حق شہریت سے محروم برما کے مظلوم مسلمان !

حق شہریت سے محروم برما کے مظلوم مسلمان !

میانمار جنوبی ایشیا کا ایک غریب ترین ملک ہے۔اس کی سرحدیں ہندوستان ، بنگلہ دیش، چین اور تھائی لینڈ سے ملتی ہیں۔ 676578 کیلو میٹر کے رقبہ پر یہ ملک محیط ہے۔یہاں کی کل آبادی51 میلین افراد پر مشتمل ہے جس میں تیرہ لاکھ مسلمان بھی شامل ہیں۔یہاں اکثریت بڈھسٹوں کی ہے۔اور یہی یہاں کا قومی مذہب ہے۔80 فی صدر بڈھست ہیں۔ 6 فی صی برمی مذہب کے لوگ ہیں۔5 فیصد پروٹسٹینٹ عیسائی ہیں۔ 4 فی صدمسلم آبادی ہے۔ہندؤوں کی آباد ی دو فیصد ہے۔ایک فی صد کیتھولک عیسائی ہیں۔
میانمار کا قدیم نام برما ہے۔ مانڈلے اور اس کے اطراف میں قیام پذیرقبیلہ کا نام میانمار ہے جو نویں صدی عیسوی میں تبت اور چین سے یہاں پہنچے تھے۔گیارہویں صدی میں ان کو انوراٹھا نے متحد کیاجنہوں نے پگان کو دارالحکومت بنایا اور بودھ مذہب کو درآمد کیا۔1287ء میں قبلائی خان نے برما پر حملہ کرکے ملک کو کئی حصوں میں تقسیم کردیاجس کے بعد شان قبیلہ کے افراد اقتدار پر قابض ہوگئے۔ سولہویں صدی عیسوی میں ٹنگو خاندان کی حکومت قائم ہوئی۔اٹھارہویں صدی میں الونگ پھیہ نے وہاں جاری شورش کو کچلنے میں کامیابی حاصل کی اور ہندوستان پر لشکر کشی کرکے اپنی سلطنت کو وسعت دی۔1784 میں میں برمی راجہ بودھوپیہ نے ارکان پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔اس سے پہلے اراکان ایک آزاد خودمختارملک تھا۔1826میں ارکان اور تناسرم برٹش انڈیا کے ماتحت آگیا۔برما اس سے دست بردار ہوگیا۔اس کے بعد1852 میں ہونے والی دوسری اینگلو برمن وارمیں وسطی برما اور1885 میں ہونے والی تیسری اینگلو برمن وارمیں بالائی برما اور1890 میں شان اسٹیٹ پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔جنوری 1948میں برطانیہ سے سے آزادی ملی۔جس کے بعد یہاں کی قدیم قوم میانمار نے اپنے نام سے اس ملک کا نام برما سے بدل کر متحدہ جمہوریہ میانمار رکھا۔1962 میں پھر یہاں فوجی حکومت قائم ہوگئی اور یہ 2011 تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔
برما میں مسلمانوں کی تاریخ 1430کے دور سے ہی ملتی ہے۔مورخین کے مطابق 1430 میں ماروک علاقے کے راجہ بارا میکھلانے ارکان صوبے پر چڑھائی کرنے کے لئے بنگال کے سلطان سے مددطلب کی تھی۔چناں چہ انہوں نے بنگال کے سلطان جلا ل الدین محمد شاہ کی فوج کی مدد سے ارکان صوبے پر اپنا تسلط قائم کیا جس کے بعد اسی زمانے میں بنگال کے مسلمان فوجی وہاں آباد ہوگئے۔ اس جنگ کے معاوضے کے طور پر ارکان کے راجہ نے وہاں کے کچھ علاقے بھی بنگالی سلطنت کی تحویل میں دے دیئے جن پر مسلم آبادیاں بسائی گئیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بعد طویل عرصہ تک اراکان میں بنگالی اسلامی سکوں کا چلن جاری رہا۔اراکان کا راجہ جو سکے ڈھلواتا تھا اس میں ایک طرف برمی زبان لکھی ہوئی ہوتی تھی اور دوسری طرف فارسی زبان۔ یہ سلسلہ 1666تک جاری رہا۔ سلطنت بنگال سے علاحدگی کے بعد بھی لمبے عرصے تک برما کے بودھ راجہ اپنے لئے مسلم خطابات استعمال کرتے رہے۔ 1785میں برمانے اس خود مختار ریاست پر قبضہ کرلیا اور ہزاروں اراکانی باشندوں کو قتل کردیا۔ برما کی اس قتل و غارت گری سے خوف زدہ ہوکر بڑی تعداد میں اراکانی عوام صوبہ بنگال میںآگئی جہاں اس وقت برٹش حکومت تھی۔ 1826میں جب برطانوی حکومت کا دائرہ برماتک پہچ گیا تو بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو کاشتکاری کے لئے وہاں منتقل کریا گیا۔یہی وہ مسلمان ہیں جن کو آج روہنگیا مسلمان کہاجاتا ہے۔1869 کی مردم شماری کے وقت وہاں کی مسلم آباد ی 5 فی صدتھی۔میانمارحکومت کا دعوی ہے کہ برما میں آباد جتنے بھی مسلمان ہیں یہ سب کے سب بنگال سے آئے ہوئے۔ یہ حقیقی شہری نہیں ہیں۔ان کے بقول روہنگیا لفظ کبھی برما میں رائج ہی نہیں رہا۔اس لئے روہنگیا مسلمانوں کو برما کی شہریت نہیں دی جاسکتی ہے۔ جب کہ تاریخی سچائی یہ ہے کہ روہنگیا ئی مسلمان وہاں چودہویں صدی سے آباد ہیں۔ 1799میں فرانسس ہملٹن نے اپنی کتاب محمڈن میں ارکان میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے Rooingaکا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہی لفظ وہاں کے مسلمان خود اپنے لئے استعمال کرتے تھے جس کی بدلی ہوئی شکل روہنگیا ہے۔
1982میں جنرل نی ون کی ایک فوجی حکومت نے ایک نیا شہریت کا قانون پاس کیا جس کے تحت روہنگیا ئی مسلمانوں کی شہریت رد کردی گئی۔ شہریت رد کئے جانے کا مطلب یہ تھا کہ انہیں تمام ترحقوق سے محروم کردیا گیا۔ ان کی حیثیت غیر ملکیوں کی طرح ہوگئی جنہیں صحت ، تعلیم ، روز گار ،شادی ، تجارت سمیت کسی بھی بنیادی سہولت کا حق حاصل نہیں ہوتا ہے۔تازہ قیامت 2012 میں اس وقت شروع ہوئی جب یہ افواہ پھیلی کہ ایک روہنگیا نے بدھ لڑکی کے ساتھ ریپ کیا ہے۔اس خبر کا پھیلنا تھاکہ عوام اور فوج دونوں روہنگیا پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑی۔وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا۔لاکھوں لوگ بے گھر کردیئے گئے۔دوسو کے قریب ہلاک کردیئے گئے۔ پچاس ہزار سے زائد بنگلہ دیش سرحد کے قریب پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد روہنگیا پر میانمار کے ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی ایسا مہینہ اور ہفتہ نہیں جاتا ہے جس میں روہنگیا ئی مسلمانوں پر ڈھائے جارہے ستم کی خبر نہ آتی ہو۔ان دنوں ایک ایسی ہی خبرروہنگیائی مسلمانوں کے تعلق پوری دنیا کے مسلمانوں کو پریشان کئے ہوئی ہے۔تقریبا ایک ماہ سے دس ہزار روہنگیائی مسلمان کھلے آسمان میں سنمدروں کا چکر کاٹ رہے ہیں۔ بحر ہند میں مہینوں سے وہ غوطے کھارہے ہیں۔ لیکن کوئی ملک انہیں اپنے یہاں ٹھکانہ دینے کو تیار نہیں ہے۔پڑوس میں واقع مسلم ریاست بنگلہ دیش ان پر اپنے دروازے بند کر چکی ہے۔انڈونیشیا کی حکومت انہیں اپنے ساحل پر اترنے اورانہیں کسی بھی قسم کی مدد دینے کے لئے تیارنہیں ہے ،ملیشیاکی حکومت بارباراعلان کررہی ہے کہ بحرہندمیں بھٹکنے والی روہنگیائی مسلمانوں کی کوئی کشتی ان کے ساحل کا رخ کرے توگرفتارکرلیاجائے گا،غرض تینوں مسلم ممالک میانمار میں ظلم و ستم سے بچنے کے لیے ہجرت کرنے والے روہنگیائی مسلمانوں کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں دوسری طرف غیرمسلم ریاست تھائی لینڈبھی اپنے ساحلوں سے انہیں غذااوراشیاء4 خوردنوش دینے سے مکمل طورپرانکار کرچکی ہے۔پوری دنیامیں ان مظلومین کی آہ پہنچنے کے بعد مسلمان ریاست ملایشیانے ایک کشتی کے تین سو سترمسافروں کو اس شرط اپنے یہاں پناہ دی ہے کہ واپس ان کے ملک برما بھیجا جائے گاجہاں سے وہ محض اس لئے بھاگ رہے ہیں کہ انکی جان کوشدیدقسم کے خطرات لاحق ہیں۔ ادھر ترکی سے خبریں آئی ہے کہ ترکی حکومت نے سمندر میں محصور مسلمانوں کی مدد کے لئے تین کشتیاں روانہ کی ہے۔
روہنگیائی مسلمانوں کی اس بدترین صورت حال کے لئے مسلم ممالک اور اقوام متحدہ دونوں ذمہ دار ہے۔ دنیا بھر میں 57 سے زائد مسلم ممالک موجود ہیں لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہورہی ہے کہ اپنی زمین میں سے کچھ حصہ ان بے گھر مسلمانوں کو بھی دے دیں جو بے کسی کی آخری دہلیز پر پہچ چکے ہیں۔زمین کشادہ ہونے کے باوجود ان پر نہ صرف تنگ ہوچکی ہے بلکہ انہیں پاؤں رکھنے کے لئے خشکی پر ایک انچ زمین نہیں مل رہی ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں کے تعلق سے سب سے شرمناک کردار اقوام متحدہ کا ہے جس کی تمام تر جدوجہد صرف زبانی مذمت تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ برسوں سے برمامیں جاری مسلمانوں کے قتل عام سے وہ لا پرواہ ہے۔ اسے صرف مشروق وسطی میں جاری خانہ جنگی کی فکر ہے۔ گاجر مولی کی طرح کاٹے جارہے برمی مسلمانوں کے لئے ان کے یہاں کوئی قانو ن اور ضابطہ نہیں ہے۔ انسانیت کی بیخ کنی کرنے والی میانمار حکومت پر شکنجہ کسنے کے لئے اقوام متحدہ نے اب تک کو ئی اصول مرتب نہیں کیا ہے۔

شمس تبریز قاسمی
بصیرت آن لائن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں