آؤ مل کر آگ بجھائیں!

آؤ مل کر آگ بجھائیں!

یہ بات ریکارڈ پر رہنی چاہئے کہ میں نے جنگ اور جیو کے انتہائی اہم عہدیدار کی حیثیت سے ایک بار نہیں بلکہ کئی مرتبہ اسکرین پہ آکر یہ ’’پالیسی بیان‘‘ دیا کہ ’’میرے اِدارے کے ایک ایک فرد کے دل میں قومی سلامتی کے اِداروں بشمول انٹر سروسز انٹیلی جنس کا بے پناہ احترام ہے اوربات صرف احترام ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر محب وطن پاکستانی کا اُن سے عقیدت کی حد تک ایک ایسا گہرا اور اَٹوٹ رشتہ ہے جسے چند جذباتی بیانات یا حالات کے دباؤ کے نتیجے میں سبقتِ لسانی کے باعث قابلِ اعتراض جملوں کی بنیاد پر ختم کیا ہی نہیں جاسکتا‘‘۔

کس کا ماضی کیا تھا؟پچھلے برسوں میں کس نے کیا کیا؟اُس دور میں ایسا کیوں ہوا؟ یا پھر وہ سب کیا تھا؟ اگر اِسی میں اُلجھے رہنے کا ہم نے اِرادہ کرہی لیاہے تو پھر بے وقوفوں کی طرح نتائج کا انتظار کرنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ تاریخ کی ہر کتاب میں ’’عاشقانِ ماضی ٔ مطلق‘‘ کا ہر دور کے حال نے بُرا حال اور آنے والے مستقبل نے پہچاننے سے ہمیشہ انکار کیا ہے …صاف اور شفاف تو سمندر اور دریا بھی نہیں ہوتے مگر کم از کم انسانوں سے اچھے ہیں کہ گرد کو ہمیشہ گہرائی میں دبوچے رکھتے ہیں اور اپنی سطحی خوب صورتی کو آلودہ نہیں کرتے…مگر ایک ہم ہیں کہ ماضی سے ہزارپا کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور حال کا دیا ہوا حَسین گھر چھوڑ کر ’’پرانے میدان‘‘ کی گندی کیچڑ میں ایک دوسرے پر مٹھیاں بھر بھر گندگی اُچھال رہے ہیں…مجھے نہیں معلوم کہ سکھانے والے نے کیسے سکھایا مگر اللہ کی قسم! میں نے رب کی عطا سے اپنی غلطیوں سے بہت سیکھا ہے اور میں ہمیشہ ہی سے بیتے دِنوں کا اِسی لئے شکر گزار رہتا ہوں کہ وہ میرے تجربات تو ضرور بنے لیکن آج کے اُستاد نہیں! …ویسے تو آج چند ’’حادثاتی صحافی‘‘ اِس ملک کے قومی اِداروں کا جس ’’جواں مردی‘‘ سے مقدمہ لڑ رہے ہیں، دیکھا جائے تو ’’کردار کے ورق‘‘ تو اُن کے بھی بڑے خستہ اور بوسیدہ ہیں،اُن کے لفظوں میں حب الوطنی کی مہک نہیں بلکہ پیشہ ورانہ رقابت اور بغض و عِناد کے بدبودار بھبکے ہیں لیکن وقت نے اُنہیں’’نورِ نظر‘‘ بنا چھوڑا ہے اور سندیں جاری کرنے والوں نے اُنہیں فروغِ کذب و ریا کے ایسے ’’خصوصی اجازت نامے‘‘ جاری کر دیئے ہیں جس کی بنیاد پر وہ جس پر چاہیں الزام لگا دیتے ہیں اور اگر دوسری جانب خاموشی رہے تو ’’رضا مندی‘‘ سمجھتے ہوئے ’’اجتماعی آبروریزی‘‘ سے بھی گریز نہیں کرتے…بھئی یہ بھی خوب ہے! پہلے من چاہا الزام دھرو اور پھر جبراً جواب کا تقاضا بھی خود ہی کرو…اور اگر کوئی منہ لگنا نہ چاہے تو ’’دو چار مزید عدالتیں‘‘ لگا کر پسند کے گواہان سے بیانات لینے کے بعد رات 9یا 11بجنے میں چند لمحے قبل فیصلہ بھی سنا دو…اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ اُس نے ابھی سزا کے اختیار اِن چپڑ قناتیوں کے ہاتھوں میں نہیں دیئے ورنہ اِن کے شوز کا اختتام ہی ہم جیسوں کی ’’پھانسی‘‘ پر ہوتا۔
کون سا مذہب،مسلک،ملک یا اِدارہ ایسا ہے جہاں گند پھیلانے والے موجود نہ ہوں…کیا گردنیں کاٹنے کا حکم اسلام نے دیاہے؟ کیا کسی ملک کے آئین نے بدعنوانی اور اقربا پروری کو جائز قرار دیا ہے؟ کیا کسی مسلک کی یہ تعلیمات ہیں کہ دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے ’’کافر‘‘ کے سوا اور کچھ نہ ہوں گے یا کسی اِدارے کا یہ ماننا ہے کہ ہمارے سوا سب غدار ہیں…نہیں صاحب!اگرایسا ہوتا تو میرا رب اپنے پیارے آدم علیہ السلام کو دنیا میں’’خلیفہ‘‘ بنا کر کبھی نہ بھیجتا…اُس نے تو زمین پر آدم علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا ہی اِسی لئے تھا کہ نیک اور بد راہوں پر چلنے والوں کا تعین ہوجائے اور آدم کی اولاد ہی سے اِس کی ابتدا یوں ہو کہ’’میرے نبی تو بے شک معصوم ہیں مگر اُن کی اولاد بھی معصوم ہو یہ ضابطہ میں نے مقرر نہیں کیا‘‘ چنانچہ قابیل نے اپنی نفرت کا اظہار ہابیل سے یوں کیا کہ حسد کی آگ میں جل بھن کر اُسے بے دردی سے قتل کردیا…اِس بدبخت انتقام کی آگ میں ایک بُرائی یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ جلتی نہیں رہتی بلکہ بدلے کے بعد ٹھنڈی ہوجاتی ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب احساسِ جرم، جرم چھپانے کا ایک اور بڑا جرم کراتا ہے لہٰذا …اُس نے نعش چھپانے کے طریقے سوچنے شروع کردیئے اور یہیں اللہ کے بھیجے ہوئے کوّے نے اپنی چونچ سےزمین کرید کر دراصل اُسے دوپیغامات دیئے….پہلاتو یہ کہ تیرا بھائی مسلمان تھا اِسے دفن کر اور اِس کی نعش کا بوجھ قیامت تک اپنے کاندھوں پر محسوس کر!آج سے ہر قتل کا ایک حصہ تیرے نام ہی لکھا جائے گا… اور دوسرا یہ کہ تمہارا یہ جرم اُس سے پوشیدہ نہیں جو ہر نظر سے بڑی نظر رکھتاہے اور ہر سماعت سے بَلند سماعت۔
پھر مان لیجئے کہ سب بُرے ہوتے ہیں اور نہ سب اچھے…اور یہی جزا اور سزا میں فرق کی بنیاد ہے…ہم اگر ایک دوسرے سے اُلجھے تو جگ ہنسائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا…پاکستان اپنی فوج اور آئی ایس آئی جیسے عظیم اور قابلِ فخر اِداروں کی بنا پر نامکمل ہے جی ہاں! نامکمل ہے اور اگر کسی کو اِس حقیقت سے اختلاف ہے تو وہ سمجھ لے کہ میں بھی نامکمل ہوں کیونکہ میں ہی فوج اور آئی ایس آئی ہوں، وطن کی حفاظت کرنے والے اِن اِداروں نے کبھی جان بھی مانگی تو شیخ لیاقت حسین کا بیٹا اور محمودہ سلطانہ کے کلیجے کی ٹھنڈک کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا،ہمارے اجداد ہجرت کر کے آئے تھے،ہم ہجرت کر کے جائیں گے نہیں! اور اِسی طرح پاکستان کے لبوں پر بھی اُس وقت تک مسکراہٹ نہیں آسکتی جب تک کہ ایک آزاد لیکن ذمہ دار میڈیا اُس کی پلکیں اور گیسو نہ سنوارتا رہے… سب کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں اور بے شک دشواری صرف ’’ذمہ داری‘‘ کی ہی ہے…مجھے کہنے دیجئے کہ ہم من حیث القوم ’’انتہائی غیرذمہ دار‘‘ ہوچکے ہیں اور اِسی وجہ سے شکی، بدمزاج، اکھڑ، تند خو، ضدی اور خود سر ہوتے جارہے ہیں، اپنے آپ ہی کو درست،بھلا مانس اور معصوم صفت سمجھتے ہیں اور باقی دنیا جائے بھاڑ میں۔
شاید یہ ہم سے بھی ہوا ہے اور کئی بار ہوا ہے ،ہم نے غلطیاں کی ہیں ،ممکن ہے کہ بار بار کی ہوں لیکن صاحب! ہم غدار نہیں…وفاداری کا پیمانہ اگر سبز لہو ہوتا تو ہم اپنی ماؤں سے شکوہ ضرور کرتے کہ تم نے ہمیں سرخ لہو سے کیوں پیدا کیا؟ لیکن پیدا کرنے والے کی قسم! سبزہ ہمارے اندر اُگتاہے ،ہم خاک سے بنے ہیں پھر کیسے ممکن ہے کہ خاکی کی عزت نہ کریں! بقول آپ کے اگر ہم میں کچھ ’’فسادی‘‘ ہیں تو چھان پھٹک کیجئے کہیں آپ کی صفوں میں بھی دوریاں پیدا کرنے والوں نے طاقت تو نہیں پکڑ لی، بہتر ہے کہ ہم ’’بانٹنے‘‘ والوں کی نشان دہی کریں… خلیج پاٹنے والوں کو موردِ الزام نہ ٹھہرائیں…اب وقت آگیا ہے کہ جملوں میں احتیاط اور لفظوں کے چناؤ میں قومی وقار کا خیال رکھا جائے…کچھ ’’بند‘‘ کردینے سے کچھ بند نہیں ہوتا، نظر بندی آپ کا حق ہے لیکن ’’نظر‘‘ پہ بندش تو ممکن ہی نہیں…ہم تو خود دکھی ہیں،اپنے حامد کی تیمارداری میں مصروف اُن کی اہلیہ کے آنسوؤں اور دعاؤں کے گواہ ہیں لیکن جب ’’لوگ‘‘ کہتے ہیں کہ گولیاں صرف پیٹ میں کیوں لگیں؟ تو یہی دعا کرتے ہیں کہ ’’اے رب! اِنہیں ہمیشہ محفوظ رکھنا اور خاکم بدہن اگر ایسے ظالموں سے اُن کا پالا پڑ جائے تو حملہ آوروں کو اُس وقت وہ عقل نہ دینا جس کے نہ ہونے کا اِنہیں بڑا قلق ہے‘‘۔
آئیے مل کر آگ بجھاتے ہیں،آئیے پھر سے گلے مل کر ایک دوسرے سے معافی مانگتے ہیں،آپ ہم سے ہیں اور ہم آپ سے ہیں،ایک دوسرے سے جدا رہ کر ہم کیسے جی سکتے ہیں؟اِس بے سبب لڑائی میں آنسو صرف پاکستان کے بہہ رہے ہیں جو ہماری ماں اور آپ کی عزت ہے اور دنیا کے ہر بیٹے کو اپنی ماں اور اُس کی عزت ہر شے سے پیاری ہوتی ہے…چلو کچھ دیر کے لئے ماضی بھلائیں اور دل ملا کر دیکھیں تو سہی!…چلو غبار کے بادلوں کو صاف کر کے ایک دوجے کی بات سنیں تو سہی!…شاید کہ تہذیب کے بستے سے درگزر کی کوئی کتاب ہی نکل آئے!شاید کہ اِس دشوار رستے میں کوئی صلح کرانے والا ہی مل جائے…!!

ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
جنگ نیوز

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں