مسلمانوں سے کون سی ترقی مطلوب ہے؟

مسلمانوں سے کون سی ترقی مطلوب ہے؟

ہمارے زمانے میں ترقی کا بڑا شور و غل ہے، جب اس کی حقیقت کی تفتیش کی گئی ، یہی” طولِ امل“ (لمبی آرزو)”حرصِ مال “(طمع و لالچ) و”طلبِ جاہ“(عہدوں اور مناصب کی دوڑ) اس ترقی کا حاصل نکلا،

سو ایمان والا تو اس میں ہرگز شک نہیں کرسکتا کہ اس ترقی کی ترغیب دینا حقیقت میں اپنے حکیم و شفیق پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک و مقدس تعلیم کا پورا معارضہ(اور مخالفت) ہے،کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ”اللّٰہُمَّ لا تَجْعَلِ الدُّنیا أکبَرَ ہَمِّنا، ولا مَبْلَغَ عِلمِنا“(اے اللہ !ہمارا منتہائے فکر اور مبلغِ علم دنیا کو نہ بنائیے)یعنی اصل فکر اور غم تو آخرت کا فکر اور غم ہے، مگر لوگ اپنی اس مزعومہ ترقی کی ایسی ملمع تقریر کرتے ہیں، جس سے بھولے آدمی دھوکہ کھاسکتے ہیں، وہ یہ کہ اصل مقصود ہمارا ،اسلامی ترقی ہے، مگر زمانہ کی رفتار کا مقتضا ہوگیا ہے کہ بدون ظاہری شان و شوکت کے اسلام کی وقعت و عظمت لوگوں کی نظر میں؛ بالخصوص غیر قوموں کی نگاہ میں نہیں ہوسکتی،اس لیے دنیوی ترقی بھی ضروری ٹھہری۔

صاحبو! یہ تقریرنری رنگ آمیزی ہے، اول تو یہی بات غلط ہے کہ بدون دنیوی ٹیپ ٹاپ کے اسلام کی وقعت کسی کی نظر میں نہیں ہوسکتی، اسلام کا وہ خدا داد حسن و جمال ہے کہ سادگی میں بھی وہ دل ربا و دل فریب ہے، بلکہ سادگی میں اس کا زیادہ روپ کھلتا ہے اور زیب و زینت سے تو چُھپ جاتا ہے، صحابہ کے زمانے سے اس وقت تک سیر وتواریخ سے تحقیق کرلیجئے، کہ جس کسی شخص میں کامل اسلام ہوا ہے ،تمام موافق و مخالف اس کی ہیبت و عظمت کو مان گئے اور ہماری جو وقعت بدون نمائش و تصنع کے نہیں ہے، سبب اس کا یہی ہے کہ ہمارا اسلام قوی و کامل نہیں ہے، اس کے رخنوں کو مہمل زیب و زینت سے رفو کرتے پھرتے ہیں۔

اب بھی اللہ کے بندے اس قسم کے جہاں کہیں موجود ہیں ان کی وقعت و عظمت خود جاکر آنکھ سے دیکھ لیجئے، ابھی کا قصہ ہے ، حضرت مولانا سیدالشاہ محمد فضل الرحمن کے دربار شریف میں بڑے بڑے امراء و حکام کا حاضر ہونا اور ادب و تعظیم کے ساتھ پیش آنا کس کو معلوم اور یاد نہیں، وہاں کونسی ظاہری شان وشوکت تھی، یہی سیدھا سادھا اسلام تھا، جس کی یہ کشش تھی۔( اور ہمارے قریبی دور میں حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی کا دربارِ گہربار بھی اس کی روشن مثال تھا)۔عارف شیرازی کا قول گویا اسی مضمون میں ہے #
        زعشقِ نا تمامِ ما جمالِ یار مستغنی ست
        بآب ورنگ وخال وخط چہ حاجت روئے زیبا را
(محبوب کا جمال ہمارے ناقص عشق کا محتاج نہیں، خوب صورت چہرے کو رنگ و روغن اور زیب و زینت کی ضرورت نہیں۔)

اور بالفرض اگر اس تسبب و ترتب کو تسلیم بھی کرلیا جاوے تب بھی یہ کہنا کہ مقصود بالذات اسلام کی ترقی ہے اور دنیوی ترقی محض اس کا واسطہ اور مقصود بالعرض ہے؛ خلافِ حقیقت ہے،یہ دعوی اس وقت درست مانا جاتا جب یہ حضراتِ مدعین جس قدر دنیا کا اہتمام کرتے ہیں دین کا اس سے زیادہ اور برابر نہیں تو اس سے آدھا اور چوتھائی تو کرتے، تو سمجھا جاتا کہ اصل مقصود دین ہے اور دنیا محض ضرورت کی چیز، اب تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دنیا میں ایسے منہمک ہیں کہ نہ خدا کی خبر، نہ رسول کی یاد، نہ عقائد کی فکر ،نہ احکام کی پروا، پھر ہم کیسے اس دعوے کو تسلیم کرلیں!

بعض حضرات ان میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی ترقی کو نظیر میں پیش فرمادیتے ہیں، ہم اس نظیر پر بدل و جان راضی ہیں، آئیے! اس سے ہمارے آپ کے درمیان میں محاکمہ ہوا جاتا ہے۔

نظرِتحقیق و انصاف سے دیکھ لیجئے کہ صحابہ  نے کس چیز میں ترقی کی تھی؟ دین میں یا دنیا میں اگر توسیع ممالک میں کوشش کی تھی تو کیا اس سے ترقیٴ تجارت یا زراعت یاصنعت وحرفت مقصود تھی؟ یا نماز و روزہ قرآن وذکر اللہ،اقامت حدودا ورعدل وانصاف مطمحِ نظر تھا؟ قرآن مجید جو سب سے سچی تاریخ ہے، اس سے اس کی تصدیق کرلیجئے، اوپر سے صحابہ مہاجرین کا ذکر فرماکر ارشاد ہوتا ہے:
﴿الَّذِیْنَ اِنْ مَکَّنَّاہُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلَاةَ وَآَتَوُا الزَّکَاةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْر﴾ (الحج:48)
وہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر اختیار دے دیں ہم ان کو زمین میں تو قائم کریں نماز کو اور دیں زکوٰة کو اور بتلائیں نیک باتیں اور روکیں بُرے کام سے، اللہ ہی کے لیے ہے انجام سب کاموں کا۔

اور احادیث و سیر سے ان حضرات کے حالات کی تحقیق کرلیجیے کہ صحابہٴ کرام نے قیصر وکسریٰ کی سلطنت اور ایران وروم کی مملکت فتح کرنے کے بعد کہیں بھی حکومتی سطح کا کوئی صنعتی ادارہ کھولا ہو؟ یا تجارتی منڈی بنانے کی فکر کی ہو؟ یا کسی طرح کا کارخانہ اور فیکٹری بنانے کی سعی کی ہو؟ بلکہ ان حضرات نے توباوجود ان فتوحاتِ وسیعہ کے کبھی پیٹ بھر کر کھایاتک نہیں ، نیند بھر سوئے بھی نہیں، شب و روز خوف وخشیت اور ذکر وفکر میں گذرتے تھے اور وہ تو دنیا کی غیر اختیاری کثرت اور فراخی کوبھی دیکھ کر ڈرتے تھے اور روتے تھے، کُجا صحابہ کی ترقی! کجا اس وقت کی ترقیٴمعکوس ؟!
        ببیں تفاوت راہ از کجا تا بکجا

اصل بات یہ ہے کہ حرص و شہوت نے ہر چہار طرف سے گھیر لیا ہے، طبیعت آرام پسند ہے، خواہش ہوتی ہے کہ اسباب تنعم وتلذذ کے جمع ہوں، دین و اسلام کا نام محض بطور امتیاز و شعارِ قومی کے باقی رہے، باقی نماز کس کی، روزہ کس کا؟ بلکہ ان احکام کے ساتھ استخفاف و استہزا سے پیش آتے ہیں۔

صاحبو! یہ کیسا دین ہے: ﴿قُلْ بِئْسَمَا یَأْمُرُکُمْ بِہِ اِیْمَانُکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْن﴾․
(آپ کہہ دیجیے کہ بہت بری ہیں وہ باتیں جن کا حکم تمہارا ایمان تم کو دے رہا ہے ؛ اگر تم ایمان والے ہو۔)

رفع اشتباہ:کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ میں تحصیل دنیا سے منع کرتا ہوں یا اس کے اسباب و وسائل مثلاً انگریزی پڑھنا، صنائع جدیدہ ایجاد کرنا وغیرہ کو حرام کہتا ہوں، بھلا بلا دلیلِ شرعی محض تعصباً میں اس پر حرمت کا فتوی دے کر اللہ پر افترا کرنے والا بننا کیسے پسند کروں گا؟ ہرگز یہ میرا مطلب نہیں، خوب دنیا کماؤ، نوکری کرو، اس کے وسائل بہم پہنچاؤ بلکہ ظاہری اطمینان اکثر باطنی طمانینت کا ذریعہ ہوتا ہے #
        خداوند روزی بحق مشتغل
        پراگندہ روزی پراگندہ دل
(روزگار کی طرف سے مطمئن شخص اللہ تعالی کی عبادت بھی یکسوئی کے ساتھ کرسکتا ہے اور روزی کی طرف سے فکر مند،اللہ کی عبادت کے لئے کیسے یکسو ہوسکتا ہے؟)

مگراللہ واسطے دین کو مت ضائع کرو، بے وقعت مت سمجھو، تحصیل دنیا میں احکام و قوانینِ الٰہی کی پابندی رکھنے کی کوشش کرو، دنیا کو دین پر ترجیح مت دو، جس جگہ دونوں نہ تھم سکیں، نفعِ دنیا کو چولہے میں ڈال دو، تعلیمِ علومِ دنیویہ کی وجہ سے نماز روزہ سے غافل مت ہوجاؤ، عقائدِ اسلام پر پختہ رہو، بری صحبت سے بچتے رہو اور نہ بچ سکو تو کم از کم بلا ضرورت دوستی اور اختلاط تو نہ کرو، علماء و صلحاء کی صحبت سے نفور مت کرو،اپنے عقائد و اعمال کو ان کی خدمت میں جا کر سنوارتے رہو، کوئی شبہ ہو دریافت کرلیا کرو اور غیرِ حق پر نظر مت رکھو، اللہ تعالیٰ کو ہر وقت اپنے اقوال و افعال پر بصیر و خبیر سمجھو، حساب و جزا سے ڈرتے رہو، وضع و لباس میں شریعت کا پاس رکھو، غرباء و مساکین کو حقیر مت سمجھو، ان کی خدمت و سلوک کو فخر سمجھو، اپنے کو تواضع اور مسکنت سے رکھو، بڑوں کا ادب کرو، کسی پر ظلم و غصہ مت کرو، دل میں رقت پیدا کرو، سنگ دل، لااُبالی مت بنو، جس قدر حلال ذریعہ سے مل جاوے اس پر قناعت کرو، اپنے سے زیادہ مال داروں کو دیکھ کر حرص وہوس مت کرو، سادگی سے بسر کرو، تاکہ فضول خرچی سے بچو، اس وقت کثرتِ آمدنی کی بھی حرص نہ ہوگی اور اسی طرح جس قدر اسلامی اخلاق ہیں، ان کو برتاؤ میں رکھو، تصحیح عقائد، پابندیٴ اعمال و اخلاق اوروضعِ اسلامی کی پابندی کرو۔

چشمِ ما روشن، دلِ ما شاد(ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور ہمارا دل خوش ہوگا) … ورنہ #
        مبادا دلِ آں فرو مایہ شاد
        کہ از بہرِ دنیا دَہَد دیں بباد
(ایسے شخص کا دل خوش نہ ہو جو دنیا کی وجہ سے دین کو برباد کرتا ہو)

﴿اَللّٰہُمَّ اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْن﴾۔
(اے اللہ ! ہم کو سیدھے راستے پر چلائیے ،ان لوگوں کا راستہ جن پر آپ نے انعام فرمایا ،جو نہ مغضوب علیہم( یہودی) ہیں اور جو نہ ضالین(عیسائی) ہیں)۔

وصلی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلیٰ خَیرِ خَلْقِہ مُحَمَّدٍ وَّآلِہ وَأصْحَابِہ أجْمَعِین

ازافادات حکیم الامت حضرت تھانوی مولانامحمد معاویہ سعدی
الفاروق میگزین (جامعہ فاروقیہ، کراچی)

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں