آہ! حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ

آہ! حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ

ابھی حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری مہاجر مدنی رحمہ اللہ کا صدمہ وفات قلب حسرت ناک سے جدا نہیں ہوا تھا کہ شہید امارت اسلامیہ افغانستان اور انقلاب طالبان کے عظیم مربی اور محسن حضرت مولانا مفتی رشید احمد بھی داغ مفارقت دے کر مولائے حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون
دنیا مسافر خانہ اور موت کی گاڑی کا پلیٹ فارم ہے۔ یہاں لاکھوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے مگر کچھ ہستیاں اس سرائے کو نیکیوں کو چمنستان بنا کر یادگار چھوڑ جاتی ہیں۔ بلاشبہ حضرت مفتی صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن باطل شکن تھے۔ بیک وقت مدرس، مفتی، محدث، مصلح، مجاہد، مدبر حق گو، بدعات شکن، شیخ و مرشد، قائد جہادی تنظیمات، حاتم غربا ومساکین اور انقلاب افغانستان کے سب سے بڑے سرپرست، محافظ و معاون تھے۔ ضرب مؤمن کے اجرا سے آپ نے دینی صحافت اور اصلاح عوام کے بے نظیر مثال پیش کی اور لاکھوں گم گشتگاں کو راہ راست پر لائے۔ حجرۂ تنہائی میں بیٹھ کر نشتر پارک جیسے جلسوں میں لاکھوں کو زیارت کرائے بغیر ایسا جامع عقیدت پلایا اور شریعت محمدیہ کا پابند بنایا کہ بڑے بڑے اولیاء کرام کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ ۵۰ ہزار فتوے جاری کرنے اور ۶۰ کتابیں تصنیف فرمانے کے ساتھ آپ یقیناًولی کامل بھی تھے کہ ناظم آباد کی ایک چوٹھی سی قدیم مسجد اور معمولی مکان میں پوشیدہ رہ کر، مختلف شہروں اور ملکوں کے دورے کیے بغیر کروڑوں افراد سے اپنی عقیدت کا لوہا منوالیا۔ لاکھوں گنہ گاروں کو تائب، نیکیوں کا متلاشی، شریعت و سنت اور داڑھی اورپردے کا پابند بنایا۔ آپ کے اشاروں پر ہی نہیں، دعاؤں سے بھی مخیر حضرات کروڑوں کا سامان افغانستان کے یتامیٰ، مجاہدین اور طالبان کے لیے ٹرکوں اور ٹرالوں پر لے جاتے رہے۔

ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

مدرسہ قاسم العلوم اکوال تلہ گنگ کے مفتی مولانا الطاف الرحمن فاضل مدینہ یونیورسٹی کے والد محمد قاسم صاحب نے آپ کی کرامت کے طور پر مجھے بتایا کہ میں ۷۸ء میں اپنے بیٹے کو دارالفتا میں داخل کرانا چاہتا تھا مگر شرائط پوری نہ تھیں۔ یہ ورد پڑھتے ہوئے کراچی گیا کہ یا الٰہی کرم کر، سخت دل نرم کر۔ مفتی صاحب نے مولانا کو داخل کرکے فرمایا کہ آپ کے والد کی وجہ سے کر رہا ہوں۔ پھر والد صاحب سے فرمایا کہ مسلمان سخت دل نہیں ہوتا، مضبوط دل والا ہوتا ہے۔ یعنی ان کی قلبی کیفیت بطور کشف و کرامت اللہ نے معلوم کرادی۔
احقر کا مفتی صاحب سے تلمذ برائے ہے۔ ۱۳۸۶ھ میں دورہ حدیث شریف پڑھ کر مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے فارغ ہوا تو روحانی اصلاح کے لیے حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ اور مولانا فضل الٰہی قریشی مسکین پوری رحمہ اللہ کے خلیفہ یادگار سلف حضرت مولانا محمد عبداللہ بہلوی شجاع آبادی نور اللہ مرقدہ (وفات ۱۳۹۷ھ) سے بیعت کا تعلق قائم کیا اور رمضان و شعبان میں دورۂ تفسیر بھی پڑھا۔ وہاں ایک طالب علم نے مفتی صاحب کے دارالافتا کا تعارف کرایا تو احقر نے بذریعہ خط آپ سے رابطہ کیا۔ آپ نے فرمایاکہ ۷ شوال تک پہنچ جاؤ۔ میں خوشی ہوکر گھر عید کے لیے تھمے والی ضلع میانوالی آیا۔ کراچی کا پہلا سفر تھا۔ والد مرحوم کی علالت اور کچھ اپنی سستی کی وجہ سے تین دن کی تاخیر سے ۱۰ شوال کی شام کو کراچی پہنچا۔ عشا کی نماز حضرت مفتی صاحب کے پیچھے ادا کی۔ حضرت مفتی صاحب اصول کے بڑے پابند تھے۔ فرمایا تین دن لیٹ آئے ہو، داخلہ بند ہے۔ ہاں اگر کوئی ۷۵ روپنے ماہانہ کے لحاظ سے تمہارا سال کا وظیفہ ادا کرنے پر راضی ہو تو گنجائش نکل آئے گی ورنہ بنوری ٹاؤں میں تخصص فی علوم الحدیث میں داخلہ لے لو۔ میرے مقدر میں آپ کی صحبت سے محرومی اور وارثان علامہ انور شاہ کشمیری حضرت علامہ محمد یوست بنوری اور مولانا محمد ادریس بھٹی مدیر مسؤل بینات سے تلمذ کی سعادت لکھی تھی۔ انہی دنوں میں مولانا محمد یوست لدھیانوی شہید رحمہ اللہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال سے ہر ماہ پڑھانے آیا کرتے تھے۔ وہاں داخلہ مل گیا۔ کبھی کبھی مفتی صاحب کی زیارت بھی ہوجاتی۔ پھر احقر کا سلسلہ تدریس و ملازمت پنجاب میں ہی رہا۔
رمضان ۱۴۲۱ھ میں کراچی کے سفر کے موقع پر مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ کی زیارت کے لیے ناظم آباد گیا۔ عشا کی نماز میں آپ سے ملاقات ہوئی۔ انتہائی با رعب لباس اور بزرگانہ شان و شوکت حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ کی وضع قطع معلوم ہوئی۔ بالاخانہ پر بلایا۔ میں نے دل لگی سے اپنا تاثر سنادیا۔ مسکرائے۔ میں نے ناکام طالب علمی کا حوالہ دیا تو اور خوش ہوئے اور فرمایا کہ میں جانتا ہوں۔ آپ پہلے بھی ملتے رہے ہیں۔ آپ کے مدح صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور رد رفض کے موضوع پر تصانیف سے واقف ہوں۔ دعا بھی دی۔ اپنی علمی و روحانی ضوفشانی سے احقر کو منور و سیراب فرماتے رہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی امارت اسلامیہ افغانستان کی شہادت کا غم لے کر جانے والے مفتی صاحب کو غریق رحمت فرمائے اور ان کی تمام دینی خدمات کو قبول فرمائے۔ رفتید ولے نہ از دل ما

تحریر:حافظ مہرمحمد میانوالوی
ماہنامہ الشریعۃ، مئی ۲۰۰۲ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں