دجال کے مذہب، اس کے ساتھی، اس کی معاون قوتوں اور شیطانی طاقت [I]

دجال کے مذہب، اس کے ساتھی، اس کی معاون قوتوں اور شیطانی طاقت [I]

تین ضمنی سوالات
دجال کون ہے؟ کے ضمن میں چند ذیلی سوالات جنم لیتے ہیں۔ ان کو حل کیے بغیر دوسرے سوال کی طرف جانا قبل از وقت ہوگا۔ وہ ذیلی سوالات کچھ یوں ہوسکتے ہیں:

(۱) دجال کس چیز کی دعوت دے گا یا دوسرے لفظوں میں اس کے فتنے کی نوعیت کیا ہوگی؟
(۲) دجال کے پیروکار کون لوگ ہوں گے؟
(۳) اس کو کون کون سی غیر معمولی قوتیں حاصل ہوں گی؟ اور کس بل بوتے پر حاصل ہوں گی؟

ذیل میں ہم ان تین عنوانات سے متعلق ’’ماحضر‘‘ احتیاط کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کریں گے:

(۱) دجالی مذہب:
دجال ایک نئے مذہب کی دعوت دے گا۔ ایک ایسے نئے اور جھوٹے مذہب کی جس میں پہلے وہ نبوت کا دعویٰ کرے گا اور پھر خدائی کا۔ اس بدبخت کا سب سے بڑا فتنہ یہی ہوگا کہ اسے اللہ تعالی نے جتنا کچھ نوازا، وہ اس سے خیر کا کام لینے کے بجائے شر کا وہ عظیم طوفان برپا کرے گا کہ حدیث شریف میں آتا ہے: ’’حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت قائم ہونے تک دجال کے فتنے سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں۔‘‘
یہ مذہب فری میسنری کا خفیہ مذہب ہوگا۔ یہ ان نظریات پر مشتمل ہوگا جسے دجال کی پیشگی تنظیم فری میسن نے ایجاد کیا اور اسے پھر آہستہ آہستہ دنیا نے قبول کرلیا۔
مثلاً: مغربی جمہوریت: جو فری میسنری کے ’’برادرز اور ماسٹرز‘‘ کو بر سر اقتدار لانے کا بہترین ذریعہ ہے۔
جدید نظام تعلیم: جو انسانیت کی خدمت کے بجائے شکم پرستی اور نفس پروری سکھاتاہے۔
مغربی نظامِ معیشت: جو سود، جوئے، غرر و ضرر اور بے حساب منافع خوری پر مشتمل ہے۔ ٹیکس کے نظام کا کُلّی رواج اور زکوۃ و صدقات کے نظام کا انہدام: یعنی وہ نظام جس میں حکومتیں دینے کے بجائے لینے کا مزاج بنالیتی اور اپنے ہی عوام کو لوٹتی کھسوٹتی ہیں۔
مغربی تہذیب: جو اباحیت اور عقلیت پرستی پر مشتمل ہے یعنی وحی کی رہنمائی میں جائز و ناجائز کی تعیین کے بجائے عقل اور شہوت کی بنیاد پر درست و نادرست کی تعیین۔۔۔۔ و غیرہ و غیرہ۔
فری میسنری پر کام کرنے والے تقریبا تمام ہی محققین (بشمول عیسائی و لامذہب صحافیوں کے) اس بات پر متفق ہیں کہ یہ وہ اکلوتی خفیہ تنظیم ہے جو مذہب کا نام لیے بغیر اپنے نظریات، رسومات اور اصلاحات میں ایک مکمل مذہب کی شکل رکھتی ہے۔ فری میسنری جس نئے عالمی نظام کی نقیب ہے وہ در حقیقت ایک ’’عالمی مذہب‘‘ ہے اور افسوس ہے کہ وہ روحانی نہیں، شیطانی مذہب ہے۔ جو تحریف شدہ یہودیت اور نفس و شیطان پرستی کا ملغوبہ ہے۔ ایک نظر ذیل کے اقتباس پر ڈالیے جو فری میسنری کے اصلی ہدف ’’عالمی حکومت‘‘ کا اجمالی خاکہ پیش کرتا ہے:
’’صرف ایک مذہب کی اجازت دی جائے گی اور وہ ایک عالمی سرکاری کلیسا کی شکل میں ہوگا جو ۱۹۲۰ء سے وجود میںآچکاہے۔ شیطینیت، ابیلیسیت اور جادوگری کو ایک عالمی حکومت کا نصاب سمجھا جائے گا۔ [بتائیے! یہ کسی آسمانی مذہب کے پیروکاروں کی تعلیمات ہوسکتی ہیں] کوئی نجی یا چرچ اسکول نہیں ہوگا۔ تمام مسیحی گرجے پہلے ہی سے زیر و زبر کیے جاچکے ہیں۔ چنانچہ مسیحیت ایک عالمی حکومت میں قصۂ پارینہ ہوگی۔ ایک ایسی صورتِ حال تشکیل دینے کے لیے جس میں فرد کی آزادی کا کوئی تصور نہ ہو، کسی قسم کی جمہوریت، اقتدار اعلیٰ اور انسانی حقوق کی اجازت نہیں ہوگی۔ قومی تفاخر اور نسلی شناخت ختم کردی جائیں گی اور عبوری دور میں ان کا ذکر بھی قابلِ تعزیر ہوگا۔
ہر شخص کے ذہن میں یہ عقیدہ راسخ کردیا جائے گا کہ وہ (مرد یا عورت) ایک عالمی حکومت کی مخلوق ہے اور اس کے اوپر ایک شناختی نمبر لگادیا جائے گا۔ یہ شناختی نمبر برسلز، بلجیم کے نیٹو کمپیوٹر میں محفوظ ہوگا اور عالمی حکومت کی کسی بھی ایجنسی کی فوری دسترس میں ہوگا۔ سی آئی اے، ایف بی آئی، ریاستی اور مقامی پولیس ایجنسیوں، آئی آر ایس، فیما، سوشل سیکورٹی و غیرہ کی ماسٹر فائلیں وسیع کرکے ان میں لوگوں کے کوائف کا اندراج امریکا میں تمام شہریوں کے ذاتی ریکارڈ کے انداز میں کیا جائے گا۔‘‘ (ڈاکٹر جان کولمین: Conspirators Hierarchy)
فری میسنری اپنی خفیہ تقریبات میں (جن کا کچھ ذکر بندہ (مفتی ابوالبابہ) کی کتاب ’’عالمی یہودی تنظیمیں‘‘ میں آچکا ہے) جو اصطلاحات استعمال کرتی ہے، مثلاً: مقدس دستور (تورات یا تالمود)، مقدس شاہی محراب، مقدس درخت (اکیشیا)، مقدس قربانی، مقدس علم (جیو میٹری)، ہیکل سلیمانی کے نو معمار (ماسٹر میسنز)، ذی وقار معمارِ اعلیٰ (گرینڈ ماسٹر) بارہ سردار، ستر دانا بزرگ، داوود کی نسل سے عنقریب آنے والا عالمی بادشاہ (دجال اکبر) و غیرہ۔۔۔ یہ سب اصطلاحات اور ان کے علاوہ نا مانوس الفاظ ،مثلاً میکینی، جاہ بل آن، جہلون و غیرہ۔۔۔ یہ سب اس امر کی واضح علامت ہیں کہ یہ تنظیم اپنی تقریبات منعقد کرتے وقت جس چیز کو خفیہ رکھنا چاہتی ہے وہ دجالی یہودی مذہب کی خفیہ رسومات ہیں اور دجالی رسومات کو اپنا نے والی یہ تنظیم در حقیقت شیطانی مذہب کی علمبردار ہے۔ وہ اپنے آپ کو ظاہر تو فلاحی و سماجی تنظیم کی حیثیت سے کرتی ہے لیکن در حقیقت وہ ایک مستقل خفیہ مذہب رکھتی ہے اور یہ تو ہر ایک سمجھتا ہے کہ رحمانی چیزیں خفیہ رکھنے کے لیے نہیں ہوتیں، چھپا چھپا کر تو شیطانی کام کیے جاتے ہیں۔
درج ذیل سطور میں کچھ سوالات ہیں جو فری میسن کارکن بننے والے ایک امیدوار سے کیے گئے اور ساتھ ہی اس کی جوابات ہیں۔ یہ مکالمہ فری میسن کی ابتدا میں ۱۷۳۰ء میں منعقد ہونے والی ماسٹر میسن کی حلف برداری کی ایک تقریب سے تعلق رکھتا ہے:
سوال: جب تم عمارت کے وسط میں پہنچے تو تم نے کیا دیکھا؟
جواب: حرف G کی مشابہت۔
سوال: G کا حرف کس بات کی نشاندہی کرتا ہے؟
جواب: اس کی ہستی کا جو تم سے بڑی ہے۔
سوال: مجھ سے بڑا کون ہے؟ میں ایک آزاد اور مستند میسن ہوں۔ ماسٹر آف لاج ہوں۔
جواب: کائنات کا موجد اور سب سے بڑا معمار یا ’’وہ‘‘ جو مقدس معبد [ہیکل سلیمانی] کے کلس کی چوٹی پر لے جایا گیا۔

یہاں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فری میسن کی اصطلاح میں حرف G محض خدا کے لیے نہیں بلکہ ’’اس‘‘ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو مقدس معبد یا ہیکل کے کلس کی چوٹی پر پہنچایا گیا۔ اور یہی وہ نام نہاد دویوتا اور الوہی شخصیت ہے جس کی بدنصیب یہود عبادت کرتے ہیں۔ فری میسنری برادری کے ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو یہ شخص یا جن ’’حیرم آبیف‘‘ ہے جو ہیکل سلیمانی کے نو بڑے معماروں (ماسٹر میسنز) کا سربراہ (گرینڈ ماسٹر) تھا۔ ’’عالمی یہودی تنظیمیں‘‘ میں اس کا تفصیلی تذکرہ آچکا ہے۔
دجال ظاہر ہوگا تب بھی اس کو عام لوگ نہیں پہچان پائیں گے جس طرح کے یہودیوں کے فریب کا شکار لوگ ان کے ایجنٹ بن کر بھی ان کے شیطانی مذہب کو سمجھ نہیں پاتے۔ دجال جب ظاہر ہوگا تو وہ دجال ہونے کا دعویٰ نہیں کرے گا اور نہ ہی نئے مذہب کا داعی ہوگا۔ وہ جدیدیت کا علمبردار اور انسانیت کا دعویدار بن کر نمودار ہوگا اور یہود اپنے اس جھوٹے مسیحا کو بہت بڑا دردمند اور انسانیت کے خیرخواہ کے روپ میں پیش کریں گے۔ تبھی تو لوگ اس پر اعتماد کریں گے کیونکہ ان کو دجالی مذہب کی اصطلاحات پر اعتماد کرنا سکھا دیا گیا ہوگا۔ لوگ مجبور ہوکر نہیں، متاثر ہوکر اس کی طرف بڑھیں گے۔ فری میسنری کے پیلٹ فارم سے ٹھیک یہی کچھ ہو رہا ہے۔ لوگ اس تنظیم کو اور اس کے ذیلی اداروں (روٹری کلب، لائنز کلب، شرائنز، مغربی این جی اوز) میں ’’مذہب سے بالاتر ہوکر‘‘ انسانیت کی خدمت کے لیے شامل ہوتے ہیں۔ اور پھر انہیں وہ ’’روحانی اطمینان‘‘ ملے یا نہ ملے جس کا انہیں جھانسا دیا گیا تھا، ایک نئے شیطانی مذہب کی آغوش ضرور مل جاتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو دجال کی خبر سن لے وہ اس سے دور رہے۔ اللہ کی قسم! آدمی اپنے آپ کو مؤمن سمجھ کر [یہ جملہ انتہائی قابل غور ہے: راقم] اس کے پاس آئے گا اور پھر اس کے پیدا کردہ شبہات میں اس کی پیروی کرے گا۔‘‘

(۲) دجال کے ساتھی:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’۔۔۔ واَکثر تبعہ الیھود والنساء۔۔۔‘‘ یعنی: ’’دجال کے پیروکاروں کی اکثریت یہودی اور عورتیں ہوں گی۔‘‘ (مسند احمد، مسند الشاملیین، حدیث عثمان بن العاص عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم:۱۷۲۲۶)
اب یہاں اشکال ہوسکتا ہے کہ یہودیوں کی تعداد تو بہت کم ہے۔ ان کے بل بوتے پر وہ عالمی نظام، عالمی حکومت اور عالمی مذہب کے قیام کی کوشش کیسے کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہودی دھوکا دے کر اپنے ساتھ صہیونیوں کو ملالیں گے۔ ’’صہیونی‘‘ ہر اس شخص کو کہتے ہیں جو یہودی یا نہ ہو، لیکن یہودی مقاصد (مثلاً عالمی دجالی ریاست کے قیام) کی تکمیل میں یہود کا آلۂ کار بن جائے۔ یہودیوں کے فریب کا شکار وہ عیسائی، ہندو اور مسلمان ہوں گے جو دجال کے فتنے سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکیں گے اور اس کے پھندے میں پھنس جائیں گے۔ امریکا اور پورپی ممالک یہود کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں۔ وہ یہودیوں سے زیادہ اسرائیل کے حامی ہیں اور اس کی حمایت کو اپنے لیے باعث برکت سمجھتے ہیں۔ یہود کے دھوکہ و فریب اور مکر و دجل کا کمال دیکھیے کہ عیسائی مذہب میں جو پیش گوئیاں جناب مسیح صادق حضرت عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کے حوالے سے وارد ہوئی ہیں، یہودی ان کو دجال پر منطبق کرتے ہیں اور پھر عیسائیوں کو دھوکا یہ دیتے ہیں کہ ہم مسیح موعود کا انتظار کر رہے ہیں اور مسلمان مسیح مخالف (Anti christ) ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اور عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کا اور یہود دجال اکبر کے منتظر ہیں جس کو حضرت مسیح علیہ السلام مسلمان مجاہدین اور خوش نصیب نو مسلم عیسائیوں کی مدد سے قتل کریں گے۔ یہود تو عیسائیوں کے اور ان کے مقدس پیغمبر کے دشمن ہیں۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ستایا، تنگ کیا اور بالآخر ان کے قتل کا منصوبہ بنایا جبکہ مسلمان آج بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتہائی احترام کرتے ہیں اور اس سے پہلے بھی کرتے تھے اور آیندہ بھی ان کے ساتھ مل کر ان کے دشمنوں سے جہادِ عظیم کریں گے۔ کیا دنیا میں عیسائیوں جیسی سادہ قوم بھی ہوگی جو اپنے پیغمبر کے قاتلوں سے تو دوستی اور تعلق رکھے اور جو ان کے (اور اپنے، مشترکہ) پیغمبر سے بے پایان محبت رکھتے ہیں، ان سے نفرت اور دشمنی رکھے؟
بھارت کی اسرائیل سے دوستی کسی سے مخفی نہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب امریکی خلائی شٹل ’’کولمبیا‘‘ زمین کے مدار میں داخل ہوتے ہی برباد ہوگئی تو راز کھلا کہ اس میں چار امریکی، تین اسرائیلی جبکہ ایک بھارتی خاتون خلا باز سوار تھے۔ ابلیسی مشن پر گئی یہ ’’مثلث‘‘ (امریکا، اسرائیل، بھارت) فضا کی تسخیر کے بعد خلائی تسخیر کا ارادہ رکھتی تھی۔ پاکستان کے ایٹم بم ایجاد کر لینے کے بعد اسے زیر دست لانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اب خلائی جنگ میں بھارت کو اتنی برتری دلائی جائے کہ پاکستان خدا نخواستہ اس کے سامنے گھنٹے ٹیک دے۔ وہ تو خدا کا کرنا کہ بھارت کی مکھی یہود کے گندگی کے ڈھیر پر نہ بیٹھ سکی۔ ڈھیرہی بھک سے اُڑگیا۔
رہ گئے دجالی مسلمان، تو یہ وہ بدنصیب ہوں گے جو ’’فکری ارتداد‘‘ کا شکار ہوں گے۔ (اس گروہ کے سرخیل وہ تمام اسکالرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز اور نام نہاد دانش ورہوں گے جو دین کا حلیہ بگاڑنے میں پیش پیش رہے۔) جو مال و اولاد کے فتنے میں پھنس چکے ہوں گے۔ جو حرام خوری و حرام کاری سے توبہ نہیں کریں گے۔ جنہیں عیش پرستی اور لذت کوشی راہ خدا میں اُٹھنے سے روک لے گی اور جو دجال کی شعبدہ بازیوں سے بچانے والے اہلِ حق کی پکار کو ’’پسماندہ ملّائیت‘‘ کہہ کر ٹھکرا دیں گے اور پھر دجال کے ساتھ دنیا و آخرت کی رسوائی سمیٹیں گے۔

دجال اکبر کے ظہور سے قبل فریب کی دو ممکنہ صورتیں
اگر یہ سوال کیا جائے کہ یہ لوگ عقل و فہم اور دین و ایمان رکھتے ہوئے کیونکر دجال کی پیروی پر راضی ہوجائیں گے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کو اس نظر سے دیکھ رہے ہوں گے جس نظر سے مغربی میڈیا ان کو دکھاتا ہے۔ مغربی میڈیا دجال کو ان کا سب سے بڑا خیر خواہ ثابت کرے گا۔ بد اعمالیوں کی نحوست کے باعث مسلمانوں کی ایمانی بصیرت ختم ہوچکی ہوگی۔ یہ عصرِ حاضر کو ان احادیث کی روشنی میں نہیں جانچ پارہے ہوں گے جن میں دجال، دجالیت اور فتنۂ دجال (مال و دولت، حسن، طاقت، ٹیکنالوجی) کی حقیقت سے مسلمانوں کو وضاحت کے ساتھ، تاکید کے ساتھ اور اہمیت کے ساتھ آگاہ کیا گیا ہے۔ پھر حدیث شریف میں آتا ہے کہ بعض لوگ کہیں گے ہم جانتے ہیں یہ دجال ہی ہے مگر ہم اس کے پاس موجود سہولیات سے استفادہ کررہے ہیں۔ ہم اس کے مذہب پر نہیں۔ حدیث میں ہے کہ ان کا حشر بھی دجالیوں کے ساتھ ہوگا۔ فتنۂ دجالِ اکبر اور ظہورِ دجال اکبر روئے ارض پر برپا ہونے والے اس سب سے بڑے معرکے کے نام ہیں جہاں فریب ہی فریب اور دھوکا ہی دھوکا ہے۔ فتنۂ دجال اکبر رو حقیقت فریب کا فتنہ ہوگا۔ یہ فریب در اصل فریب نظر ہوگا۔ مثلاً مستقبل میں گلوبل ویلیج کا پریذیڈنت دجالِ اکبر سرا پا فتنہ ہوگا لیکن عام لوگوں کو نجات دہندہ نظر آئے گا۔ بہت سے مسلمان اپنی بدعملی کی نحوست اور دجال کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے دجال کو دیکھتے ہی نہیں پہنچان پائیں گے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب وہ ظاہر ہوگا تو یہود و نصاریٰ اور کفار کی اربوں کی تعداد اس کی گرویدہ ہوکر اس کے پیچھے پیچھے چلنے اور اس کی ایک آواز پر جان دینے کو تیار ہوجائے گی۔ ان حالات میں مسلمانوں کی بھی کثیرآبادی جو برائے نام مسلمان ہوگی اور در اصل وہ ان لوگون پر مشتمل ہوگی جو اس کے ظہور سے قبل ہی ’’فسطاط نفاق‘‘ (نفاق کے خیمے) میں داخل ہوچکی ہوگی، اس کے پیچھے لبیک کہہ کر چل پڑے گی بلکہ اس کے جھنڈے تلے لڑنے اور جان دینے پر آمادہ ہوجائے گی۔ ایسی صورت میں جو یہ جان لیں گے کہ اس متاثر کن شخصیت کے پیچھے چھپا شخص عیسیٰ ابن مریم نہیں بلکہ ’’دجال اکبر‘‘ ہے، وہی اصلاً اہل ایمان ہوں گے۔ ڈاکٹر اسرار عالم کہتے ہیں کی عین ممکن ہے کہ ابلیس دجال اکبر کے ظہور کے لیے ایک عظیم مکر کا بھی سہارا لے۔ اس مکر و فریب کی دو ممکنہ صورتیں ہوسکتی ہیں:

پہلی صورت:
روئے ارض پر ’’دجال اکبر‘‘ کو ظاہر کرنے سے قبل کسی اچھی شخص کو جو مظلوموں کی دادرسی کے لیے اُٹھاہو، پروپیگنڈے کے ذریعے دجال اکبر قرار دیا جائے اور اسے خوب بدنام (Demonise) کرنے کے بعد اس کے قلع و قمع کے لیے اصلی دجال اکبر کو ’’عیسیٰ ابن مریم المسیح‘‘ بنا کر ظاہر کیا جائے جو متاثر کن شخصیت لے کر آئے اور خود کو ’’مسیح‘‘ کی طرح پیش کرے۔

دوسری صورت:
اس کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ کسی شخص کو بے انتہا ظلم کرنے پر اُبھارا جائے اور اس سے دنیا کے مختلف علاقوں میں واقعی ظالم کی طرح برتاؤ کرایا جائے اور نوبت ایسی آجائے کہ لوگ اس کے ظلم سے پناہ کے طلب گار ہوں اور انہیں کہیں پناہ نہ ملے اور ٹھیک اس وقت اصلی ’’دجال اکبر‘‘ کو اس ظلم کے خاتمے کے لیے ’’مسیح‘‘ بنا کر ظاہر کیا جائے اور لوگ اسے سچا ’’مسیح‘‘ اور نجات دہندہ سمجھنے لگیں۔

فتنہ دجال سے بچنے کے دو ذرائع
’’فتنہ دجالِ اکبر‘‘ کوئی معمولی فتنہ نہیں۔ نہ ہی ظہور دجال کوئی معمولی ظہور ہے۔ یہ ایک ایسی آزمائش ہوگی جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں۔ اس کے فتنے ایسے ہمہ گیر اور ہیبت ناک ہوں گے اور پوری انسانیت اس طرح پے در پے ذہنی، فکری، سیاسی، معاشی اور عسکری حملوں سے بے دم بنادی جائے گی جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ یہ ایک ایسی گھڑی ہوگی جب دوسروں کی تو بات ہی جدا ہے خود انسان اپنے آپ پر اعتماد کرنا چھوڑ دے گا۔ معرکۂ دجال اکبر در اصل معرکہ قتل عظیم (War of Megadeath) ہے۔ اس تناظر میں ’’دجال اکبر‘‘ کے اس شدید فتنے سے بچنے اور اسے ناکام بنانے کے دوہی راستے باقی رہتے ہیں:

(۱) ایسے مقامات اور مواقع سے بچنا جہاں ہلاکت ’’قتل عظیم‘‘ کی شکل لے سکتی ہے۔ مثلاً: رہائش کے اعتبار سے گنجان رہائشی علاقوں (High Concentration Residences) سے دور رہنا۔ ان دونوں میں اہل ایمان کو بڑے شہروں سے اجتناب کرنا اور دیہاتوں پہاڑوں کی طرف نکلنا مفید ہوگا۔ شہروں میں ویسے بھی فتنوں کے مواقع زیادہ اور نیکیوں کا ماحول کم ہی ہوتا ہے۔ اور دجالیت نیکیوں سے دور گناہوں کی دلدل میں جنم لیتی ہے۔

(۲) جہاد کے لیے دل سے تیار ہوجانا اور یہ طے کرلینا کہ قبل اس کے کہ کوئی ہماری جان لے ہم اپنی جان فدا کرکے ابدی حیات پالیں۔ دوسرے لفظوں میں ناگزیر قتلِ عظیم کو بے بس کی موت کے بجائے ’’پسندیدہ شہادت‘‘ کی صورت میں تبدیل کردینا۔ یہ ایمان والوں کی فتح عظیم اور دجال و ابلیسی قوتوں کی واضح ناکامی ہوگی۔
جاری…

مأخوذ از: دجال (کون؟ کہاں؟ کب؟) جلد اول، صفحہ: ۱۵۲۔۱۶۱، تألیف: مفتی ابولبابہ شاہ منصور

دوسرا قسط


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں