شاہ عبد الحق محدث دہلوی اور معمولات تصوف: ایک معروضی مطالعہ

شاہ عبد الحق محدث دہلوی اور معمولات تصوف: ایک معروضی مطالعہ

ہندوستانی صوفی ادب کے ایک معروضی مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ روحانیت اور تصوف سے متاثر ہندوستان کی بہت سے اولین اسلامی شخصیات کو آج غلطی سے ہندوستان میں وہابیت کے بانیان اور نظریہ سازوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہماری اجتماعی غفلت اور علمی جمود و تعطل کی وجہ سے تصوف و روحانیت، انسانی فلاح و بہبود اور انسانی وسماجی خیر سگالی کے اصولوں کی حفاظت وپاسداری اور اشاعت میں ہندوستانی صوفیاء کرام کی اہم خدمات کہیں گم ہو کر رہ گئی ہیں۔ جو لوگ سواد اعظم اور مرکزی دھارے میں شامل مسلمانوں کی نمائندگی کا پر زور دعویٰ کرتے ہیں انہیں اس افسوسناک حقیقت کا علم ہونا چاہیے کہ صوفیائے ہندوپاک کی تصنیفات کا ایک معتد بہ ذخیرہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکا ہے ۔ برسوں سے اب تک وہ یا تو مسودات کی شکل میں ہی موجود ہے یا پھر ان کا عربی وفارسی سے عام فہم زبانوں میں ترجمہ نہیں ہو سکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے جہلاء اور خودساختہ علماء اور اسلامی اسکالرز ان کے افکار ونظریات کی غلط ترجمانی کر رہے ہیں اور بعض دفعہ ان کی اہانت وملامت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
ایسی ہی ایک مثال 11ویں صدی کے معروف اسلامی محقق، صوفی اور امام اہل سنت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958-1052) کی ہے ۔ اسلامی علوم و فنون میں ماہر کامل اور صوفی معمولات و معتقدات میں رچی بسی ہوئی ان کی عہد ساز شخصیت نے احیاء دین و سنیت اور ہندوستانی مسلمانوں کی روحانی رہنمائی میں تاریخی خدمات انجام دی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہو گا کہ ہندوستان میں 11ہویں صدی کے اوئل سے لے کر 13ہویں صدی کے اواخر تک تقریبا تمام کلاسیکی اسلامی علوم میں قابل ذکر خدمات اور تحقیقات شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی زبر دست عالمانہ کاوشوں اور دانشورانہ جد و جہد کا ہی نتیجہ ہیں۔
شیخ محدث دہلوی جنہیں بہت سے نامور مورخین “برصغیر میں اسلامی ادب کا سرخیل” مانتے ہیں، احادیث کی روایت و درایت اور جرح و تعدیل میں زبردست ماہر تھے۔ ان کے والد گرامی حضرت سید موسی گیلانی قادری کے مرید شیخ سیف الدین ترک بخاری تھے۔ تصوف کے ساتھ گہری وابستگی اور اسلامی علوم میں مہارت تامہ کی وجہ سے وہ غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے روحانی تحریک کا مصدر و سر چشمہ تھے۔ خاص طور پر دہلی میں صوفیاء کے دلدادہ افراد اب بھی ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔ شیخ محدث دہلوی 996ہجری میں حج کے لیے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے ۔ اس دور میں حرمین شریفین (مکہ و مدینہ) کے صوفی علماء سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے چند سال تک وہیں رہے۔ اپنا زیادہ تر وقت حجاز میں شیخ متقی کی صحبت میں گزارا جنہوں نے ان کی مکمل روحانی تربیت فرمائی۔ اس طرح انہوں نے اسلامی علوم اور صوفی معمولات میں مہارت حجاز میں دور اوائل کے صوفیاء کرام کی سرپرستی میں حاصل کی۔
شیخ محدث دہلوی محض ایک صوفی بزرگ ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک مستند اسلامی محقق، کثیر التصانیف عالم دین، مفسر قرآن اور علوم حدیث میں ماہرکامل بھی تھے۔ انہوں نے روحانی تعلیمات اور اسلامی تصوف سے مزین علوم وفنون اور روحانیات پر 116 کتابیں تصنیف کیں۔ اسلامی علوم اور خاص طور پر تصوف پر عالمی سطح پر شہرت یافتہ ان کی کتابوں میں سے چند یہ ہیں: اشعۃ اللمعات، (مشکوٰۃ میں مندرج احادیث کی ایک عالمانہ و محققانہ شرح)، “تاریخ المدینہ” (تاریخ اسلام پر ایک تحقیقی تصنیف)، “مدارج النبوۃ” (نبوت اور اس کی صفات پر ایک اہم تصنیف)، “اخبار الاخیار” (جنوبی ایشیا میں تصوف کی تاریخ پر ایک جامع کتاب)، “زاد المتقین فی سلوک الیقین” (شیخ علی المتقی اور ان کے شاگرد شیخ عبد الوہاب بن ولی اللہ متقی کی روحانی تعلیمات و ارشاداتکا مجموعہ)، “تکمیل الایمان” (ایک ایسی کتاب جس میں خاص طور پر اہم اسلامی عقائد اور عام طور پر علم کلام سے بحث کی گئی ہے)۔
اپنی تحریروں میں شیخ محدث دہلوی نے اکثر “علوم فلسفہ” اور “ایمان کی تفہیم” کے درمیان ایک تقابلی جائزہ پیش کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے علم کلام کے عقلی تصورات کی بھی وضاحت پیش کی ہے۔ ان کی تصنیفات نے صوفی معتقدات کی گہری بصیرت حاصل کرنے میں بہت سے لوگوں کی مدد کی ہے۔ شیخ دہلوی نے قرآنی احکامات اور صوفیانہ مراسم ومعمولات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کو بھی بڑی اہمیت دی ہے۔
شیخ محدث دہلوی نے اسلام اور تصوف کی متعدد کتابوں کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے سلسلہ قادریہ کے بانی شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی کے مواعظ کے تاریخی دستاویز “فتوح الغیب” کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ اب ہم ذیل میں شیخ دہلوی کتابوں سے چند ایسے اقتباسات پیش کر رہے ہیں جن کا تعلق معمولات تصوف اور مراسم عشق وعرفان سے ہے:
ذکر جلی کے صوفیانہ عمل کی وضاحت میں شیخ محدث دہلوی رقم طراز ہیں:
“اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اونچی آواز میں ذکر کرنا جائز ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ خود قادر مطلق کا اعلان ہے کہ:۔” خدا کا ذکر اسی طرح کرو جس طرح تم اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کیا کرتے تھے” (اشعۃ المعات، جلد 2، صفحہ 278)۔ یہ اس قرآنی آیت کی ایک صوفیانہ توضیح ہے کہ: “پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو”۔ (سورہ النساء آیت 103)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت ہے کہ : “جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے آخر میں سلام پھرتے تو بلند آواز میں کلمہ شہادت کے الفاظ اس طرح کہتے تھے “لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ”(مشکوٰۃ، صفحہ 88)۔ صوفیاء کرام کلمہ شہادت کے اس حصے کو وحدت الوجودکے خوبصورت نظریے کے ایک ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس حدیث کی تفسیر میں شیخ محدث دہلوی فرماتے ہیں: “یہ حدیث اس بات کا ایک واضح ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذکر فرمایا کرتے تھے”۔ (اشعۃ المعات، جلد1، صفحہ 419)
جیسا کہ صوفیوں کے دل اللہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی گہری محبت سے بھرے ہوتے ہیں، شیخ محدث دہلوی کا دل بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتھاہ محبت سے بھرا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے روحانی لگاؤ کا اندازہ اللہ وحدہ لاشریک سے ان کی اس محبت اور اطاعت شعاری سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے خود اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ نماز میں وہ اکثر اللہ سے یہ دعا مانگتے تھے: “اے پروردگار! میرے پاس ایسے اعمال نہیں ہیں جو میں تری بارگاہ میں پیش کر سکوں۔ میں اپنی پوری زندگی گناہوں اور برے کاموں میں مشغول رہا۔ تاہم، اس خاکسار بندے کے پاس ایک ایسی نیکی ہے جو تیرے رحم و کرم کی تلاش میں تیری بارگاہ میں پیش کی جا سکتی ہے۔ اور وہ تیرے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر میرا درود و سلام ہے جو میں ہمیشہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک محفلوں میں کھڑے ہو کر اپنے پورے خلوص اور محبت کے ساتھ بھیجتا ہوں”(اخبار الاخیار، صفحہ: 644)۔
یہ اس بات کا ایک پختہ ثبوت ہے کہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک کا جشن منانے کے صوفی معمول کی تائید و توثیق کی ہے جسے برصغیر میں میلاد کے طور پر جانا جاتا ہے اور مسلم دنیا کے دیگر حصوں میں مولد کے طور پر۔ اس صوفی معمول کی حمایت میں شیخ محدث دہلوی نے تصوف کی اپنی بے شمار کتابوں میں کئی کئی صفحات سیاہ کیے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے ‘ما ثبت من السنۃ’ کے نام سے مستند احادیث پر اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ : “مسلمان ہمیشہ سے ربیع الاول کے مہینے میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے آئے ہیں۔ وہ ہمیشہ اس مہینے میں رات و دن خیرات و صدقات لٹاتے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں شکر بجا لاتے ہیں اور پورے جوش جذبہ کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ مسلمانوں کا ایک مشترکہ معمول ہے جو وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے موقع پر پوری مسرتوں اور شادمانیوں کے ساتھ مناتے ہیں۔ “(ما ثبت من السنۃ، صفحہ 82، شائع کردہ:- قیومی پریس، کانپور، الگست 1923)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شب ولادت کا ذکر کرتے ہوئے وہ مزیدفرماتے ہیں: “بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شب ولادت شب قدر سے بھی افضل ہےکیوں کہ شب ولادت سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا میں جلوہ گر ہونے کی رات ہے جبکہ لیلۃ القدر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کردہ شب ہے، اور جو رات ظہور ذات مقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے مشرف ہو وہ اس رات سے زیادہ شرف و عزت والی ہے جو ملائکہ کے نزول کی بناء پر مشرف ہے۔ اس کے علاوہ لیلۃالقدر صرف امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک نعمت ہے لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شب ولادت مذہب و مسلک سے قطع نظر تمام انسانوں کے لئے ایک نعمت ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا۔ اور اللہ نے انہیں کے ذریعہ زمین و آسمان میں اپنی تمام مخلوقات پر اپنی برکتیں مکمل فرمائی۔”(ایضا)
جشن میلاد کے جواز میں شیخ محدث دہلوی نے خوبصورتی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشخبری لانے والی باندی ثوبیہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ابو لہب کے عذاب میں تخفیف کے واقعہ کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ : “یہ واقعہ ان لوگوں کی حمایت میں ایک واضح ثبوت ہے جو ولادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشیاں مناتے ہیں اور اس رات صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔ (شیخ محدث دہلوی کے زمانے میں) 12 ربیع الاول کو اہل مکہ اس گھر کے پاس جمع ہوتے تھے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی تھی۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو لہب کے بھتیجے تھی اور جب ثوبیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خبر لیکر اس کے باس آئی تو اس نے اسے آزاد کر دیا اسی لیے کافر ہونے کے باوجود ہر پیر کے دن اس کے عذاب قبر میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ان لوگوں پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا عالم کیا ہوگا جو یہ مانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے محبوب اور اس کے سچے رسول ہیں اور مستقل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن میلاد مناتے ہیں۔ “(مدارج النبوۃ، جلد 2، صفحہ 34، ضیاء القرآن پبلیکیشن)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے 1052 ہجری بمطابق 1642 عیسوی کو 94 سال کی عمر میں 21 ربیع الاول کے دن داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس وقت ہندوستان میں شاہجہاں کی حکومت کا دور تھا۔ آپ کا مزار دہلی کے مشہور علاقے مہرولی میں واقع ہے۔ اصل مزار مرکز میں ہے جس کے چاروں طرف وہاں مدفون بہت سے صوفیائے کرام کے مزارات ہیں۔

غلام رسول دہلوی
(بصیرت فیچرس)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں