دل میں کچھ اشعار کہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے مجھے وہ اشعار سنایئے جو آپ نے راستے میں کہے ہیں۔ وہ مخلص صحابی تھے، سمجھ گئے کہ وہ اشعار جو ابھی تک میرے کانوں نے بھی نہیں سنے، وہ بھی اللہ تعالی نے سن لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر بھی کردی ہے۔ انہوں نے وہ اشعار سنانے شروع کیے۔ خلاصہ کچھ یوں ہے: ”میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور تمہاری ہر ذمہ داری اٹھائی، تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تم بیمار ہوجاتے تو میں بیداری میں رات گزارا دیتا۔ میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی سے دیا۔ جیسا کہ تم مجھ پر احسان و انعام کررہے ہو۔ کم از کم اتنا ہی حق مجھے دے دیتے جتنا ایک شریف پڑوسی دیتا ہے۔ کم از کم مجھے پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا……“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشعار سنے تو بیٹے سے فرمایا کہ ”تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے……“
اس سے معلوم ہوا کہ باپ کے دل سے نکلنے والی آہ کتنی جلدی عرش تک پہنچتی ہے، اس لیے والدین کے لیے راحت کا ذریعہ بننا چاہیے نہ کہ اذیت رسانی کا۔ ماں باپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ ان کے دل سے دعائیں نکلیں۔ ماں باپ کی خدمت سے زندگی میں خوشحالی آتی ہے، رزق میں برکت ہوتی ہے، اولاد فرمانبردار ہوتی ہے، دعائیں اور عبادت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور اللہ تعالی کی ناراضی باپ کی ناراضی میں پوشیدہ ہے۔ اپنے بیوی بچوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر اپنے ماں باپ کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا اولاد کے ذمہ فرض ہے۔ والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کی جائے، ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا جائے، انہیں آرام و سکون پہنچانے کی کوشش کی جائے، ان کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا جائے۔ کثرت سے والدین کے لیے یہ قرآنی دعا مانگی جائے: ”رب ارحمھما کما ربیانی صغیراً“ یعنی اے میرے پروردگار تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں