برطانوی حکومت نے اسکولوں میں نقاب پر پابندی کی تائید کر دی

برطانوی حکومت نے اسکولوں میں نقاب پر پابندی کی تائید کر دی

برطانوی حکومت نے ملک میں ان اسکولوں کے لیے اپنی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے جو نقاب پہننے پر پابندی چاہتے ہیں۔ ایسا ملک جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ رواداری کے حامل ممالک میں شمار ہونے پر فخر کرتا ہو، وہاں پر اس اعلان کے بعد مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک بار پھر بحث وجدل کا دروازہ کھل جانے کا اندیشہ ہے۔
گزشتہ روز “بی بی سی” سے گفتگو کرتے ہوئے برطانوی وزیر تعلیم نکی مورگن کا کہنا تھا کہ اسکول کی سطح کے تعلیمی ادارے “نقاب کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کر سکتے ہیں”۔ ان کے خیال میں ایسی صورت میں یہ اصول ایک ہی وقت میں طالبات اور خاتون اساتذہ دونوں پر لاگو ہو گا۔
نکی مورگن نے واضح کیا کہ “یہ اسکول کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ اس بارے میں فیصلہ کریں … لیکن جب معاملہ چھوٹے بچوں کو پڑھنے اور لکھنے کی تعلیم دینے سے متعلق ہو تو پھر استاد کا منہ نظر آنا بہت اہم ہے”۔
یہ بات یاد رہے کہ برطانیہ کے اسکولوں میں حجاب پر کوئی پابندی نہیں ہے اور اس کو پہنی ہوئی بہت سی طالبات نظر آتی ہیں، تاہم نقاب کا نظر بہت نایاب ہے۔
اس سے قبل وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو دہرایا ہے کہ وہ فرانس کے برخلاف، ملکی سطح پر حجاب پہننے کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں چاہتے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ بعض اداروں اور تنظیموں کی جانب سے نقاب پر پابندی کی تائید کرتے ہیں۔
یہ بیانات “ٹائمز” میگزین میں شائع ہونے والے اس آرٹیکل کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں قدامت پسند لیڈر (ڈیوڈ کیمرون) نے دھمکی دی تھی کہ پوری طرح انگریزی نہ جاننے والی تمام مسلمان خواتین کو نکال دیا جائے گا۔ اس دھمکی نے ایک نئی جدل وبحث کا دروازہ کھول دیا ہے۔
وہ آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ ” اگر آپ لوگ انگریزی زبان میں مہارت کو بہتر نہیں بنائیں گی تو یہ چیز آپ لوگوں کو برطانیہ میں رہنے سے روک دے گی، اور جو حضرات اپنی شریکہ کو اس نظام میں ضم ہونے سے روکیں گے، تو انہیں اس کے (بھیانک) نتائج کا بھی ادراک ہو جائے گا۔”
حجاب اور نقاب پہننے کا معاملہ ایسے وقت زیربحث ہے جب ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کو شدت پسندی سے روکنے کے لیے اقدامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین منصوبہ منگل کے روز ایک نئی ویب سائٹ کا اجراء ہے۔ “Educate Against Hate” نامی ویب سائٹ کا مقصد مسلمان نوجوانوں کی “داعش” تنظیم میں شمولیت روکنے کے لیے والدین اور اساتذہ کی معاونت کرنا ہے۔

العربیہ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں