امارت شرعیہ اورحضرت مولانا محمدولی صاحب رحمانی

امارت شرعیہ اورحضرت مولانا محمدولی صاحب رحمانی

انگریزوں کے دور اقتدار میں۱۹۲۵ء میںبہار کے مردم خیز خطہ سے تعلق رکھنے والے جید عالم دین مفکرملت حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد صاحب رحمۃاللہ علیہ نے ملک گیر سطح پر امارت شرعیہ قائم کرنے کا عزم کیا، مگر جب اس میں انہیںکامیابی نہیں ملی، تو صوبہ بہارکی راجدھانی پٹنہ میں ۱۹۲۱ء میںانہوں نے امارت شرعیہ کی بنا ڈالی، جو موجودہ جغرافیہ کے لحاظ سے بہار، جھارکھنڈ اور اڑیسہ تین صوبوں پرمشتمل تھا، امارت شرعیہ قائم کرنے کے جو مقاصد حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر تھے، ان سب کو حاصل کرنا اسباب ووسائل کی قلت کی وجہ سے مشکل تھا، ۱۹۵۷ء میں جب حضرت مولانامنت اللہ صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ چوتھے امیر بنائے گئے، تو انہوں نے اپنی ذہانت، قابلیت، اثر ورسوخ اور خد اکی مدد کے ذریعہ اُن سارے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی، جس کے لیے حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے امارت شرعیہ کو قائم کیاتھا،حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی ؒنے امارت شرعیہ کو بام عروج پر پہونچایا ، اس ملک وملت کابا وقار اور خدمت گذار ادارہ بنایا، ان کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج امارت شرعیہ عالمی سطح پر مقام رکھتا ہے۔
حضرت امیر شریعت مولانامنت اللہ صاحب رحمانی کو امارت کے چمکانے اور بڑھانے میں اتنی بڑی کامیابی جہاں ان کی خداداد صلاحیت کا نتیجہ ہے، وہیں انکے باحوصلہ رفقاء کار کی بھر پور معاونت کا ثمرہ ہے، جو ان کا دست و بازو بن کر کام کرتے رہے، یہ صحیح ہے کہ یہ دست بازو انہیں کے تیار کردہ تھے، مگر دست وبازو کا بھی ایک رول تھا،حضرت امیر شریعت مولانامنت اللہ صاحب رحمانی کے دست وبازو بن کر امارت کی ترقی میں جو حضرات اہم رول ادا کررہے تھے، ان میںکئی مقتدر شخصیات قابل ذکر ہیں۔ ان میںخانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیںمفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی کا نام نامی اہمیت کا حامل ہے۔
حضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی نے تعلیم سے فراغت کے بعد عملی میدان کا آغاز امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے کیا، حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں امارت سے نکلنے والے ہفت روزہ نقیب کی ترتیب وتزئین کی ذمہ داری سونپی، جسے انہوں نے نہایت سلیقہ کے ساتھ آراستہ کیا، انہوںنے ’’نقیب ‘‘کے صفحات میں اضافہ کیا، اہم مضامین کی اشاعت پر توجہ دی، سلگتے موضوعات پر اداریہ لکھنے کا اہتمام کیا، صوری ومعنوی دونوں لحاظ سے آراستگی نے ’’نقیب‘‘ کو بہت جلد بڑی مقبولیت عطاکی۔
بہار میںفساد ہؤا، تو امارت شرعیہ نے بڑی بے جگری سے امداد کا کام کیا،فساد زدہ علاقوںکا حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی نے خود بھی دورہ کیا، رانچی فساد کے موقعہ پر حضرت امیر شریعت کی ہدایت پروہ اس وقت رانچی گئے، جب پورا رانچی فساد کی آگ میں جل رہا تھااور مونگیرفساد کے موقعہ پر آپ نے جم کر فساد زدگان کی مدد میں حصہ لیا، اور امارت کے امدادی کاموں میں اہم کردار ادا کیا، مسلمانوںکی کھلم کھلاامداد کو دیکھ کرہی فرقہ پرستوں نے اس موقعہ پر آپ کو جان سے مارنے کی ناکام کوشش کی جس کی یاد سے دل دہل جاتا ہے، مگر اللہ نے آپ کو بال بال پچا لیا،
امارت شرعیہ کامرکزی دفتر خانقاہ مجیبیہ میںہؤا کرتا تھا، جب خانقاہ مجیبیہ سے دفتر کی منتقلی ہوئی، تو قاضی نورالحسن کے مکان میں اسے جگہ ملی، جو مین سڑک سے بہت دورگلی در گلی میں واقع ہے، اور جہاں تک عام آدمی کاپہونچنا دشوارہے، حضرت امیر شریعت مولانامنت اللہ صاحب رحمانی نے داناپور جانے والی سڑک کے کنارے امارت کے لیے زمین حاصل کی، اوروہاں شاندار عمارت تعمیر کروائی۔ امارت شرعیہ کو یہ زمین گورنر اخلاق الرحمان صاحب قدوائی کے زمانہ میں حاصل ہوئی، اس زمین کے حاصل کرنے میںجتنے مراحل آئے، اسے حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کی ہدایت پرحضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی ہی خوش اسلوبی سے طے کراتے رہے، اوروہ وقت آیا کہ آپ کی جدوجہد کامیاب ہوئی، اور امارت کو لب سڑک زمین مل گئی، اس کا تذکرہ گورنر اخلاق الرحمان صاحب نے خود اپنے قلم سے کیا ہے۔
’’امارت شرعیہ کو میں نے اس حال میں بھی دیکھا ہے ، جب وہ ایک بوسید ہ عمارت تھی اور گلیوں میں اس کا دفتر تھا، انہوں نے (حضرت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی) اس کی زمین حکومت سے حاصل کی اور مجھے خوشی ہے کہ میری گورنری کے زمانہ میں یہ زمین امارت شرعیہ کو ملی، زمین کے حاصل کرنے کے لیے انہوںنے اپنے صاحبزادہ مولانا محمد ولی صاحب رحمانی(سابق ڈپٹی چیرمین بہار لیجسلیٹو کانسل) کو ذمہ دار بنایا تھا، وہ مناسب موقعوں پر توجہ دلاتے اور تعلق رکھنے والوںکو اعتماد میں لے کر ان سے مدد لیتے، نتیجہ میں حکومت بہار نے پھلواری شریف میں سڑک کے کنارے ایک بڑی اراضی امارت شرعیہ کو قیمتاً دی‘‘
(حضرت امیر شریعت نقوش وتأثرات ۷۳)
امارت کے لیے حکومت سے زمین تو مل گئی، مگر شرپسندوں نے اس پر مورتی بیٹھادی، حضرت مولانا محمد ولی صاحب رحمانی نے اپنے اثر روسوخ کا استعمال کرتے ہوئے، وہاںسے مورتی ہٹوائی اور اسے دریا گنگا میں پہونچوادیا،مولانا کے سوانح نگار لکھتے ہیں:
’’امارت شرعیہ کو جب یہ زمین ملی، شرپسندوں نے وہاں راتوں رات مورتی رکھدی، اور وہ سب کچھ کیا، جو ایسے موقعہ پر ہوتا ہے، بانس میںجھنڈے بھی لگائے، اور اینٹوں سے جوڑ کر اس کی مذہبی نوعیت کو بھی مستحکم کردیا، اس نازک اور بڑے حساس مسئلہ کے حل کی ذمہ داری بھی آپ نے قبول کی، اور حکمت وتدبیر کے ساتھ افسروں کے تعاون اور پولیس کی مدد سے دن کی روشنی میں اس پورے قضیہ کو دریا ئے گنگا میں پہونچا دیا، اور زمین خالی اور صاف ستھری ہوکر امارت کے قبضہ میں آگئی، یہ جگہ وہی ہے، جہاں دارالامارت کے پورٹیکو کے آگے حوض تھا(اب وہ حوض ختم ہو چکا ہے)‘‘
(دیکھئے مفکراسلام۔ زندگی کے سنگ میل ۱۷ )
امارت کو دو متفقہ امیر شریعت دینے کا سہرا بھی آپ کے سر جاتا ہے، پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبد الرحمان صاحب کے انتخاب کے وقت ایک بڑی تعداد آپ کو بحیثیت امیر دیکھنا چاہتی تھی، مگر آپ نے حضرت مولانا عبد الرحمان صاحب کے نام کا اعلان کرکے سبھوں کو متحد کردیا، حضرت مولانا عبد الرحمان صاحب کے بعد چھٹے امیر شریعت کے انتخاب کاجب وقت آیا، تو پھرایک باربڑی اکثریت آپ کو امیر منتخب کرنا چاہتی تھی، اس مرتبہ صورتحال پہلے سے زیادہ کشیدہ تھی، مگرحضرت مولانا رحمانی نے امیر شریعت کے لیے حضرت مولانانظام الدین کانام پیش کرکے صورتحال بگڑنے سے بچالیا اور ایک بار پھر امارت کو متفقہ امیرشریعت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
واقف کاروں پر یہ بھی مخفی نہیں ہے کہ حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے وصال کے بعد امارت کے تنظیمی ڈھانچوں کو مضبوط بنانے اور اسے مزید مؤثر اور باوقار ادارہ بنانے میں اس کے ذمہ داروں کیساتھ نظریاتی ا ختلاف کے باوجود مل جل کر آپ نے ہمیشہ کام کیا، اور جب جب امارت کو ضرورت پڑی آپ نے اس کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا، تاریخ گواہ ہے کہ امارت کی کارکرگی کے بہتر بنانے میں آپ کے قیمتی مشورے ، مشقت آمیز اسفار، بیش قیمت اوقات ،اور نہ جانے کتنے دن اور کتنی راتیں، کتنے آنسو اور کتنی آہیں شامل ہیں، امارت کی ایک ایک اینٹ اس کی خاموش گواہ ہے۔ امارت سے آپ کی اس درجہ محبت اور اس کے کاموں سے بے پناہ لگائو اور جذبہ کو ہی دیکھتے ہوئے، امیر شریعت سادس حضرت مولانا نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ۲۰۰۵ء میںآپ کوامارت شرعیہ کا نائب امیر شریعت نامزد کیا، جو صحیح معنوںمیں امارت کے بہی خواہوں اور معتقدوں کے دل کی آواز تھی۔
امیر شریعت سادس حضرت مولانا نظام الدین صاحب کا ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء کو وصال ہوگیا، ۲۹؍ نومبر کو امیر شریعت سابع کا ارریہ میں انتخاب عمل میں آنا طے ہوچکا ہے، ضابطہ کی رو سے اس کا انتخاب تو ارباب حل وعقد کریںگے، مگر عوام وخواص کی زبان پر اس عہدہ کے لیے ابھی سے ایک ہی شخص کانام لیا اور سنا جارہا ہے، اور وہ ہے حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ، حضرت مولانامحمد ولی رحمانی، اللہ تعالیٰ ان کے سایہ کو ملت پر دیر تک قائم رکھے، اور خانقاہ رحمانی اور امارت شرعیہ کے فیض سے ہم سبھوںکو بہرہ ور فرماتا رہے۔ (آمین) ؎
کچھ شمع کی لو ہی میں تاثیر کشش ہوگی
ہوتا نہیں پروانہ ہر آگ کا شیدائی

مولانا رضاء الرحمن رحمانی
رکن مجلس ارباب حل وعقد،امارت شرعیہ،بہار ،اڑیسہ وجھارکھنڈ
بصیرت فیچرس


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں