مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری کی رحلت

مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری کی رحلت

مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری کی وفات کی خبر گزشتہ دن صبح نماز فجر کے بعد واٹس ایپ کے ذریعے ملی، انا للہ و انا الیہ راجعون
کافی دنوں سے علالت میں اضافے کی خبریں آرہی تھیں، اس دوران ایک موقع پر ملتان حاضری اور بیمار پرسی کا موقع بھی ملا اور ان کے فرزند گرامی مولانا سید عطاء اللہ شاہ ثالث سے وقتاً فوقتاً ان کے احوال کا علم ہوتا رہا، مگر ہر آنے والے کو اپنے وقت پر اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے اور شاہ جی محترم بھی ایک طویل متحرک زندگی گزار کر دار فانی سے رخصت ہوگئے ہیں، اللہ تعالی ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری ؒ کے ساتھ میرا ربط و تعلق اس دور سے چلا آرہا ہے، جب وہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل ہوئے تھے اور کچھ عرصہ انہوں نے جامعہ میں گزارا تھا۔ میرا بھی طالب علمی کا دور تھا اور حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمارا کچھ دوستوں کا ایک گپ شپ کا حلقہ بن گیا تھا، جس میں مولانا سعید الرحمن علویؒ اور مولانا عزیز الرحمن خورشید بھی ہمارے شریک تھے۔ کم وبیش روزانہ شام کو چائے کی محفل جمتی تھی اور ادبی، سیاسی، دینی اور سماجی نوعیت کے مختلف امور پر تبادلۂ خیالات ہوتا تھا اور خالص ’’احراریانہ ذوق و ماحول‘‘ کی اس پر لطف مجلس میں بعض دیگر دوست بھی شامل ہوجایا کرتے تھے۔ اس کے بعد ہمارے جماعتی راستے تو الگ الگ رہے، مگر دینی تحریکات میں تھوڑی بہت رفاقت، اجتماعات میں اکٹھے شرکت اور وقتاً فوقتاً تبادلۂ خیالات کا سلسلہ چلتا رہا۔ بعض مسائل میں باہمی اختلاف ہوجاتا تھا اور ہم آپس میں گرمی سردی کا اظہار بھی کرلیا کرتے تھے، مگر باہمی مودت و محبت اور احترام کا رشتہ بدستور قائم رہا۔
ایک موقع پر شاہ جی مرحوم نے انتہائی درد دل اور فکرمندی کے ساتھ دیوبندی مکتب فکر کے سب حلقوں اور جماعتوں کو ایک مشترکہ فورم پر جمع کرنے کے لیے اچھی خاصی محنت کی، بلکہ دل و جگر کا خون جلایا اور ’’کل جماعتوں مجلس عمل علماء اسلام پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک مشترکہ فورم تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے، جس کا سربراہ والد گرامی حضرت مولانا محمدسرفراز خان صفدر کو چنا گیا اور رابطہ سیکرٹری کی ذمہ داریاں مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری نے سنبھال لیں۔ نیلا گنبد لاہور میں بھرپور ملک گیر اجتماع ہوا، جس میں دیوبندی مکتب فکر کے کم وبیش سبھی حلقے اور جماعتیں شریک تھیں، مجھے بھی اس کی ہائی کمان میں شاہ جی کے معاون کے طور پر تھوڑا بہت کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران انہوں نے ’’امریکا مردہ باد‘‘ کے عنوان سے عوامی رابطہ کی مہم چلائی اور مختلف شہروں میں عوامی ریلیوں کی اہتمام کیا، مگر یہ بات زیادہ دیر تک نہ چل سکی، جس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ہمارا دینی حلقوں اور جماعتوں کا یہ مزاج تقریباً پختہ ہوگیا ہے کہ کسی دینی یا قومی مسئلے پر انتہائی گرم جوشی کے ساتھ مہم کا آغاز کرتے ہیں، مگر یہ گرم جوشی جلسہ و جلوس کی حد تک ہی رہتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال چند جلسوں اور جلوسوں کے بعد زیادہ عرصہ جاری نہیں رہ پاتی۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران مجھے درجن بھر ایسی مہمات کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا ہے، مگر دو تین تحریکوں کے سوا کسی مہم جوئی کو چند سالوں بلکہ زیادہ تر کو کچھ مہینوں سے آگے بڑھتے دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ شاہ جی مرحوم نے زندگی کے آخری چند برسوں میں اس مہم کا دوبارہ آغاز کیا اور مختلف دیوبندی جماعتوں کے قائدین کو ایک جگہ بٹھانے میں پھر کامیابی حاصل کی، لیکن بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی، مگر اس کے ساتھ ہی شاہ جی کی علالت بڑھتی چلی گئی اور وہ مستقل صاحب فراش ہوگئے۔ مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری کے ساتھ ہمارے ربط و تعلق کا ایک اور میدان بھی تھا۔ گوجرانوالہ کے شیرانوالہ باغ میں عیدیں ن کی نماز کا اہتمام کافی عرصہ سے مجلس احرار اسلام کرتی آرہی ہے اور امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے فرزندان گرامی میں سے کوئی بزرگ ملتان سے تشریف لا کر شیرانوالہ باغ میں نماز عید پڑھاتے رہے ہیں، جبکہ شیرانوالہ باغ سے متصل مرکزی جامع مسجد کے خطیب کی حیثیت سے مجھے کم و بیش نصف صدی سے قبرستان کلاں مبارک شاہ روڈ کے ساتھ متصل گراؤنڈ میں نماز عید پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے۔ دونوں جگہوں میں خاصا فاصلہ ہے، اس لیے عام طور پر کبھی کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوا، البتہ بارش کی صورت میں ہم نماز عید مرکزی جامع مسجد میں پڑھتے ہیں اور دونوں اجتماعوں کے درمیان صرف ایک دیوار کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ ایسے موقع پر ہم باہمی مشورے سے نماز عید کے وقت میں اتنا وقفہ رکھ لیتے ہیں کہ کوئی الجھن نہ پیدا ہو، مگر چند سال قبل عید کے موقع پر بارش کی وجہ سے شیرانوالہ باغ کا گراؤنڈ بھی قابل استعامل نہ رہا تو میں نے حضرت شاہ جی کو پیغام بھجوایا کہ وہ جامع مسجد میں ہی نماز عید کا خطبہ ارشاد فرمائیں، ہم اکٹھے عید پڑھ لیں گے، انہیں اس پر حیرانی ہوئی، مگر بہت خوش ہوئے اور تشریف لاکر خطبہ و نماز کی امامت فرمائی، اس کے بعد بھی چند بار ایسا ہوچکا ہے۔
شاہ جی مرحوم ہمارے قابل احترام بزرگ تھے اور امیر شریعت سید عطاء اللہ بخاری کے فرزند ہونے کے تعلق سے دیگر سب اہل خاندان کی طرح ہماری عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز بھی تھے۔ آج وہ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں لیکن ان کی یادیں تازہ رہیں گی اور دین حق کے لیے ان کی جد و جہد کا تسلسل بھی ان شاء اللہ العزیز قائم رہے گا۔ اللہ تعالی انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور ان کے خاندان و متعلقین بالخصوص ان کے فرزند مولانا سید عطاء اللہ شاہ ثالث کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں