عورت ایک ماں، بہن، بیٹی، بیوی

عورت ایک ماں، بہن، بیٹی، بیوی

بارہویں صدی ہجری کی ابتدا(اٹھارہویں صدی عیسوی)میں جب اقوام مغرب نے عالم اسلام پر یورش کی تو اس کے ہمہ گیر اثرات سے عالم اسلام کا کوئی گوشہ محفوظ نہ رہ سکا،مغرب اپنے تمام تر سازو سامان ،وسائل و ذرائع کے ذریعے عالم اسلام پر حملہ آور ہو چکا۔

مسلمانوں کی معاشرت، رہن سہن،اسلامی افکار وخیالات، تہذیب و تمدن، ان کی تاریخ غرض یہ کہ ہر اس چیز کو بدلنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے مسلمان ان کے آگے سر اٹھا سکیں اور یہ لوگ اپنی کوششوں میں اور سرگرمیوں میں نت نئے طریقے ڈھونڈنے لگے۔مختلف نعرے ایجاد کیے گئے، جو دل و دماغ کو تو بھلے لگے۔لیکن ان کے نتائج انتہائی بھیانک صورت میں سامنے آئے عربوں کے اندر قومیت کی تخم ریزی کی گئی، جس کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کے کئی ٹکڑے ہو گئے۔

مسلمانوں کو اپنا ماضی بھلانے اورعورتوں کے کردار و عظمت کو داغ دار کرنے کے حیلے سوچے گئے۔ مختلف نعروں کے ذریعے ان کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights)کے لیے آوازیں بلند کی گئیں، عورتوں کو مساوات اور شانہ بشانہ نعروں کے ذریعے گھروں سے نکال دیا کہ مرد کے مساوی تمام حقوق حاصل کرے، لیکن ان نعروں کا مقصد مسلمانوں کے خاندانی نظام کو تہہ و بالا کرنا تھا، جو اسلام کی تعلیمات کی وجہ سے ایک مربوط شکل میں قائم تھا۔

چناں چہ یورپ کا اپنا خاندانی نظام تباہ ہو چکا، بہن، بیٹی ،ماں کا کوئی کردار نہیں ،ان کے نزدیک عورت کی حیثیت ہے تو صرف ایک مرد کی خواہش کو پوری کرنا ۔ کیوں کہ ان لوگوں نے عورت کو اپنے پسندیدہ نعروں کی آڑ میں اس کے حقوق کو غصب کیا، اور آج بڑے زور وشور سے اسلامی ممالک کے اندر این جی اوز (NGO)کے ذریعے اس چیز کی راہ ہم وار کی جارہی ہے۔

لیکن سوچنے کی بات ہے کہ اسلام نے وہ تمام حقوق ،جو ایک عورت ذات کے لیے تھے، آج سے چودہ صدیاں پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جاری کردیے تھے ،اسلام کی آمد سے پہلے عورت کی حالت انتہائی خراب اور اس کو جانور سے زیادہ بدتر تصور کیاجاتا تھا۔

فرانس میں اسلام سے ماقبل عورت کے بارے میں یہ خیال تھا کہ اس کے اندر آدھی روح ہوتی ہے، پوری روح نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے ہر برائی کی جڑ ہے۔ چین میں عورت کے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ”عورت کے اندر شیطانی روح ہوتی ہے،اسی وجہ سے یہ فساد کا باعث ہوتی ہے۔“

جاپان میں عیسائیت نے رہبانیت کو گھڑ لیا اور یہ تصور قائم کر دیا کہ ازدواجی زندگی گزارنا اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے میں رکاوٹ ہے، اس لیے مرد”راہب“ بن کر اور عورتیں ”راہبہ“ بن کر خدا کی معرفت حاصل کریں۔

یہ تھے اسلام سے ماقبل کے تصورات، لیکن اسلام کی آمد کے بعد عورت کو جو حقوق ملے وہ پہلے کبھی نہیں ملے۔ عورت اگر ماں ہے تو انسان اس کی خدمت کر کے اس کے قدموں تلے سے جنت حاصل کر سکتا ہے،عورت اگر بیٹی ہے تو ایک باپ کے لیے عزت ہے۔پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس نے دو بچیوں کی اچھی طرح پرورش کی، انہیں اچھی تعلیم دے کر ان کی شادی کروادی تو قیامت کے دن وہ اور میں (انگلیوں کی طرف اشارہ کر کے فرمادیا)اس طرح قریب ہوں گے۔ یہ مقام دیا گیا ایک باپ کو بیٹیوں کی پرورش پر۔ عورت اگر کسی کی بہن ہے تو عزت وناموس ہے۔

عورت اگر بیوی ہے تو اس کو گھر کی ملکہ کہا گیا،گھر کی تمام ذمہ داریاں اس کے سپرد کردی گئیں، مرد تو باہر سے کما کر لائے گا اور عورت کا کام صرف اتنا کہ وہ اس کو خرچ کرے، اس کو کھانا بنا کر دے۔ یہ تمام کام گھر میں عورت کرے گی، عورت کو باہر کے بھاری کام نہیں کرنے پڑیں گے۔

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خاتون حاضر ہوئیں اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! مردتو نیکیوں میں ہم سے بہت آگے بڑھ گئے؟ پوچھا کیسے ؟ وہ اس طرح کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے ہیں، ساری ساری رات جاگ کر سرحدوں پر پہرہ دیتے ہیں، لیکن ہم گھروں کے اندر ان کے بچوں کی پرورش کرتی ہیں ،ان کو پکا کر کھلاتی ہیں،ان کی تربیت کا خیال رکھتی ہیں اور ان کی جان و مال کی حفاظت کرتی ہیں۔لیکن ہم رات کو ان کی طرح پہرہ نہیں دیتیں،قتال نہیں کرتیں۔مرد مسجدوں میں جاکر باجماعت نماز ادا کرتے ہیں جب کہ ہم گھر میں پڑھ لیتی ہیں؟ جب انہوں نے یہ سوال پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،”سوال پوچھنے والی نے بہت اچھا سوال کیا“۔

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورت گھر میں اپنے بچوں کی وجہ سے رات کو جاگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس مجاہد کے برابر اجر عطا فرماتے ہیں جو ساری رات جاگ کر پہرہ دیتا ہے، گویا نرم گرم بستر پر مجاہد کے برابر ثواب مل گیا اور جو عورت گھر میں نماز پڑھے اس نے مرد کے برابر باجماعت نماز کا ثواب پایا“۔یہ ہے اسلام کی وہ تعلیمات اور وہ حقوق(Human Right)جو آج تک کسی قوم نے نہیں دیے اگر حقوق اسی کا نام ہے کہ عورت کو بے پردہ کرکے اس کی تصاویرہر چوراہے پر لٹکائی جائیں اور اگر مساوات اسی کا نام ہے کہ عورت کو مردوں کی طرح کاموں پر لگادیا جائے، جو کام مردوں کے کرنے کے ہوتے ہیں، بڑے بڑے ٹرالر چلانا،سڑکوں کی تعمیر،عمارتوں کی تزئین و آرائش،فوج کے ساتھ میدان جنگ میں لڑنا تو اسلام ان حقوق کی اجازت نہیں دیتا۔

آج اگر یہ لوگ وولٹائر، مونٹسیکواور روسو کے نظریات کا پر چار کرتے ہیں اور عورت کی آزادی کی باتیں کرتے ہیں اور عورت کو گھر سے باہر نکالنے اور بے پردگی عام کرنے پر این جی اوز کو ذریعہ بناتے ہیں تو یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ مسلمانوں کے اندر جو دین سے محبت و عقیدت ہے اس کو مٹانا چاہتے ہیں اور وہ خاندانی نظام جو مغرب کا پہلے سے تباہ ہوچکا اب اس کے درپے ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کے اس خاندانی نظام کو بھی تباہ کیا جاسکے۔سوویت روس کے آخری صدر نے اپنی کتاب (Perestrioke) میں لکھا ہے کہ ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یورپ میں عورت کو گھر سے باہر نکالنے کے نتیجے میں کچھ معاشی فوائد تو ضرور حاصل ہوئے، لیکن نظام کاشیرازہ بکھر گیا اور اب یہ ایک اہم سوال ہے کہ اسے واپس کیسے لایا جائے؟

آج مغرب اس بات پر پریشان ہے کہ عورتوں کو تو ہم نے گھر سے باہر نکال دیا اور مساوی حقوق دے دیے ،شانہ بشانہ چلنے میں جو رکاوٹیں تھیں،ختم کر دی گئیں، لیکن ان تمام صورتوں میں ہمیں کچھ فوائد تو حاصل ہوئے،معاشی ترقی تو حاصل ہوئی، لیکن خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر کررہ گیا۔اب یہاں پر نہ وہ ماں کا تقدس قائم ہے اورنہ بہن کی ناموس باقی ہے اور نہ بیٹی سے محبت باقی ہے ایک باپ کو معلوم نہیں کہ اس کی بیٹی رات گئے تک کہاں رہتی ہے اور نہ ایک شوہر کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی کونسے کلب میں جاتی ہے اور رات دیر سے لوٹتی ہے؟ اگر ایک شوہر یا باپ عورت سے پوچھ گچھ کرے گا،تھوڑی سی سختی کرے گا تو اسے جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔نہ کوئی قیدو بندش اور نہ کوئی عزت و شرف،ایک باپ کو اپنی بیٹی کے ساتھ بہت زیادہ محبت ہوتی ہے، وہ اس سے بہت پیار کرتا ہے، لیکن جب یہی بیٹی اس کی عزت خاک میں ملا دے اس کی نافرمانی کرے تو اس باپ کوہی پتا ہوتاہے جو اس کے دل پر گزرتا ہے۔

اسلامی تعلیمات نے عورت کو حقوق دے کر اس پر بڑا احسان کیا، اسلام ہی کی تعلیمات نے باپ بیٹی کے درمیان مقدس رشتے کو برقرار رکھا۔ایک باپ کے ذمہ لگادیا گیا کہ وہ بیٹی کی پرورش کر کے، اس کو تعلیم سے روشناس کرائے اور جب بالغ ہوجائے تو اس کو شادی کے بندھن میں باندھ کر اپنے گھر رخصت کردے، پھر یہاں تک ہی نہیں کیا، بلکہ اس کاجب جی چاہا،اپنے والدین کے گھر آسکتی ہے۔

لیکن اس دور میں جب کہ ہر طرف حقوق نسواں(Human Right) کے نعرے بلند کیے جارہے ہیں ،مغرب میں عورت کے پردہ کرنے پر پابندی لگادی جاتی ہے۔اگر کوئی اپنا مقدمہ لڑنے عدالت جاتی ہے توبھری عدالت میں اس کا خون کیا جاتا ہے، اگر اپنی عزت آبرو بچانے کے لیے پردہ کرنا چاہتی ہے تو اس پر آوازیں کسی جاتی ہیں، یہ ہے مغرب کا دوہرا معیار، جس کے پیچھے ہم چل پڑے ہیں ۔بغیر سوچے سمجھے مغرب سے درآمد شدہ چیزیں لے لیتے ہیں اور ان پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہوئے اپنالیتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے کے اندر ہزاروں خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں، اگر ہم نے ان چیزوں پر غورنہ کیا تو یورپ سے برآمد شدہ افکارونظریات اور دوسری چیزیں ہماری ہر چیز کو بہا کر لے جائیں گی، پھر”ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں“۔

محترم مسعود عظمت، کراچی
جامعہ فارقیہ

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں