شیخ العرب و العجم مولانا حسین احمد مدنی فیض آبادی رحمہ اللہ

شیخ العرب و العجم مولانا حسین احمد مدنی فیض آبادی رحمہ اللہ

محترم، عالم، صالح، محدث حسین احمد بن حبیب اللہ حنفی مدنی فیض آبادی ۱۹شوال ۱۲۹۶ھ میں بمقام بانگرمؤ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی علوم ٹانڈہ میں حاصل کئے۔

سنہ ۱۳۰۹ھ میں جبکہ آپ کی عمر صرف تیرہ سال تھی، سفر کرکے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔ وہاں سات سال میں اکثر کتابیں پڑھیں، آخر میں علم حدیث و علم فقہ علامہ محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ سے حاصل کیا اور طویل مدت تک آپ کے پاس رہے۔ پھر گنگوہ کا ارادہ کیا وہاں امام وقت علامہ محدث رشید احمد گنگوہی سے بیعت کی۔

سفر مکہ معظمہ و مدینہ منورہ
اس کے بعد چونکہ ان کے والد نے اپنے بال بچوں کے ساتھ سنہ ۱۳۱۶ھ میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی، اس لیے ان کے صرف رفیق رہے، (یعنی ہجرت کی نیت نہیں کی) اور مکہ معظمہ میں اپنے محترم بزرگ اور شیخ امداداللہ تھانوی مہاجر مکی کے پاس تشریف لے گئے، ان سے ملاقات کی جبکہ یہ ان کے شیخ کے شیخ تھے اور ان کو تندرست پا کر بہت خوش ہوئے۔ ان سے استفادہ کیا پھر مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہاں انتہائی عقیدت و توکل اور اخلاص کے ساتھ اقامت کی۔
سنہ ۱۳۱۸ھ میں ان کے شیخ علامہ رشیداحمد گنگوہی رحمہ اللہ نے گنگوہ واپس آنے کا حکم دیا تو آپ واپس آئے اور دو سال ان کے پاس قیام کیا۔
سنہ ۱۳۲۰ھ میں شیخ کی اجازت سے حجاز کی طرف لوٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے شہر مدینہ منورہ میں بیٹھ کر لوجہ اللہ (تنخواہ کے بغیر) حدیث، تفسیر اور فقہ کا درس دینے لگے جو قیام لیل سے عشاء کی نماز پڑھنے تک جاری رہتا۔ سنہ ۱۳۳۳ھ تک وہاں رکے رہے۔ اس عرصہ میں کبھی کبھی اپنے استاد کی ملاقات کے لئے تشریف لاتے اور اپنے استاد علامہ محمودالحسن کے سبقوں میں تشریف رکھتے، پھر فوراً مدینہ منورہ واپس تشریف لے جاتے۔ ان کے استاد محمودالحسن صاحب نے حج و زیارت کے لیے سفر کیا، سنہ ۱۳۳۴ھ میں مدینہ منورہ داخل ہوگئے تو وہاں ان کے شاگرد مولانا حسین احمد نے اپنے استاذ کی خدمت میں دن و رات ایک کر دیا اور ساتھ ہی رہنے لگے، اور دونوں ایک ساتھ مکہ معظمہ تشریف لائے۔

عالمگیر جنگ اور علماء کی گرفتاریاں
یہ وقت وہ تھا جب عالمگیر جنگ (جنگ عظیم) ہو رہی تھی اور شریف حسین اور ان کی جماعت نے دولت عثمانیہ سے بغاوت کر کے انگریز حکومت کی پوری تابعداری کرتے ہوئے مولانا حسین احمد صاحب، مولوی عُزیرگل، حکیم نصرت حسین صاحب کوروی اور دوسرے حضرات کو گرفتار کرکے انگریزوں کے سپر کردیا۔ انگریزوں نے ان علماء کرام کو گرفتار کر کے حکومت مصر اور وہاں سے مالٹا بھیج دیا جہاں یہ لوگ ماہ ربیع الآخر سنہ ۱۳۳۵ھ کے آخر میں پہنچے اور وہاں مستقلا تین برس دو ماہ رہے۔ اسی عرصہ میں حکیم نصرت حسین صاحب نے مالٹا میں انتقال فرمایا اور مولانا حسین احمد صاحب نے جہاں تک ہوسکا اپنے استاد مولانا محمود حسن صاحب کی خدمت کی اور عبادت، مطالعہ کتب، قرآن مجید کے حفظ کرنے میں اپنے اوقات گذارنے لگے، بالآخر سنہ ۱۳۳۸ھ کی بائیسویں جمادی الآخر ان کے چھوٹنے کا حکم ہوا اور یہ باعزت طور پر ہندوستان پہنچے۔

شیخ کی خدمت
شیخ محمود حسن اپنی زندگی کے آخری ایام میں بیمار ہوئے، اس لیے اس عرصہ میں ان کی بھرپور خدمت کی جاتی رات بھر بیداری ہوتی، آخر میں شیخ محمود حسن صاحب رحمہ اللہ نے لوگوں کو حکم دیا کہ مجھے بجائے دیوبند کے کلکتہ شہر کے اس مدرسہ میں رکھا جائے جس کی بنیاد مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے رکھی تھی اور ایک شخص کو خاص طور سے اسی کام کے لئے آپ کے ساتھ لیجانے کے لیے کہا۔ اس لیے مولانا حسین احمد صاحب نے اپنے شیخ کو آرام پہنچانے کے لیے خود کو اپنے اوپر ترجیح دی۔ مگر ابھی سفر شروع ہی نہیں ہوا تھا کہ آپ کی وفات کی خبر ملی۔ اس لیے ارادہ ملتوی کرتے ہوئے بالآخر دارالعلوم دیوبند ہی واپس آنے کا ارادہ کرنا پڑا اور دارالعلوم دیوبند کے عام قبرستان میں دفن کئے گئے۔ بہر صورت مولانا حسین احمد صاحب کچھ مدت قیام کے لئے کلکتہ مدرسہ تشریف لے گئے، پھر کلکتہ سے سہلٹ تشریف لے گئے جو اس وقت صوبہ آسام کا دارالسطنت تھا اور تقریباً چھ سال وہاں رہ کر حدیث شریف پڑھاتے رہے اور لوگوں کے تزکیہ نفوس میں وقت لگاتے رہے۔

آزادی کہ لہر
لوگوں میں حریت اور انگریزی حکومت سے نفرت کا جذبہ پیدا کرتے اور بڑھاتے رہے اور آزادی وطن کی محبت پیدا کرنے کے علاوہ مختلف طریقوں سے لوگوں کو فائدے پہنچاتے رہے۔ ادھر ہندوستان میں حکومت وقت سے سیاسی طور پر آزادی کی لہر پھیلتی گئی۔ لہذا اس میں اور بھی زور دیا اور انگریزی فوج میں یہ فتوے جاری کئے گئے کہ ان لوگوں کا انگریزوں کی حکومت کے اندر کام کرنا حرام ہے۔ بالآخر سنہ ۱۳۴۰ھ کے ۱۵ محرم میں قید کردیے گئے اور اس سلسلہ میں کراچی شہر میں حاکموں کے درمیان زبردست محاکمہ شروع ہوا جو دنیا میں مشہور ہوا، آخر کار حکام کی طرف سے دوسال بامشقت کی سزا سنائی گئی، لیکن ۱۳۴۲ھ میں رہائی مل گئی۔

مسند شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند
جب علامہ انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث کی حیثیت سے علیحدہ ہوگئے اور ڈابھیل کی طرف منتقل ہوگئے تو شیخ الحدیث کی جگہ خالی ہوگئی، تو مدرسہ کے منتظمین کی نظریں مدرسہ کے شیخ الحدیث کے لیے مولانا حسین احمد صاحب ہی کے لئے مستقل طور پر اٹھیں۔ سنہ ۱۳۴۶ھ میں آپ سہلٹ سے دارالعلوم دیوبند منتقل ہوگئے اور مدرسہ کے سب سے بڑے اور شیخ الحدیث کی حیثیت سے منتخب ہوگئے۔ اس لئے آپ نے مدرسہ کی شہرت و مرکزیت اور اسے لوگوں کی نظروں میں قابل اعتماد بنا کر رکھا۔ آپ نے مدرسہ میں حدیث شریف کے پڑھانے اور اس کے لئے پوری پوری کوشش کی۔

انگریز حکومت کے خلاف جذبہ نفرت
مولانا مدنی نے لوگوں کی روح میں حکومت کے خلاف نفرت پھیلانے کے جذبہ کو خوب بڑھایا۔ مسلمانوں کی سیاسی زندگی کو بڑھانے کے لئے نادر ہمت اور ارادہ کی قوت کو بڑھانے کی پوری کوشش کی۔ پورے ہند میں اپنے خیالات کو پھیلانے کے لیے سفر کرتے، خطبے اور بیانات دیتے ہوئے سفر کی ہر قسم کی تکلیف برداشت کرتے، راتوں کو جاگتے، اپنے اوقات اور ارادہ کی پوری حفاظت فرماتے، آنے والے مہمانوں کی پوری عزت فرماتے، زیارت کے لئے آنے والوں، چاہنے اور مانگنے والوں کا پورا پورا حق ادا کرتے، وہ اپنے ملکی سیاسی حالات کی درستگی کے لئے اپنی پوری پوری قربانی دیتے اور اپنی ہمت صرف کرتے تھے۔ جمیعۃ العلماء کی مدد میں جس کے وہ بڑے رکن یا صدر تھے مدد فرماتے، چنانچہ انہوں نے حرکۃ العصیان المدنی کی سنہ ۱۳۵۱ھ میں قیادت فرمائی اور چھ ماہ جیل میں رہے۔ پھر رہا کردیئے گئے اور چند سالوں تک جمعیۃ العلماء کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی۔
سنہ ۱۳۶۱ھ میں ملکی حکومت اپنے پیروں پر مستقلا کھڑی ہوگئی اور ملکی وطنی جماعتوں نے مل کر انگریزی حکومت سے کھل کر اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ ہندوستان چھوڑدیں اور اپنے ملک انگلستان واپس چلے جائیں۔

خطبہ جہاد
مولانا شیخ حسین احمد مدنی صاحب نے بہادری کے خطبے دیئے اس لئے حکومت نے ۸ جمادی الآخر سنہ ۱۳۶۱ھ میں آپ کو گرفتار کرلیا اور تقریباً تین برس گرفتار رکھا۔ آپ نے یہ بھی بہت ہی بہادری و ثابت قدمی کے دن گذارے اور تکلیفیں برداشت کرتے رہے۔ ساتھ ہی اپنی عبادت اور جیل کے اندر ہی لوگوں کو فائدے پہنچاتے رہے یہاں تک کہ ۶ رمضان سنہ ۱۳۶۷ھ کو ان کی رہائی کا حکم آگیا۔
رہائی کا حکم پانے کے بعد اپنی عادت کے مطابق دشمنوں کے آمنے جہاد اور انگریزوں کے خلاف باتیں کرتے رہے اور لوگوں کو تعلیم و ارشاد، بندوں کی خدمت، شہر کی حفاظت کے متعلق فرماتے رہے اور اسلامی جماعت کی حرکت اس پر زور دینے میں قوی تر ہوگئی کہ ملک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم کیا جائے جو عام مسلمانوں کی جماعت تھی۔ لیکن ملکی دوسری جماعتوں نے صرف تقسیم ہند اور انگریزوں کے چلے جانے پر زور دیا۔

تقسیم ہند اور شیخ مدنی کی رائے
شیخ حسین احمد صاحب رحمہ اللہ نے مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان کو مسلمانوں کے لئے انتہائی نقصان دہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس مطالبہ سے منع کیا اور اس عقیدے پر زور دیا کہ ایسا ہونے سے ان کا سیاسی مرکز باقی نہیں رہے گا اور ان کی ملی وحدت ختم ہوجائے گی اور یہ انگریزوں کی چال ہے۔ لہذا مولانا نے یہ خیال اپنے ایمان اور اخلاص کے ساتھ بہادری اور دلیری کے ساتھ پیش کیا اور اپنی دلی عقیدے کو ببانگ دہل کسی ڈر اور خوف کے بغیر لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے اور اس میں ملامت کرنے والے کی ملامت اور بے عزت کرنے والے کی بے عزتی کی پروا نہیں کی۔

مصائب کا سامنا
تقسیم کو پسند کرنے والے آپ کو جوش دلانے اور ناراض کرنے کے درپے ہوگئے جس کی وجہ سے ان مخالفین کی طرف سے آپ کو تکلیف اور اہانت کے اسباب آپ کے سامنے آئے اور آپ نے انتہائی صبر کے ساتھ ان تمام چیزوں کو برداشت کیا اور ذرہ برابر بھی اپنے کام میں آپ نے سستی نہیں کی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں سے ان میں کمی کی کوشش کی، اور اپنے شہر کے لوگوں کے لئے جو کچھ اپنے طور پر مناسب سمجھتے اس کی طرف انہیں بلاتے، اس میں کسی قسم کی لالچ کی امید نہ رکھتے، اور نہ ہی ان کی طرف سے کسی تعریف یا نقد کی کچھ امید رکھتے۔

آگ اور پانی
۱۳۶۶ھ ماہ رمضان میں ملک کی تقسیم کا حکومت انگریز کی طرف سے اعلان ہوگیا، نتیجہ میں زبردست قسم کی لڑائیاں شروع ہوگئیں اور ہندوستان کے شہروں اور دیہاتوں میں ان کے بسنے والوں کے نئے مذبح خانے بن گئے، شمالی اور غربی ہند اور دہلی کے چاروں طرف آگ اور پانی کی ہولی ہوتی رہی اور ہمارے شیخ اور ان کے ساتھ رہنے والے جس خطرہ کو محسوس فرمارہے تھے وہ سب ظاہر ہونے لگے اور مسلمانوں میں جس کے لئے جس طرح ممکن ہوسکا کچھ پاکستان کی طرف نکلے اور جو باقی رہ گئے بے چینی اور پراگندہ حالت میں رہے اور دینی مراکز اور ہندی ثقافت زوال کے خطرہ میں گھر کر رہ گئی۔

عملی سیاست سے کنارہ کشی
مسلمانوں میں سے جو اقلیت میں تھے وہ اکثریت کے فرمان بردار بننے پر مجبور ہونے پر سوچ رہے تھے۔ اس لیے اب حضرت شیخ سیاست کی بجائے صرف دینی واعظ ہوکر رہ گئے کہ مسلمانوں میں ایمان اور اللہ پاک پر بھروسہ کرنا اور اپنے دین کو معزز سمجھ کر اس پر فخر کرنا چاہئے، مسلمانوں کو صبر، ثابت قدمی اور اللہ پر بھروسہ رکھنے کی تلقین فرماتے۔ زیادتی کرنے، زور دکھلانے والوں اور ایمان و یقین پر لوٹ ڈالنے والوں کا جم کر مقابلہ کرنے کی تلقین فرماتے۔ اب آپ کی نصیحتوں اور گھوم کر آپ کی تقریروں نے لوگوں کے چھنے ہوئے دلوں کو ذرا مضبوط کیا اور ان ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو جما کر رکھا، ان کے خطرے سب دور ہوگئے اور تاریکی کے بادل سب چھٹ گئے اور مرکزی ثقافت اور دینی مدارس سب اپنی جگہ پر جمے رہے اور وہاں کے تمام مسلمانوں نے اپنی پرانی زندگی کو اختیار کرلیا اور اپنی حالت پر پھر سے بھرپور اعتماد اور بھروسہ کے ساتھ زندگی گذارنے لگے۔
ہمارے یہ شیخ اب عملی سیاست سے کنارہ کش ہوکر ملک ہی میں جم کر اعتدال کے ساتھ اپنے کام میں لگ گئے اور توجہ کے ساتھ درس دینے اور لوگوں کو فائدے پہنچانے، اللہ کی طرف دعوت دینے اور نفوس کی تربیت کرنے لگے، حکومت اور ان کے افراد سے کوئی تعلق نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی طرح سے میل جول رکھتے۔
آخر کار صدر جمہوریہ ہند نے از خود ماہ جمادی الاولیٰ سنہ ۱۳۷۳ھ میں مفاحرۃ کے طور پر آپ پر اس سلسلہ میں کچھ انعام کرنا چاہا مگر آپ نے انہیں یہ کہہ کر انکار کردیا کہ عہدہ کو قبول کرنا ہمارے اسلاف کے طریقہ کے مناسب نہیں ہے اور پھر بقیہ تمام زندگی دارالعلوم دیوبند ہی میں حدیث شریف کا درس دیتے رہے، اور پورے ہندوستان میں سفر کرکے سارے مسلمانوں کو دین کو مضبوطی سے پکڑ کے رہنے کی اور شریعت کی اتباع کرتے رہنے، حالات کی اصلاح کرنے اور ذکر اللہ کی زیادتی کرنے کی تلقین کرتے رہنے کی ترغیب دی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی ان کی طرف دلوں اور نفوس کو مائل کردیا اور ان کی محبت اہل خیر میں بوئی گئی۔ اس لیے لوگ ان کی طرف مائل ہونے لگے اور ہر طرف سے ان کے پاس دعوتیں آنے لگیں اور وہ تمام دعوتوں کو خوش دلی کے ساتھ قبول فرماتے رہے، اس کے لئے آپ کو بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑی۔

مرض الوفات
آخر کار آپ کو قلب کی بیماری اور جسم کی بیماری لگ گئی، تھوڑے دنوں کے لئے سفر کرنے سے معذور ہوگئے۔ اپنے گھر ہی میں رہے اور ورد وظیفہ کرتے اور لوگوں کی تربیت اور رہنمائی و ارشاد میں کوشش تیز کردی، لوگوں کی مہمان نوازی اور آنے والوں کی ملاقات بڑھادی۔ اللہ کی طرف توجہ، خشوع قلبی اور رقت بڑھ گئی۔ اللہ تبارک کی ملاقات کی تیاری بہت زیادہ ہونے لگی، یہاں تک کہ ۱۳ جمادی الاولی سنہ ۱۳۷۷ھ میں آپ کی موت واقع ہوئی۔
شیخ محمدزکریا کاندہلوی نے بے حد و بے شمار لوگوں کی معیت میں جنازہ کی نماز پڑھائی اور اپنے استاذ شیخ محمود حسن دیوبندی اور امام محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی قبر کے بغل میں دفن کئے گئے۔

اوصاف حمیدہ
شیخ حسین احمد صاحب رحمہ اللہ زمانہ کے نوادر میں سے تھے اور کم ہی افراد ایسے تھے جو ان کی طرح صدق اور اخلاص میں ان کے برابر ہوں، اسی طرح ہمت کے بلند، ارادہ کی قوت اور نفس کے تیز، ناپسندیدہ کاموں پر صبر کرنے والے، دشمنوں کے ساتھ چشم پوشی کرنے والے، ضرورت پڑنے پر ان کی سفارش فرماتے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے کی پوری کوشش کرتے، ہر کام کے شروع ہی میں پختہ اور ہمت کے بلند تھے۔

معمولات شب و روز
خلاصہ یہ ہے کہ مختلف چھوٹے بڑے کاموں کے فضائل اور متفرق اور مختلف کاموں کو جمع کرنے والے، آپ کے اندر ایسی صفائی تھی جس میں کوئی بھی شبہ نہیں ہوسکتا ہے اور آپ کے اندر ایسی ہمت تھی جس میں کسی قسم کی خرابی اور سستی نہیں تھی، اور ہمیشہ آپ میں ایسی مشغولتیں تھیں جن کی طرف کوئی تہذیب والا نہیں چل سکتا ہے۔
آپ کے اوقات بہت ہی منظّم تھے، مثلا: جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو مہمانوں کے ساتھ ناشتہ کرتے جو روزانہ ہی بے حد و بے شمار ہوتے۔ پھر آپ دارالحدیث کی طرف متوجہ ہوتے، دو اسباق پڑھاتے ایک سبق صحیح بخاری کا اور ایک سبق جامع ترمذی کا۔ عادت شریف یہ تھی کہ آپ خود ہی اکثر بیشتر عربی لہجہ میں حدیث تلاوت فرماتے، آپ کی آواز واضح اور زوردار ہوتی۔ بعض جگہ آپ شرح حدیث اور القاء حدیث میں اپنی طرف سے کچھ فرماتے، اس طرح دو گھنٹے پورے کرنے کے بعد، اپنے مکان کی طرف لوٹ کر اپنے مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے اور قیلولہ فرماتے اور نماز ظہر سے فارغ ہوکر آنے والے مہمانوں کے لئے کچھ دیر بیٹھتے اور ان کے ساتھ چائے پیتے۔خط و کتابت اور خطوط کے جوابات خود لکھتے یا لکھواتے اور آنے والے اور مانگنے والوں کی حاجتیں پوری فرماتے۔ عصر کی نماز سے فراغت کے بعد مہمانوں اور ملاقاتیوں کو لے کر بیٹھتے، ان کے ساتھ باتیں اور محبت فرماتے، اور اگر سال آخر ہوتا تو اسی طرح درس دیتے جو مغرب کی نماز تک جاری رہتا۔ پھر مغرب کی نماز کے بعد نوافل اور اوابین کے لئے کھڑے ہوجاتے اور اپنی قرآئت اور قیام کو دراز فرماتے، اپنے مریدین اور اہل سلوک کے لئے کچھ وقت نکالتے۔ اب جب کہ عشاء کی نماز پڑھ چکتے تو بخاری شریف کا سبق شروع فرمادیتے جو آدھی رات یا تہائی رات تک جاری رہتا۔ پھر اپنے گھر میں داخل ہوتے اور آرام کا جو حصہ آپ کے لئے مقدر ہوتا اس میں آپ آرام فرماتے پھر بیدار ہوجاتے اور کھڑے ہو کر نفل نمازیں پڑھتے اور قیام کو طویل فرماتے اور ذکر اور مراقبہ کے ساتھ مشغول ہوتے، دعا اور عاجزی میں زیادتی فرماتے۔
کبھی کبھی ایسے اشعار پڑھتے جو دعاؤں میں اور عبادت میں معروف ہوتے اور عام طور سے ہلکے اور باریک ہوتے وہ پڑھتے، یہاں تک کہ صبح ہوجاتی تو صبح کی نماز ادا فرماتے اور جب کبھی امامت فرماتے تو سفر کی حالت میں ہو یا حضر کی حالت میں سنن کا التزام فرماتے اور وہی سورتیں پڑھتے جن کو احادیث میں پڑھنا صحیح ثابت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے، ان میں کبھی خلل نہ آنے دیتے۔
آپ کی آخری عمر میں دینی جمعیت اور شرعی غیرت اور اتباع سنت نبوی غالب آگئی تھی، اس لیے ان باتوں میں تھوڑی سی کمی کو برداشت نہیں فرماتے اور کبھی اس میں زیادتی بھی ہوجاتی اور ناراضگی کی وجہ سے آپ کی آواز بھی بلند ہوجاتی اور جو شخص بھی ہوتا اس شخص کے خلاف غصہ کا سخت اظہار فرماتے اور اپنی ناراضگی میں سختی فرماتے جو سنتوں کی مخالفت کرتا یا شعائر اسلام کی توہین کرتا، اور اپنے اساتذہ اور مشائخ کے ساتھ بے حد محبت فرماتے، ان کے بارے میں سخت غیرت فرماتے اور شیخ ابن تیمیہ پر تنقید فرماتے اور کچھ منفرد مسائل اور رائیوں کے بارے میں ان پر انکار فرماتے، اور شیخ محی الدین ابن عربی کی حتی الامکان مدد فرماتے۔

حلیہ وضع قطع
آپ جسمانی صفتوں کے اعتبار سے اچھے لانبے قد کے تھے، بڑے سر اور چوڑی پیشانی اور بڑی آنکھوں والے، گندمی رنگ کے مالک تھے، آپ موٹے بدن والے، دونوں ذراع گٹھے ہوئے، فطرۃً قوی، باوقار، با ہیبت لیکن بگڑے یا سخت چہرہ والے نہ تھے، ہنس مکھ چہرہ، کشادہ رو، ہمیشہ وطنی بناوٹ کے اور موٹے لباس پہننے کے عادی تھے۔

ذکر و عبادت
اپنے استاذ مولانا محمود الحسن صاحب کی طرح انگریزوں سے سخت ناراض اور نفرت کرنے والے تھے۔ اللہ کو راضی رکھنے کے واسطے محبت بھی سخت کرنے والے اور نفرت بھی سخت کرنے والے تھے، اپنے نفس کو سونے اور جاگنے ہر حال میں خوش رکھنے والے، جب چاہتے سوجاتے اور جب چاہتے جاگ جاتے۔ رمضان کے مہینہ میں جہاں تک ممکن ہوتا جاگتے اور عبادت فرماتے تھے، آپ کی امامت کوئی بھی مرید کر سکتا تھا، اور سینکڑوں مریدین آپ کے ساتھ روزے رکھتے اور آپ کے ساتھ کھڑے ہوکر عبادت کرتے تھے۔ جس جگہ آپ ماہ رمضان سے متعلق عبادتیں فرماتے اس سے ہٹ کر دوسری طرف ذکر و تلاوت اور شب بیداری اور عبادت فرماتے۔

تصانیف
ویسے تو آپ قلیل التصنیف تھے، پھر بھی چند کتابیں آپ نے تصنیف فرمائی، ان میں سے (۱) شہاب ثاقب (۲) سفرنامہ مالٹا جس میں وہاں کے دن، رات کے حالات جو قید کے زمانہ میں پیش آئے اور آپ کے استاذ شیخ الہند کے واقعات ہیں، (۳) نقش حیات، دو جلدوں میں ہے، جس میں زیادہ تر سیاسی تاریخ ہے، (۴) چند رسالے بھی ہیں۔ میں نے ان کو تین جلدوں میں جمع کیا ہے۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں