حکایات شیخ سعدی

بے اولاد بادشاہ

بے اولاد بادشاہ

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ بے اولاد تھا۔ جب اس کی موت کا وقت نزدیک آیا تو اس نے وصیت کی کہ میری موت کے دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہو، میری جگہ اسے بادشاہ بنا دیا جائے۔
خدا کی قدرت کا تماشا دیکھے کہ دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوا، وہ ایک فقیر تھا جس کی ساری زندگی در بھیک مانگتے اور اپنی گدڑی میں پیوند پر پیوند لگانے میں گزری تھی۔
امیروں، وزیروں نے بادشاہ کی وصیت کے مطابق اسے بادشاہ بنادیا اور وہ تاج و تخت اور خزانوں کا مالک بن کر بہت شان سے زندگی گزارنے لگا۔
قاعدہ ہے کہ حاسد اور کم ظرف لوگ کسی کو آرام میں دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگتے ہیں۔ اس گداگر کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس کے دربار کے کچھ امراء نے آس پاس کے حکمرانوں سے ساز باز کر کے ملک پر حملہ کروادیا اور بہت سا علاقہ حملہ آوروں نے فتح کرلیا۔
اس بات کی وجہ سے بادشاہ بہت افسردہ رہنے لگا۔ انھی دنوں اس کا ایک پرانا فقیر ساتھی اِدھر آنکلا اور اپنے یار کو ایسی حالت میں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اسے مبارک باد دی کہ خدا نے تیرا مقدر سنوار اور فرش خاک سے اٹھا کر تخت افلاک پر بٹھادیا۔
فقیر کی یہ بات بالکل درست تھی۔ کہاں دردر کی بھک مانگنا اور کہاں تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہونا۔۔۔ لیکن اس شخص کو تو اب بادشاہ بن جانے کی خوشی سے زیادہ ملک کا کچھ حصہ چھن جانے کا غم تھا۔
غم زدہ آواز میں بولا: ’’ہاں دوست! تیری بات تو غلط نہیں لیکن تجھے کیا معلوم کہ میں کیسی فکروں میں گھرا ہوا ہوں۔ تجھے تو صرف اپنی دو روٹیوں کی فکر ہوگی لیکن مجھے ساری رعایا کی فکر ہے۔‘‘

حکایت سنا کر شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ دنیا کا تو یہ حال ہے کہ اگر یہ ہمیں حاصل نہ ہو تو مفلس ہونے کا غم کرتے ہیں اور جب حاصل ہوجاتی ہے تو اس کی محبت میں ہر چیز کو بھلادیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا سے بڑھ کر کوئی بلا نہیں۔۔۔
تو نگری کی تمنا ہے گر تو لازم ہے
خدا سے کچھ نہ طلب کر بجز قناعت کے

یہ بات سچ ہے کہ افضل ہے صبر مفلس کا
کسی غنی کی شب و روز کی سخاوت سے

وضاحت: حضرت سعدی رحمہ اللہ نے اس حکایت میں یہ سچائی بیان فرمائی ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا اعزاز پا کر بھی انسان کو سچا اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ اپنے طالبوں کو مسلسل کرب میں مبتلا رکھنا دنیا کی ایسی عادت ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا۔ اگر کوئی شخص اس بات کا طالب ہے کہ اسے سچی راحت اور حقیقی اطمینان نصیب ہو تو اسے چاہیے دنیا کی ہوس ترک کر کے قناعت اختیار کرے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں