تحفظ شریعت کے مرد میداں امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒ

تحفظ شریعت کے مرد میداں امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒ

امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی (ولادت ۹؍ جمادی الثانی1332ھ وفات ۳؍ رمضان ۱۴۱۱ھ) کی حیات وخدمات کے کئی روشن باب ہیں، جن پر مقالہ نگاروں نے بہت شرح وبسط سے لکھا ہے اور جن پر کئی کتابیں تیار ہو چکی ہیں ان تمام ابواب کو جمع کرکے اس پر تجزیاتی نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ساری تگ ودو اور خدمات کا سلسلہ تحفظ شریعت، اصلاح معاشرہ اور اسلامی قوانین کے دفاع پر جا کر ختم ہوتا ہے۔
مولانا دارالعلوم دیوبند کے مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہوں یا ندوہ کی مجلس شوریٰ میں کوئی مسئلہ زیر بحث ہو، جامعہ رحمانی مونگیر کو عروج و ارتقاء کے مختلف مدارج سے گزارنا ہو یا خانقاہ کی مسند سجاد گی، مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کی تحریک ہو یا اس کا دور نظامت، شاہ بانو کیس میں نفقۂ مطلقہ کے خلاف احتجاج ہو یا ایمرجنسی میں خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف تحریر و تقریر، امارت شرعیہ کے امیر شریعت کی حیثیت سے تنفیذ شریعت اور توسیع دارالقضاء کی جہد مسلسل ہو یا انڈیپنڈنٹ پارٹی کی سیاسی جد وجہد، قریہ قریہ دعوت دین کا کام ہویا مدارس کی سرپرستی سب تحفظ شریعت اور دفاع اسلام ہی کے مختلف عنوان ہیں اور ہر عنوان ایک ضخیم کتاب کا مضمون، اس لیے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بجا لکھا ہے کہ ’’ہندوستان میں اسلام کی حفاظت و صیانت کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی وہ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری اور نا مکمل ہوگی؛ بلکہ میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ مولانا کے کالبد خاکی میں جو خون گردش کر رہا تھا اور جسم و جان کے رشتے کو بر قرار رکھنے کے لئے جو سانس کی آمد و رفت تھی اگر زبان حال کو سننے والے کان ہوتے تو معلوم ہو تا کہ وہ سب تحفظ شریعت ہی کے لئے وقت ہیں، حضرت نے خود بھی بریلویوں کے پیشوا مولوی رفاقت حسین کے نام ایک خط ’’مرقوم ۱۸؍ محرم الحرام ۱۳۹۷ھ میں لکھا تھا کہ میرا کام سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی اشاعت وتحفظ ہے۔ ‘‘ اس اجمال کی تفصیل اگر جاننی ہو تو مولانا کی زندگی کے مختلف اوراق الٹیے۔
ابھی طالب علمی (۱۹۳۲ء) کا زمانہ ہے، انگریزوں کے خلاف ایجی ٹیشن زوروں پر ہے، حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی قیادت میں تحریک چل رہی ہے اور جاں نثار شاگرد، ان کے جلومیں ہیں، گرفتاری سبھوں کے ساتھ اس جواں سال طالب علم کی بھی ہوئی، سہارنپور جیل میں قید وبند کی صعوبت، کھانے کی تکلیف، کرب ناک اور الم ناک زندگی کے شب و روز، حضرت مدنی اور بڑے بھائی ملاقات کے لیے جاتے ہیں، جیلر حبیب اللہ خورد و نوش میں آرام پہنچانے کی تجویز رکھتا ہے۔ حضرت سختی سے رد کر تے ہیں؛ کیونکہ یہ انتظام سارے ساتھیوں کے لیے نہیں ہو سکتا تھا، فکر ہے تو اپنی نمازوں کی، جو ہاف پینٹ اور کھلے ہوئے گھٹنے سے ادا ہو رہی تھی، مطالبہ کرتے ہیں تو صرف یہ کہ میرے اور ساتھیوں کے پینٹ میں اتنا کپڑا مزید جوڑ دیا جائے جس سے گھٹنا ڈھک جائے؛ تاکہ نمازیں ستر پوشی کے ساتھ ہو سکیں۔ یہ تھا شریعت پر عمل کا جذبہ اور تحفظ شریعت کے لئے پہلی کوشش۔
۱۹۳۶ء میں جدا گانہ انتخاب کے اصول پر مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کی طرف سے کھڑے ہوئے اور جیت کر آئے، ۱۹۳۸ء میں جب ’’زرعی انکم ٹیکس ‘‘ لگایا گیا اور اسمبلی میں اوقاف پر ٹیکس لگانے کا مسئلہ زیر بحث آیا، آپ نے پوری جرأت اور بے باکی کے ساتھ اس کی مخالفت میں اسمبلی میں تقریر کی، نوبت یہاں تک پہنچی کہ مولانا آزاد کو اس مسئلے کے حل کے لئے پٹنہ آنا پڑا، مولانا نے شریعت کی روشنی میں اپنا موقف مولانا آزاد کے سامنے رکھا، اسمبلی میں اوقاف بل پر بحث کرتے ہوئے شرعی موقف پیش کیا، یہ گفتگو اتنی مدلل اور مؤثر تھی کہ بالآخر اوقاف سرکاری ٹیکس سے مستثنیٰ کردئے گئے۔ حضرت کی یہ تقریر اسلامی اوقاف اور محصول کے نام سے ۱۹۳۹ء میں طبع ہوئی، اسے عبد الرحمن عثمانی نے طبع کرایا جو چھوٹے سائز کے انتیس صفحات پر مشتمل ہے۔ اب وہ رسالہ تو نہیں ملتا، البتہ یہ تقریر زین العابدین صاحب ایم اے کی مرتب کردہ کتاب ’’خطبات امیر شریعت ‘‘ میں شامل ہے۔
۱۹۳۹ء میں بہار اسمبلی میں ڈوری بل پیش ہوا، جس میں مہر اور جہیز کو جرم قرار دیا گیا تھا، مولانا نے اس بل کے مضمرات پر روشنی ڈالی اور اسلامی نقطۂ نظر پر مدلل خطاب فرمایا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ کیا گیا۔
1942ء میں مولانا کو یہ فکر پریشان کرتی رہی کہ بہار میں تحفظ شریعت اور تعلیم دین کے لئے ایک بڑے ادارے کی ضرورت ہے، جامعہ رحمانی ونگیر ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۴ء تک چل کر بند ہو گیا تھا، چنانچہ آپ نے نئی نسل کو اس لائن پر تیارکرنے کے لئے 1943ء میں جامعہ کو دوبارہ وجود بخشا اور اس سے صیانت دین کے لئے رجال کار کی تیاری اور فراہمی کا کام لیا، اس اعتبار سے یہ منفرد ادارہ تھا کہ یہاں طلبہ کی تربیت تو ہوتی ہی تھی، مختلف میدان کے لئے افراد تیار کئے جاتے تھے، یہ افراد معلمین بھی ہوتے تھے اور حضرت کے مرید و متوسلین بھی، یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کے آخری ربع میں جن لوگوں نے ملت کی قیادت کی اور تحفظ شریعت کی تحریک میں مولانا کے دست و بازو بنے، ان میں کئی نامور وہ ہیں جن کی مولانا نے خصوصی تربیت کی تھی، پھر تربیت کا نظام بھی ایسا، جسے دیکھ کر ’’درمدرسہ خانقاہ دیدم‘‘ کا مصداق سمجھ میں آئے۔ ان کی نگاہ کیمیا اثر نے کتنوں کو کام کا آدمی بنا دیا۔
۱۹۴۲ء میں بڑے بھائی مولانا لطف اللہ صاحب کے انتقال کے بعد خانفاہ رحمانی کے سجادہ نشیں ہوئے۔ خانقاہ کا لفظ ظاہری اعتبار سے اپنی معنویت کھو چکا تھا، اور اس کا مطلب چادر پوشی، نیاز وفاتحہ، عرس، قوالی وغیرہ سمجھا جاتا تھا، لوگ اس کے بارے میں بد گمانی میں مبتلا ہو رہے تھے اور ایک صاحب علم نے مروجہ تصوف کو’’چنیا بیگم‘‘ تک لکھ دیا تھا، مولانا نے خانقاہ رحمانی کو چادر پوشی، عرس، قوالی، محفل سماع اور دیگر مروجہ اشتغال سے پاک رکھا اور الحمد للہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کے عہد میں انہی نقوش پر کام ہو رہا ہے۔ جامعہ رحمانی نے اگر تعلیم و تربیت کے ذریعہ تحفظ شریعت کا کام کیا تو خانقاہ نے تصوف کے ذریعہ اسلامی قدروں کے فروغ کا کارنامہ انجام دیا۔
۱۹۵۷ء میںجب آپ امیر شریعت رابع منتخب ہوئے، تحفظ شریعت ہی کے لئے اپنے پہلے فرمان میں توسیع قضا کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا اور حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے ذریعہ امارت شرعیہ سے اللہ نے ایسا کام اس میدان میں لیا کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ ہی نہیں، مغلیہ عہد میں بھی اس کی نظیر کمیاب ہے۔ امارت شرعیہ کے دار الافتاء کو ایسا مضبوط کیا کہ دارالعلوم دیوبند کے بعد امارت شرعیہ کے فتاوے سکہ رائج الوقت کی طرح چلنے لگے اور آج بھی یہ سلسلہ پورے آب و تاب سے جاری ہے۔
آزاد ہندوستان میں جب سیکولر اور جمہوری حکومت کے ذریعہ مسلم پرسنل لا کو کالعدم کرکے یکسان سول کوڈ نافذ کرنے کی سازش کی جانے لگی تو مولانا نے مسلم پرسنل لا کی حفاظت کے لئے تاریخی جہد و جہد کا آغاز کیا، ۲۸؍ جولائی ۱۹۶۳ء کو امارت شرعیہ کے زیر اہتمام انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی، جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے فرمائی، مولانا ابواللیث اصلاحی امیر جماعت اسلامی نے افتتاح فرمایا۔ کئی سال کی تگ ودو کے بعد ۱۳؍ ۱۴؍مارچ ۱۹۷۲ء کو دارالعلوم دیوبند میں نمائندہ اجتماع ہوا اور اس کے فیصلہ کی روشنی میں ۲۷؍ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۷۲ء کو ممبئی میں وہ تاریخی اجلاس ہوا، جس میں بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی، اپریل ۱۹۷۳ء میں حیدرآباد اجلاس میں جنرل سکریٹری منتخب ہوئے اور تادم آخری اس عہدے پر فائز رہے۔ اس طویل مدت میں تحفظ شریعت کے لئے ایسی جد و جہد کی کہ ہر محاذ پر کامیاب ہوئے اور ہر بار حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا، آپ کی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں بورڈ پر مسلمانوں کا اعتماد بحال بھی ہوا اور بر قرار بھی رہا، مختلف مکتب فکر کے لوگوں کو لے کر چلنا اوراس شان بان سے چلنا کہ فروعی مسائل پس پشت چلے جائیں یہ انہیں کے ناخن تدبیر کا نتیجہ تھا۔ آپ نے پورے جوش سے اپنا موقف ملک کے سامنے رکھا اور اعلان کیا:
’’میں اس کے لئے تیار ہوں کہ ہماری گردنیں اڑادی جایں، ہمارے سینے چاک کر دئیے جائیں، مگر ہمیں یہ برداشت نہیں کہ ’’مسلم پرسنل لا ‘‘ کو بدل کر ایک ’’غیر اسلامی لا ‘‘ ہم پر لاد دی جائے ہم اس ملک میں با عزت قوم اور مسلم قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔‘‘
یہ خالی نعرہ اور لفاظی نہیں تھی؛ بلکہ مولانا نے پوری زندگی اس نعرہ کی عملی تجسیم میں صرف کردی۔
مولانا حامد الانصاری غازی لکھتے ہیں:
’’انہوں نے تحفظ شریعت کی تحریک ایسی بے جگری سے چلائی کہ چند برسوں میں گاؤں دیہات تک یہ تحریک پہنچ گئی، عوام و خواص نے ان کی صلاحیت کا لوہامان لیا۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ تحریک عرصہ تک ان کی جیب خاص سے چلتی رہی اور کبھی انہوں نے اس کے اظہار کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ‘‘ (صفحۃ ۱۰؍ نقوش وتاثرات)
۱۹۸۵ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جلسۂ سیرت النبیؐ کی صدارتی تقریر میں شیخ الجامعہ سید ہاشم علی اختر نے وحدت ادیان کی وکالت کی اور علماء کو قدامت پسند کہا، تو حضرت مولانا سے رہا نہ گیا، گو صدارتی تقریر کے بعد اس کا موقع نہیں تھا، لیکن مولانا نے کھڑے ہو کر پندرہ منٹ میں وحدت ادیان کے ابطال پر مدلل تقریر کی اور فرمایا :
’’مختلف قسم کے دین ایک نہیں ہو سکتے، بت شکنی اور بت سازی ایک ساتھ نہیں چل سکتی، دونوں میں سے کوئی ایک ہی عقیدہ قبول کیا جا سکتا ہے۔ وحدت ادیان ایک سیاسی نعرہ ہے وہ ملک کی سیاسی ضرورت ہو سکتی ہے۔ سچائی اور دینداری سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (نقوش ۴۱۶)
آزادی کے بعد انکم ٹیکس کے نئے قوانین سامنے آئے ۱۹۸۰ء میں جاری اس قانون میں وقف کی آمدنی پر بھی انکم ٹیکس لگانے کی گنجائش نکالی گئی اور اس طرح تمام اوقاف بھی انکم ٹیکس ادا کرنے والے اداروں میں شامل کر لئے گئے تو مولانا نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داروں کے ساتھ محترمہ اندرا گاندھی سے مل کر مسلم اوقاف کو اس سے الگ کرایا، مولانا نے اپنی گفتگو میں اس طرح کے ٹیکس کو مفاد وقت کے سخت خلاف اور شریعت میں مداخلت بتایا۔ (نقوش ۴۶۲)
تحفظ شریعت کے لئے مولانا نے جو کوششیں کیں، انہیں بنیادوں پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا، کارواں آج بھی رواں دواں ہے اور یہ سب حضرت امیر شریعت رابع کے لئے صدقۂ جاریہ ہے۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بصیرت فیچرس


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “تحفظ شریعت کے مرد میداں امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒ

  1. السلام علیکم
    ماشاء اللہ بہت عمدہ مضمون حضرت نے قلمبند فرمایا ہے اللہ حضرت کو اجرجزیل عطا فرمائےـ
    پر ایک گزارش یہ ہےکہ شاید جامعہ رحمانی کی نشأة ثانيه کی ٹائپنگ میں چوک ہو گئی ہے اور ۱۹۴۲ء کے بجائے ۱۹۴۳ تحریر ہوگیا ہے
    اسلئے اس مضمون میں سنہ کو درست فرمالیں. فقط والسلام

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں