چھٹیاں کیسے گزاریں؟

چھٹیاں کیسے گزاریں؟

ابھی کل کی ہی تو بات ہے کہ نئے سال کی ابتدا ، قدیم اور جدید داخلوں کے لیے مفوضہ ذمہ داریوں کی مصروفیت، قدیم اور جدید طلبا کی آمد، نئی کتب، نئے اسباق ملنے پر ذوق وشوق کے ساتھ تیاریاں عروج پر تھیں۔

اور آج !گویا پلک جھپکتے ہی وقت کا پنچھی ایک سال کے عرصے کو ایک جست میں ہی اُڑا کے لے گیا، وراثتِ نبوت کو حاصل کرنے کی طلب میں آنے والے مہمانانِ رسول نے اپنے ظروف میں اپنی اپنی وسعت ومحنت اور مساعی جمیلہ کے ساتھ بھرا ؛ اور علم وعمل کے میدان میں ترقی کی منازل طے کرتے رہے، اللہ رب العزت سب طالبین کو ان کے علوم ِ دینیہ سے دنیا وآخرت میں مستفید فرمائے، اب جب کہ تعلیمی سال کا اختتام بالکل سروں پر ہیں اور تعطیلات ِ سنویہ کی آمد آمد ہے تو مفید معلوم ہوا کہ سال کی انتہا اور تعطیلات کے بہتر سے بہتر گذارنے سے متعلق کچھ باتیں طلبا ساتھیوں کے گوش گذار کر دی جائیں، شاید کہ کسی کے سامنے اُس کے فائدے کی کوئی بات آجائے اور وہ اُس پر عمل پیرا ہو کر اپنے اس فرصت کے زمانے کو بھی قیمتی بنا لے۔

پہلا کام(معافی تلافی)
تعطیلاتِ سنویہ سے قبل امتحانات کے اس زمانے میں خاص طور پر اور سال کے ہر مہینے، مہینے کے ہر ہفتے، ہفتے کے ہر دن اور دن کے ہر منٹ اور ہر لمحے ہمارا معاملہ بندگانِ خدا کے ساتھ خاص طور پر ؛ اور خدائے بزرگ وبرتر کے ساتھ عام طور پر ؛ ایسا ہونا چاہیے کہ نہ تو اللہ اور اس کے بندے ہم سے ناراض وخفا ہوں اور نہ ہی ہم اللہ اور اس کے بندوں سے ناتا توڑے ہوئے ہوں، حقوق اللہ اور حقوق العباد میں ہمارے کردار اور اعمال کی ترازو جھکنی ہی چاہیے ، ورنہ ڈر ہے کہ دنیا وآخرت کی رُسوائیاں اور خُسران ِ عظیم ہمارا مقدر ہی نہ بن جائے ، اور کل قیامت کے روز ”صلہ رحمی “کی پکار:”مَنْ وَصَلَنِيْ وَصَلَہ اللّٰہُ، وَمَنْ قَطَعَنِيْ قَطَعَہ اللّٰہُ“․(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 6683)کو قبول کرتے ہوئے ہمارے لیے تباہی وبربادی کا فیصلہ کر دیا گیا تو یہ بربادی ایسی بربادی ہو گی کہ جس کا تدارک اُس وقت ہم سے نہیں ہو سکے گا۔

اس لیے آج وقت ہے کہ ہم زندگی کے ان حاصل شدہ ایام میں ہر کسی سے اپنا معاملہ صاف کر لیں، کوئی ہم سے ناراض ہے، تب بھی۔ اور کسی سے ہم ناراض ہیں، تب بھی۔ ظلم، زیادتی اور نا انصافی ہماری طرف سے ہے، تب بھی۔ اور ظلم، زیادتی اور نا انصافی دوسرے کی طرف سے ہے، تب بھی۔ اگر پہلی صورت ہے ، تو ! اس صورت میں تو بہرحال ہم پر لازم ہے کہ فی الفور مدمقابل سے معافی مانگ کر اپنا معاملہ صاف کر لیں، وگرنہ! ہم پر ”مفلسِ حقیقی“ کا لیبل چسپا ں کر کے جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں منہ کے بَل پھینک دیا جائے گا۔ اور اگر ظلم، زیادتی اور نا انصافی دوسرے کی طرف سے ہے تو پھر بھی آگے بڑھ کے اُسے اپنے سینے سے لگا لیں،اسے معاف کر دیں، جی ہاں! اس لیے کہ اس صورت میں رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم ہمارے لیے ضامن بنتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ اس بندے کو جنت کے اوپر والے حصے میں عالی شان محل بنوا کر دیں گے۔“(قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ” أَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِيْ رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَاءَ وَإِنْ کَانَ مُحِقّاً․“ سنن أبي داوٴد، رقم الحدیث: 4802) اور یقینا نفع ہی نفع کا سودا ہے۔

اس اہم کام کو سر انجام دینے کے لیے تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ کسی کا، کسی طالب ِ علم سے، مدرسہ کے عملہ کے کسی بھی فرد سے، اپنے اساتذہ میں سے کسی سے یا مدرسہ کے متعلقین کے علاوہ کسی سے بھی کوئی ناراضگی یا قطع تعلقی والا معاملہ تو نہیں ؟! اگر ہے تو خُدا را ! کل یا پرسوں نہیں ،بلکہ آج ہی اُس کو حل کرنے کی سو فی صد کوشش کریں۔

دوسرا کام(حقوق کی ادائیگی)
معافی تلافی اور صلح کے بعد اہم ترین کام حقوق ِمالیہ واجبہ کی ادائیگی کاہے، مثلاً: کسی کا قرض ذمہ میں ہے، تو اس کی ادائیگی کی فکر کر لی جائے، اگر ادائیگی فی الفور ممکن نہیں ہے تو بطورِ وصیت اپنے پاس اپنی ڈائری میں یا کسی بھی جگہ (جہاں بصورت ِانتقال دوسروں کی دسترس ہو جائے)اُس قرض کی تفصیل نقل کر لی جائے، اسی طرح اگر دوسروں کی امانتیں اپنے پاس ہوں توجانے سے قبل ان کی ادائیگی بھی کر دی جائے یا کم ازکم ان کی تفصیل کا اندارج بھی اپنے پاس کر لیا جائے

انہی چیزوں میں سے ایک چیز یہ ہے کہ جامعہ سے مستعار لی ہوئی وقف والی کتب بروقت واپس کر دی جائیں۔

تیسرا کام ( خروج فی سبیل اللہ)
تعطیلات کے دوران اپنے اندر صفاتِ حسنہ پیدا کرنے کے لیے ، اپنے ایمان کو درجہ ٴ کمال تک پہنچانے کے لیے، اپنے اندر پائی جانے والی اعمال ِ صالحہ کی کمی دور کرنے کے لیے اور خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے سپرد کی گئی دعوت وتبلیغ کی ذمہ داری کو بحسنِ خوبی اداکرنے کے لیے مطلوبہ استعداد اپنے اندر حاصل کرنے کی غرض سے دعوت و تبلیغ کے لیے نکلنے والی جماعتوں کے کاروان میں شامل ہوا جائے، سارا سال اغلب طور پر علمِ الہٰی کے حصول میں اور تعلطیلات کا زمانہ اس علمِ الہٰی کی تبلیغ، ترویج اور اشاعت میں گزار لیا جائے تو تجربات، مشاہدات اور حضرات ِ اکابرین کے ملفوظات کی روشنی میں بالجزم کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعد از فراغتِ مدرسہ اپنے ایسے بندوں کو اشاعتِ دین کے مختلف الانواع شعبوں میں سے کسی نہ کسی شعبے کے ساتھ کسی نہ کسی درجے میں ضرور وابستہ رہنے کی توفیق مرحمت فرما دیتے ہیں۔

رائے ونڈ کے زمانہ ٴ تعلیم میں استاذِ محترم داعی کبیر حضرت مولانا احسان الحق صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے بارہا یہ بات سنی کہ ” جو طالبِ علم زمانہ تعلیم میں اپنی چھٹی اور فرصت کے اوقات کو تبلیغ کی محنت میں استعمال کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فراغت کے بعد اُسے اپنے دین کی خدمت کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں۔“

ذیل میں بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس دہلوی رحمہ اللہ اور بعض دیگر اکابرینِ امت کے اقوال پیش کرتا ہوں کہ اہلِ علم کے لیے زمانہ تعلیم میں ہی اس کام میں شمولیت کس قدر ضروری ہے!

تبلیغی جماعت کے ساتھ اہلِ علم طبقہ کی شمولیت کی اہمیت
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ اپنی تصنیف ”مولاناالیاس  اور ان کی دینی دعوت“ میں لکھتے ہیں کہ آپ (حضرت مولانا محمد الیاس صاحب دہلوی رحمہ اللہ)نے اپنے نزدیک اس کا فیصلہ کر لیا تھا کہ جب تک اہل علم اس کام کی طرف متوجہ نہ ہوں گے اور اس کی سرپرستی نہ کریں گے اس وقت تک اس اجنبی دعوت اور اس نازک کام اور لطیف کام کی طرف سے(جس میں بڑی دقیق رعایتیں اور نزاکتیں مطلوب ہیں)اطمینان نہیں کیا جاسکتا۔آپ کو اس کی بڑی آرزو تھی کہ” اہل“ اشخاص اس کام کی طرف توجہ کریں اور اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں کو اس کام کے فروغ میں لگائیں، جس سے اسلام کے درخت کی جڑ شاداب ہو گی پھر اس سے اس کی تمام شاخیں اور پتیاں سر سبز ہو جائیں گی۔“

اہل ِ علم کے لیے طرزِ محنت
اس سلسلے میںآ پ (حضرت مولانا محمد الیاس صاحب دہلوی رحمہ اللہ)علما سے صرف وعظ وتقریر ہی کے ذریعے اعانت نہیں چاہتے تھے بلکہ آپ کی خواہش اور آپ کا مطالبہ علماء ِعصر سے سلفِ اوّل کے طرز پر اشاعت ِ دین کے لیے عملی جدوجہداور در بدر پھرنے کا تھا۔

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاصاحب (نور اللہ مرقدہ)کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
”عرصے سے میرا اپناخیال ہے کہ جب تک علمی طبقہ کے حضرات اشاعت ِ دین کے لیے خود جا کر عوام کے دروازوں کو نہ کھٹکھٹائیں اور عوام کی طرح یہ بھی گاوٴں گاوٴں اور شہر شہر اس کام کے لیے گشت نہ کریں، اس وقت تک یہ کام درجہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا ، کیوں کہ عوام پر جو اثر اہل ِعلم کے عمل و حرکت سے ہو گا، وہ ان کی دھواں دھار تقریروں سے نہیں ہو سکتا، اَسلاف کی زندگی سے بھی یہی نمایاں ہے جو کہ آپ حضرات اہلِ علم پر بخوبی روشن ہے۔“

طلباء ِ کرام کے تبلیغ میں اشتغال کی حیثیت
درس و تدریس سے تعلق رکھنے والے بعض بزرگوں کو شبہ تھا کہ تبلیغ و اصلاح کی اس کوشش میں مدرسین اور طلباء ِ مدارس کا اشتغال ،ان کے علمی مشاغل اور علمی ترقی میں حارج ہو گا،لیکن آپ جس طرح اور جس منہاج پر علماء ِ مدارس اور طلباء سے یہ کام لینا چاہتے تھے وہ در حقیقت علماء اور طلبہ کے علوم کی ترقی اور پختگی کا ایک مستقل انتظام تھا،ایک گرامی نامہ میں (حضرت مولانا محمد الیاس صاحب دہلوی رحمہ اللہ)لکھتے ہیں:

”علم کے فروغ اور ترقی کے بقدر اور علم ہی کے فروغ اور ترقی کے ماتحت دینِ پاک فروغ اور ترقی پا سکتا ہے، میری تحریک سے علم کو ذرا بھی ٹھیس پہنچے یہ میرے لیے خسرانِ عظیم ہے، میرا مطلب تبلیغ سے ، علم کی طرف ترقی کرنے والوں کو ذرا بھی روکنا یا نقصان پہچانا نہیں ہے،بلکہ اس سے بہت زیادہ ترقیات کی ضرورت ہے اور موجودہ مسلمان جہاں تک ترقی کر رہے ہیں یہ بہت ناکافی ہے“۔

طلباء کے لیے زمانہ طالبِ علمی میں محنت کرنے کا طریقہ
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب دہلوی رحمہ اللہ چاہتے تھے کہ اس تبلیغی کام ہی کے ضمن میں طلبہ اپنے اساتذہ ہی کی نگرانی میں اپنے علوم کے حق ادا کرنے کے لیے نافع ہوں ۔ ایک گرامی نامے میں لکھتے ہیں:

”کاش کہ تعلیم ہی کے زمانے میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اساتذہ کی نگرانی میں مشق ہو جایا کرے تو علوم ہمارے نفع مند ہوں، ورنہ ، افسوس کہ بے کار ہو رہے ہیں، ظلمت اور جہل کا کام دے رہے ہیں،إنا للہ وإنا إلیہ راجعون“۔بہرحال اپنی اس دعوت کو اعلیٰ علمی ودینی حلقوں میں پہچانے کے لیے آپ نے جماعتوں کا رُخ دینی مرکزوں کی طرف کیا۔ (مولاناالیاس  اور ان کی دینی دعوت، ص:109،مکتبہ دینیات)

علم میں ترقی کا طریقہ
علم کی طرف ترقی کے لیے مولانا کے نزدیک دوسری شرط یہ تھی:
”یاد رکھو، کوئی عالم علم میں ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ جو کچھ سیکھ چکا ہے، دوسروں تک نہ پہنچائے جو اس سے کم علم رکھتے ہیں، اور خصوصاً اُن تک جو کفر کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں ، میرا یہ کہنا حضور صلی الله علیہ وسلم کی اس حدیث سے مأخوذہے”مَن لا یَرحم لا یُرحم“ بردیگراں پاش کہ حق بر توپاشد،کفر کی حد تک پہنچے ہووٴں تک علم پہنچانا اصل علم کی تکمیل ہے اور ہمارا فریضہ ہے اور جاہل مسلمانوں تک علم پہنچانا مرض کا علاج ہے۔“ (مولاناالیاس  اور ان کی دینی دعوت،ص:274،مکتبہ دینیات)

صحابہ کرام کا حصولِ علم کے لیے طریقِ کار
”فرمایا :مدینہ منورہ میں علوم دینیہ کا کوئی مدرسہ بھی نہ تھا۔ اگر ہوتا تو بھی وہ(مدینہ والے) اس کے باقاعدہ طالبِ علم نہیں بن سکتے تھے اور دین کی ضرورت، مسائل و احکام اور مسائل کے علم سے بے بہرہ نہیں تھے۔ یہ علم ان کے پاس کہاں سے آیا؟ ! محض رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت و حضوری پر زیادہ جاننے والوں کے پاس بیٹھنے اور اہل ِ دین کی صحبت و اختلاط اور ان کی حرکات و سکنات کو بغور دیکھنے ،سفروں اور جہاد میں رفاقت اور بروقت اور بر موقعہ احکام معلوم کرنے اور دینی ماحول میں رہنے سے،اس میں شبہ نہیں کہ اس درجہ اور معیارکی بات آج حاصل نہیں ہو سکتی ، لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی کچھ نہ کچھ صورت انہی راستوں سے آج بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔“(مولانامحمدالیاس  اور ان کی دینی دعوت، ص:۱۰۶،مکتبہ دینیات)

جملہ اہلِ علم کی ذمہ داری
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا:
”عموماً اہلِ علم کی ساری جماعتوں سے یہ بھی عرض ہے کہ اِن متعین اوقات کے علاوہ دوسرے عام اوقات میں اپنی اپنی جگہ خاص و عام میں تبلیغ سے غافل نہ رہیں“۔(تجدید تعلیم و تبلیغ،ص:193)

موجودہ دور کے خوفناک حالات اور ان سے خلاصی کی راہ
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری رحمہ اللہ ایک انتہائی اہم مضمون میں رقم طراز ہیں :
”عذاب بصورت ِنفاق کی تعبیر صوبائی عصبیت ،گروہی مفادات کا وہ طوفان ہے؛ جو ملک کے درودیوار سے ٹکرا رہا ہے جس میں علماء ،صلحاء اور عوام و حکام سب بہے جا رہے ہیں؛ اور جسے برپا کرنے میں اوپر سے نیچے تک تمام عناصر اپنی پوری قوتیں صرَف کر رہے ہیں۔ پورا ملک آتش فشاں کی مُہیب لہروں کی لپیٹ میں ہے، جس پر توبہ، استغفار،تضرع و ابتہال اور دعوت إلی اللہ کے ذریعے آج توقابو پایا جا سکتا ہے،مگر کچھ دن بعدیہ تدبیر بھی کارگر نہیں ہو گی اور پھر خدا ہی جانتا ہے کہ کیا حالات ہوں گے ؟! کون رہے گا اور کس کی حکومت ہو گی؟! اور انسان محکوموں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گا۔ اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائیں اور ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیں اور پوری اُمت کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ و صلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ صفوة البریة سیدنا محمد وعلی اٰلہ وأصحابہ وأتباعہ أجمعین۔“ ( بصائر و عبر،حضرت مولانا سید محمد یوسف صاحب بنوری رحمہ اللہ کا سبق آموز پیغام،ص:15)

چوتھا کام مختلف الانواع کے دوروں میں شرکت
اگر کوئی طالبِ علم کسی بنا پر جماعتِ تبلیغ کے ساتھ نہ جا سکتا ہو تو پھر اُس کے لیے ہماری گزارش یہ ہے کہ وہ ملک بھر کے مدارسِ دینیہ میں منعقد ہونے والے مختلف الانواع علمی دوروں (مثلاً: دورہٴ صرف ونحو، دورہٴ تفسیر، دورہٴ منطق، دورہٴ سراجی ومیراث، دورہٴ لغة العربیہ، دورہٴ رد فرق وادیان ِباطلہ، دورہٴ رد قادیانیت، دورہٴ فلکیات، دورہٴ صحافت، دورہٴ خطابت وغیرہ) میں سے اپنے اساتذہ سے مشورہ کر کے اپنے مناسبِ حال کسی دورے کا انتخاب کر کے اُس میں شرکت کرے۔ عام طور پر ان دوروں کے انعقاد کا دورانیہ تیس سے چالیس دن کا ہوتا ہے۔ اس مختصر سے عرصے میں ماہرِ فن اور سالہا سال سے تجربہ رکھنے والے علماء کرام اپنی خداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، اپنے تجربات کی روشنی میں متعلقہ دورے کی مبادیات سے لے کر پورے فن کا خلاصہ شرکائے دورہ کے سامنے رکھتے ہیں۔

ہمارے خیال میں ان دوروں میں سے ہر دورے کا کما حقہ فائدہ مختلف طلبا کے لیے مختلف درجات کے بعد تو ہوتا ہی ہے ، لیکن اس سے قبل یہ فائدہ تو یقینا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا وقت کسی دینی کام میں ہی گزار رہا ہے لیکن مقاصدِ خاصہ کے ساتھ منعقد کیے جانے والے مختلف الانواع دوروں کا کماحقہ فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا؛ مثلاً: ”دورہ صرف ونحو “اور ”دورہ لغة العربیہ“ درجہ رابعہ کے بعدمفید ثابت ہو گا؛ البتہ درجہ اولیات کے وہ طلبہ جو صرف ونحو میں کمزور استعداد کے حامل ہوں ، ان کے لیے درجہ اولیٰ ، ثانیہ اور ثالثہ کے بعد مفید رہے گا۔ ”دورہ تفسیر، دورہ سراجی ومیراث، دورہ منطق، دورہ فلکیات“ میں درجہ سادسہ اور ان سے اوپر کے طلبا زیادہ بہتر طریقے سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، اس لیے کہ ان طلبا میں اخذ کی صلاحیت خاصی حد تک پیدا ہو چکی ہوتی ہے؛ اور بڑی حد تک متعلقہ فنون کی کتب پڑھ چکے ہوتے ہیں؛ اور ”دورہ رد فرق وادیانِ باطلہ، دورہ صحافت، دورہ رد قادیانیت“ سے درجہ سابعہ اور اس سے اوپر کے طلباء اِن مختصر المیعاد دوروں میں دیے جانے والے اسباق پر اچھے طریقے سے گرفت کر سکتے ہیں۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کہ، اگر یہ دورے فراغت کے بعد کیے جائیں، جب کہ بندہ عملی میدان میں قدم رکھ چکا ہوتا ہے یا رکھنے والا ہوتا ہے ، تو اُس وقت ان دوروں کا فائدہ صحیح معنیٰ میں حاصل ہوتا ہے۔ لیکن دورانیہ تعلیم کے جس مرحلے میں بھی کسی بھی دورے میں شرکت کی جائے ، کسی نہ کسی درجہ میں فائدہ سے انکار تو ہے ہی نہیں۔

مختلف درجات کے لیے کون سا دورہ کب مفید ہے، اس میں یقیناً ایک سے زیادہ آراء ہو سکتی ہیں۔ مذکورہ ذکر کی گئی ترتیب کوئی منصوص نہیں ہے۔ یہ تو محض تجرباتی یا ذوقی چیز ہے ، اس لیے دورہ کے انتخاب کے لیے ضابطے کے اپنے اساتذہ کی رائے پر عمل کرنا نہایت مفید ثابت ہو گا۔

شرکائے دورہ کی خدمت میں ہماری گزارش یہ ہے کہ طلبا ان مخصوص ایام میں دورہ میں پڑھائے جانے والے اسباق کو خوب اچھی طرح ضبط کرنے کا اہتمام کریں۔ مفید باتوں اور نکات کو اپنے پاس رجسٹر میں نقل کر لیا جائے ، تو نور علیٰ نور ہے۔ اسباق کے اوقات کے علاوہ متعلقہ اساتذہ کرام کے مشورہ سے متعلقہ فن کی اُن کتب کا مطالعہ کرنے کی بھی کوشش کی جائے، جودورہ میں یا درس نظامی کے نصاب میں داخل نہیں ہیں۔اس سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ دروہ کروانے والے اساتذہ کے ”فن اور طرز ِ تدریس “کو سمجھتے ہوئے اُسے کاپی میں محفوظ بھی کیا جائے تا کہ بوقتِ ضرورت اس سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔

پانچواں کام اپنے علاقے میں کرنے کے کام
دعوت وتبلیغ میں وقت لگانے والے یا مختلف دوروں میں شرکت کرنے والے طلباء کرام یا وہ طلباء کرام جو ان دونوں کاموں میں شرکت نہ کر سکے ہوں، جب اپنے گھروں کی طرف لوٹیں تو اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اپنے مقام پر، اپنے گھروں میں، اپنے گلی محلوں میں،اپنے معاشرے میں اپنے آپ کو ایسا پیش کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کے متعلقین واضح طور پر، کھلی آنکھوں آپ کے بارے میں یہ محسوس کریں کہ ”ہمارا یہ عزیز “ مدرسہ کی زندگی اختیار کرنے سے قبل ، یا سابقہ سال میں تو (اپنی عبادات، اپنے معاملات، اپنی حسنِ معاشرت اور اپنے اخلاق میں ) ترقی کے اس معیار پر نہیں تھا، جس معیار پر اب پہنچ چکا ہے۔اس تبدیلی کے لیے اور گھروں میں گزارے جانے والے ان ایام کو قیمتی بنانے کے لیے اپنے اساتذہ سے ان مواقع پر سنی ہوئی کچھ مفید باتیں نمبر وار ذیل میں ذکر کی جاتیں ہیں، جن کو اپنانا ان شاء اللہ العزیز آپ کو ایک مثالی طالب ِ علم بنا دے گا، لوگ آپ کی صلاحیتوں کی وجہ سے آپ کو اپنے کندھوں پر بٹھائیں گے، آپ کا ادب کریں، آپ کی بات توجہ سے سنیں گے، آپ کے مشوروں پر عمل کریں گے، آپ کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھیں گے، اپنے فیصلوں کے لیے آپ کو حَکَم بنانا تسلیم کریں گے۔ آپ کی مثالیں دے کر اپنی اولاد اور اپنے ماتحتوں کی تربیت کریں گے، آپ کو دیکھ کر اپنی اولاد کو بھی مدارس دینیہ میں داخل کروانے کا فیصلہ کریں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ رب العزت دنیا وآخرت کی سعادتیں آپ کا مقدر بنا دیں گے:
٭…صبح سویرے نماز ِ فجر کے لیے از خود اُٹھنے کا اہتمام کرنا، پانچوں نمازیں، باجماعت، مسجد میں، تکبیرِاولیٰ کے ساتھ ، پہلی صف میں ادا کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنا۔
٭…مسجد میں ہونے والے تبلیغی اعمال (تعلیم، گشت، مشورہ، شب جمعہ، جماعتوں کی نصرت وغیرہ) کا اہتمام کرنا، اور نمازوں کے بعد ہونے والے دروس ِ قرآن و دروسِ حدیث میں شرکت کرنا۔
٭…مسجد کے ائمہ، علاقے کے قدیم کبار علماء کرام کی ملاقات کی غرض سے ان کی خدمت میں حاضر ہونا، اگر وسعت ہو تو ان کی شان کے مطابق، وگرنہ اپنی حیثیت کے مطابق ، ان کے لیے کوئی معقول ہدیہ لے کر جانا، اُن سے مختلف امور میں مشاورت کرنا، اپنی تعلیمی وتبلیغی کارگزاری ان کے سامنے بیان کرنا۔
٭…اگر اپنے علاقے کی مساجد میں نماز باجماعت کا اہتمام نہ ہوتا ہو تو اس کا انتظام کرنا، اگر درس وغیرہ یا تبلیغی اعمال نہ ہوتے ہوں تو مقتدر حضرات کو اپنا ہم نوا بنا کر ان اعمال کو شروع کرنا۔اگر کہیں جمعہ پڑھانے کا موقع ملے تو خوب اچھی طرح تیاری کر کے پڑھانے کا اہتمام کرنا۔
٭…ان تمام مذکورہ اعمال میں دیگر طلبہ مدارس کو اپنے ساتھ شریک رکھنا۔
٭…اگر اپنی قراء ت میں کمزوری ہو توکسی ماہر قاری صاحب سے بات کر کے اپنی تعطیلات کے اعتبار سے جامع ومانع ترتیب بنانا۔
٭…کسی ماہر کاتب سے مسلسل اور خوب اہتمام سے مشق لے کر اپنا خط سنوارنا۔
٭…کسی کمپیوٹر کے ماہر سے کمپوزنگ سیکھنے کی تربیت لینا۔ ایک عالم ِ دین کے لیے موجودہ دور میں یہ مہارت بہت نفع کی چیز ہے، اسی طرح مکتبة الشاملہ استعمال کرنے میں مہارت حاصل کرنا بھی بہت مفید ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کمپیوٹر کے مفاسد سے بچتے ہوئے اس کا صحیح استعمال بہت ہی نافع ہے۔
٭…گھر کے کام کاج میں گھر والوں کا ہاتھ بٹانا، سودا سلف لا کر دینا، گھر سے متعلق انتظامی امور میں بے جا دخل اندازی کی بجائے حسنِ تدبیر سے کام لیتے ہوئے اصلاحِ احوال کی کوشش کرنا، گھر میں مروج غیر شرعی امور (ٹی وی، وی سی آر، بے پردگی وغیرہ) میں بہت سوچ سمجھ کر ، احسن طریقے سے ، بتدریج تبدیلی لانے کی کوشش کرنا، اس تبدیلی کی ابتدا، انفرادی ترغیب کا راستہ اختیار کر کے ذہن سازی کے ساتھ آسان ہو جائے گی، لیکن یاد رکھیں ، اس تبدیلی کے لیے اہم ترین اقدام اس وقت ہی ممکن ہو سکے گا، جب آپ خود اپنی ذات کے اعتبار سے ان محارم سے اجتناب کرنے والے ہوں گے، وگرنہ ہر تدبیر رائیگاں جائے گی۔
٭…روزانہ والدین کے لیے کچھ وقت فارغ کرکے خاص ان کے پاس بیٹھنا، ان کی سننا اور اپنی سنانا، ان کی جسمانی خدمت کرنا (یعنی: سر، پاوٴں، کندھے دبانا) اُن کے ساتھ حسنِ سلوک اختیار کرنا۔
٭…تمام رشتے داروں کے پاس اُن کے مقام پر ملاقات کے لیے جانا، رشتہ داروں میں غیر محرم عورتوں سے بہر صورت شرعی پردہ کرنا۔
٭…علاقے میں موجود اپنے قدیم وجدید اساتذہ کے پاس ملاقات کے لیے جانا، اگر ان کے پاس جانا ممکن نہ ہو تو کم ا ز کم ٹیلی فون پر تو ضرور رابطہ کرنا۔
٭…ہر خاص وعام سے سلام میں پہل کرنا۔
٭…غیر نصابی کتب بالخصوص اکابرین کی سوانح وغیرہ کا مطالعہ بھی کیا جائے۔
٭…یہ بات اچھی طرح سوچ لینی چاہیے اور ذہن میں بٹھا لینی چاہیے کہ مدارس سے باہر کی دنیا کے افراد ؛ چاہے وہ کوئی ہو، آپ کی فنون نحویہ، صرفیہ، منطقیہ، یا فقہیہ میں مہارت سے متاثر نہیں ہو گا، بلکہ وہ آپ کے حسن اَخلاق، آپ کی حسن معاشرت، آپ کے اٹھنے بیٹھنے، آپ کے چلنے پھرنے ، آپ کی مسنون زندگی کو اختیار کرنے سے متاثر ہو گا، لہٰذا اپنی زندگی کے ان پہلووٴں سے ہر گز ہرگز غافل نہ ہوں ۔ ان امور پر خصوصی توجہ دیں۔ ان کے اختیار کرنے کی کوشش کریں اور اللہ سے ان صفات کے حصول کی خوب دعا بھی کریں۔

آخری اہم ترین گزارش
اب آخر میں طلبہ ساتھیوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ تعطیلات کو بہترین سے بہترین مصرف میں گزارنے کے لیے ضرور بالضرور اپنے ان اساتذہ سے مشاورت کریں ، جن کے ساتھ آپ کا تعلق ہو، وہ آپ کی تعلیمی، اخلاقی کیفیت اور مزاج سے واقف ہوں، ان کی رائے کے مطابق آپ دورے کا انتخاب کریں اور جس جگہ دورہ کرنے کی وہ رائے دیں ، اسی جگہ دورہ کریں، اگر وہ آپ کے حق میں آپ کے لیے کچھ اور مفید سمجھیں تو بھی ان کی رائے کو اختیار کریں۔ یہ بات اس لیے انتہائی ضروری ہے کہ اس وقت بہت سی جگہوں میں غیر معتبر اور غیر مستند افراد قرآن وحدیث اورتفسیر کے نام پر دیوبندیت کا لیبل لگائے ہوئے ، فکری اور نظریاتی ارتدادپھیلا رہے ہیں۔ اسلام کے نام پر اسلام سے دور کر رہے ہیں، دیوبندیت کا نام لے کر دیوبندیت کی جڑیں کاٹ رہے ہیں، تفسیر کی آڑ میں اپنے گمراہ کن نظریات سے صاف اور خالی الذہن طلبہ کو بھی فکری ارتداد میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ایسے افراد کو پہچان کر ان سے بہت دور رہنے کی ضرورت ہے، اور جب اللہ ہمت اور استعداد دے دے تو اس وقت ان کے فکری اور نظریاتی ارتداد کی حقیقت طشت ازبام کر نے کی سعی کریں۔

مذکورہ مفاسد سے بچنے کی خاطر اپنے اساتذہ سے مشاورت اور ان کی رائے کے مطابق قدم اٹھانا ازحد ضروری ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو مرتے وقت تک صراط مستقیم پر ثابت قدمی نصیب فرمائے، اور ہر طرح کے شرور وفتن سے ہماری حفاظت فرمائے اور ہماری صلاحیتوں کو ہدایت کے پھیلنے کے لیے قبول فرمائے اور ہم کو اپنے منشا کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین، ثم آمین !

مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
الفاروق میگزین

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں