مودی اور مسلمان

مودی اور مسلمان

وہی ہوا جس کا مسلمانوں اور سیکرلر مزاج رکھنے والوں کو خدشہ تھا مودی ہندستان کے وزیر اعظم کے طور پر21 مئی کوعہدے کا حلف لیںگے ،

اس قدر اکثریت لیکر بھارتیہ جنتا پارٹی میدان میں آئیگی یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا حتی کہ خود بی جے پی بھی نہیں سوچ رہی تھی کہ اتنی کثیر تعداد میں سیٹ ملے گی ، یہ دراصل مودی اور ٹیم کی انتھک محنت ، میڈیا کا شروع سے ذہن سازی اور بھر پور تعاون ، ایک بہت بڑی رقم کا خرچ کرنا پچھلے تمام الیکشنوں کے خرچ کا ریکارڈ توڑنا، مسلم اور سیکولر ووٹوں کا تقسیم ہونا ، یہ وہ عوامل ہیں جو مودی کی جیت میں کارکر ثابت ہوئی ۔
دوسری طرف مسلمانوں اور سیکولر مزاج لوگوں کے ووٹوں کی تقسیم ا س میں ایک اہم رول ادا کیا ہے ، جن جگہوں پر لوگوں نے اتحاد کا مظاہر ہ کیا ہے اس کا بہتر اثر دیکھا گیا ہے جیسے کشن گنج سے مولانا اسرار الحق قاسمی صاحب کی جیت اور جناب تسلیم الدین صاحب کی ارریہ سے جیت میں ظاہر ہوا ہے۔
مسلمان جس کے پاس کلام الہی کی صورت میں ایک منہج حیات ہے جس پر صحیح صورت میں عمل کیاجائے تو ہمیشہ کامیابی وکامرانی اس کی قد م چومیگی ، یہ اللہ کا وعدہ برحق ہے ، واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا (ال عمران ۱۰۳ )، ولا تنا زعوا فتفشلوا وتذہب ریحکم (الانفال ۴۶) اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ بندی مت کرو ، آپس میں مت جھگڑو ناکام ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی ۔
تفرقہ وانتشار میں مبتلا مسلمانوں نے ہمیشہ نقصان اٹھایا ہے ، یہ ایسا نقصان ہے جس کی بھرپائی مشکل ہے ، اگر اس سے سبق لیا گیا تو آئندہ الیکشن 5سال ایک طویل وقفہ کا انتظار کرنا ہوگا ، حالانکہ بعض علاقوں سے ایسی باتیں سامنے آرہی تھی کہ اس دفعہ مسلمان جس قدر متحد ہیں اس سے پہلے مسلمان کبھی متحد نہیں ہوئے ۔ لیکن نتیجہ سامنے آنے کے بعد وہی آپسی اختلاف وانتشار ابھر کر سامنے آیا جس کی وجہ سے دوسرے لوگ کامیاب ہو گئے ، ایک بات اور یہ سمجھ میں آئی کہ اس دفعہ غیر مسلم کافی متحد نظر آئے جس کا اندازہ زیادہ سے زیادہ سیٹ جیتنے کی شکل میں سامنے آیا ، الیکشن سے پہلے NDTV کی ایک خبر کے مطابق آر ایس ایس کی جماعت پوری مستعدی سے ہندو گھروں میں دستک دیکر لوگوں کو تلقین کرتی تھی ہندو ہندو بھائی بھائی جب کوئی اسے ٹوکتا کہ رام مندر کا ایشو کیوں نہیں اٹھاتے تو یہ لوگ جواب دیا کرتے تھے ابھی اس کو چھوڑو بعد میں جیتنے کے بعد دیکھا جائے گا ۔
مسلمان ایک ایسی قوم ہے جس کا بھروسہ اللہ وحدہ لاشریک پر ہے کہ وہی ذلت وعظمت دیتا ہے وہی زندگی عطا کرتا ہے اور موت دیتا ہے ، تاریخ اسلام شاہد ہے کہ مٹھی بھر جماعت نے ایک جم غفیر پر فتح ونصرت حاصل کیا ہے اور اسی اللہ پر کامل اعتقاد ویقین اور بھروسہ کے بدولت قیصر وکسری کے تخت وتاج کو ہیچ سمجھا ہے ، اپنی پختہ ایمانی قوت اور عمل صالح کے بل بوتے پر کبھی بھی کسی ظالم وجابر حکومت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کھڑا ہوگیا ہے ، ا س کے سامنے مودی کی کیا حقیقت ہے ، بس شرط یہ ہے انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین ۔
حقیقی معنی میں مومن ہونا یہی وہ طلسم ہے جس سے ہر مومن بندہ اگر سج دھج اور سنور جائے اور اپنی زندگی کا نصب العین بنا لے تو کیا مودی کیا ہٹلر یا اپنے زمانے کا فرعون بھی سامنے آجائے تو اس کو مومن بندہ کا مطیع وفرمان بردار بن کر رہنا ہوگا ۔
دوسری جانب مسلمان کو یاس و قنوطیت ، ناامیدی میں نہیں رہنا چاہئے کیونکہ لاتقنطوا من رحمۃ اللہ کا حکم بھی ہے ، اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ رکھے ، ویسے تو فی الحال اتنی بڑی امید نہیں رکھنی چاہئے جیسے کہ کہا گیا ہے ۔۔۔ پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے ۔۔۔۔
اور یہ بھی مشہور ہے کہ چور کے ہاتھ میں چوکیداری کی لاٹھی تھمادیں تو چور خود چوری کرنا چھوڑ دیگا ، ممکن ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں کے حالات ویسے نہ ہوں جس طرح سے مسلمانوں کے ذہن ودماغ میں ڈر سما ہوا ہے ، اور خوف طاری ہے کہ پتہ نہیں مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے اور یہ ڈر بجا ہے اس لئے کہ ایسا نہ ہو کہ مودی بس مہرہ ثابت ہو اور ریموٹ کنٹرول موہن بھاگوت کے ہاتھ میں ہو اور یہ خوف اس لئے صحیح سمجھ میں آتا ہے کہ مودی کی تربیت سنگھ پریوار کی زیر نگرانی ہوئی ہے ، مودی کی ذہن سازی شروع سے RSS کی فکر ونہج پر ہوئی ہے ، اس کااب تک کا رویہ اور عمل سراسر مسلم مخالف ہے ۔
ان سطروں سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ راقم مودی کی تعریف کررہا ہے یا اس کے مسلم مخالف اعمال اور تمام سابقہ ناقابل معافی جرائم وگناہ کے لئے کلین چٹ د ے رہا ہے ، بس اوپر کی سطروں کا ماحصل مقصد یہ ہے کہ ایک مومن کو اللہ وحدہ لاشریک سے خوف کھانا چاہئے کہ وہی سب کا رکھوالا ہے اس کے سوا کسی میں بھی ادنی طاقت نہیں ہے کہ ایک انسان کو نقصان پہنچائے ۔
قرا ن کریم کی یہ آیت کریمہ اور یہ حدیث ایک مومن کے لئے مشعل راہ ہے ۔۔۔
قل لن یصبنا الا ما کتب اللہ لنا ھو مولانا وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون (سورۃ التوبۃ ۵۱)
اور حدیث عن ابی العباس عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ قال کنت خلف النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوما فقال یا غلام انی اعلمک کلمات احفظ اللہ یحفظک ، احفظ اللہ تجدہ تجاہک ، اذا سألت فاسئل اللہ ، واذا استعنت فاستعن باللہ ، واعلم ان الامۃ لو اجتمعت علی ان ینفعوک بشئ لم ینفعوک الا بشئ قد کتبہ اللہ لک ، وان اجتمعوا علی ان یضروک بشئ لم یضروک الا بشئ قد کتبہ اللہ علیک ،رفعت الاقلام وجفت الصحف ، ر واہ الترمذی ۔
انسان کو وہی تکلیف پہونچتی ہے جس کو اللہ نے لکھ دیا ، وہی ہمارا مولا ہے مومن کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔
حدیث کا مفہوم یہ ہے ، ابو العباس سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چند کلمات سکھارہاہوں اللہ کی حفاظت کرنا وہ تمہاری حفاظت کریگا ، اللہ کی حفاظت کرو تم اسے اپنے سامنے پاؤگے ، جب مانگو تو اللہ سے مانگو ،جب تم مدد چاہو تو اللہ سے مدد چاہو ، اور جان لو کہ اگر پوری قوم اس بات پر جمع ہوجائے کہ تمہیں کسی چیز سے نفع پہونچائیں تو ہر گز نفع نہیں پہونچاسکتے ہیں مگر یہ کہ اللہ نے جتنا لکھ دیا ہے ، اور سب اس بات پر جمع ہوجائیں کہ تمہیں کسی چیز سے نقصان پہونچائیں ، تو ہر گز نقصان نہیں پہونچائیں گے مگر یہ کہ اللہ نے جتنا لکھ دیا ہے ، قلم اٹھا لیا گیا صحیفے خشک ہوگئے ، یہ کنایہ ہے اس بات کا کہ انسان کے مقدر میں جو اللہ نے لکھ دیا وہی ہوگا اس کے علاوہ کسی فرد بشر میں معمولی طاقت نہیں کہ اللہ کا لکھا ہوا مٹا دے اور وہ کردے جو اللہ کی مرضی نہ ہو ۔

فیروزاحمدندوی
نمائندہ خصوصی بصیرت آن لائن
(بصیرت فیچرسروس)

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں