سیاست اور میڈیا

سیاست اور میڈیا

برق صرف بے چارے پاکستانیوں پر ہی کیوں گرتی ہے؟اس سوال کا جواب بہت ڈھونڈا۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران چین سے جنوبی کوریا تک ‘ امریکہ سے برطانیہ تک اور سعودی عرب سے ملائیشیا و انڈونیشیا تک‘ دنیا کے کونے کونے میں گھومنے کا موقع ملا۔ ہر جگہ دوسری اقوام سے اپنی قوم کا موازنہ کرتارہا۔ ہمارے ملک میں بے حیائی ہے لیکن دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ پاکستان میں کرپشن ہے لیکن دنیا کا کوئی ملک بھی کرپشن سے یکسرپاک نہیں۔ نمازیں پاکستان میں زیادہ پڑھی جاتی ہیں،عمرے اور حج پر جانے والوں میں پاکستانی سرفہرست ہیں، مدرسے یہاں پر زیادہ ہیں،دینی جماعتوں کی یہاں بہتات ہے،تبلیغی جماعت دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں یہاں سب سے زیادہ مضبوط ہے، اللہ اور رسول کے نام پر لڑنے اور مرنے والے دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں پاکستان کے اندر زیادہ ہیں پھر امریکہ اور جاپان یا ترکی اور یو اے ای کے بجائے پاکستان ہی کیوں دہشتستان بنا ہوا ہے۔ باقی دنیا کیوں جنت کا منظر پیش کررہی ہے اور پاکستان میں جینا کیوں عذاب بن گیا ہے؟
مجھے ایک ہی وجہ نظر آئی۔ منافقت اور دوغلے پن میں ہم نمبرون ہیں، کسی قوم میں اتنی منافقت دیکھنے کو نہیں ملتی جتنی کہ پاکستان میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ یہ وہ ملک ہے جہاں منافقت اور دوغلے پن کی وجہ سے بہادر اور بزدل ‘ شریف اور کمینے‘ حرام خور اور حلال خور ‘ سچے اور جھوٹے ‘ رہبر اور رہزن حتیٰ کہ محب وطن اور غدار کا فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہاں فرشتوں کے روپ میں شیطان پھرتے ہیں اور بعض شیطان مشہور ہونے والوں کو قریب سے دیکھو تو فرشتہ دکھائی دے گا۔ یہاں جھوٹا‘ سچ کی تبلیغ کرتا ہوا نظر آتا ہے اور سچے کے سچ پر یقین کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ گیدڑوں نے شیر کا روپ دھار لیا ہے اور شیروں سے گیدڑوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ رحمت سید لولاکﷺ پر کامل ایمان کے باوجود پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کو یہاں پر بسنے والی امت سید لولاکﷺ سے خوف آتا ہے ۔ منافقت کی یہ لعنت معاشرے کی رگ رگ میں سرائیت کرچکی ہے حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ آخرت میں منافق کا ٹھکانہ کافروں سے بھی بدتر ہوگا ۔ رب کائنات نے شاید دنیا میں بھی منافقت کی سزا کفر سے بدتر مقرر کی ہے ‘ اس لئے آج عالم کفر سکون میں اور ہم پاکستانی ایک دردناک اور کربناک عذاب میں مبتلا ہیں ۔ اسی منافقت کا نتیجہ ہے کہ ہمارا ملک سیاستدانوں سے بھر گیا لیکن لیڈر یا رہنما کوئی نظر نہیں آتا۔ سیاستدان قوم کے جذبات سے کھیلتا تو لیڈر ان کے جذبات کو قابو میں لاتا اور اسے عقل و شعور کے تابع بناتا ہے۔
سیاستدان قوم کا رخ دیکھ کر اس کے پیچھے چلتا ہے جبکہ لیڈر قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔ سیاستدان وہی موقف اپناتا ہے جو قوم کو اچھا لگے لیکن لیڈر قوم کو حاضر و موجود سے بے زار اور تلخ حقائق سے روشناس کراتا ہے۔ آج ہر طرف نظر دوڑائیں تو ہماری مجموعی قومی قیادت (مذہبی اور سیاسی) ان بیماریوں کی شکار نظر آتی ہے لیکن افسوس کہ اب میڈیاکا بھی ایک حصہ سیاستدانوں کے نقش قدم پر چلنے لگا ہے۔ مذہبی اور سیاسی رہنمائوں کی طرح پاکستانی میڈیا بھی بظاہر بہت متحرک نظر آتا ہے لیکن ان کی طرح اس میں بھی منافقت کی بیماری بدرجہ اتم داخل ہوگئی ہے۔ اور لگتا ہے کہ یہ ایک سنجیدہ نہیں بلکہ سیاستدان میڈیا ہے ۔ پاپولرزم اس کا دین اور سطحیت اس کا وتیرہ بن گیا ہے۔ مستثنیات سے کوئی شعبہ مستثنیٰ نہیں اور جس طرح سیاستدانوں یا مذہبی رہنمائوں میں بعض کی ریٹنگ اللہ اور قوم کے دربار میں اچھی ہے ‘ اسی طرح میڈیا میں بھی بعض لوگ مذکورہ بیماریوں سے پاک ہوں گے تاہم ان میں سے بعض ویورشپ اور ریڈرشپ کے غلام ہیں جو ٹاک شو کرتے یا خبر دیتے وقت قوم کی آگاہی یا ایجوکیشن نہیں بلکہ ریٹنگ ہی کو مد نظررکھتے ہیں اور کالم لکھتے وقت بھی یہ بعض کالم نگاروں کے پیش نظر یہی رہتا ہے کہ کس طرح اس پر اکثریت کی طرف سے واہ واہ کے نعرے بلند ہوں۔
سیاستدانوں کی طرح بعض میڈیا والے بھی بزدل ہو کر بہادر دکھنا چاہتے ہیں،ان کی طرح بعض لکھنے والے بھی وہی موقف اپناتے ہیں جس پر دیکھنے اور پڑھنے والوں کی اکثریت خوش ہو۔ بعض سیاستدانوں کی طرح یہ بھی اندر سے کھوکھلے ہیں لیکن باہر سے پارسائی کی چادر اوڑھ رکھی ہوتی ہے۔ ان کی طرح بعض نے یہ وتیرہ بھی اپنا رکھا ہے کہ ٹی وی پر آکر جس کو للکارتے ہیں‘ شام کو ان کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے میڈیا کا ایک حصہ خبر کے نام پر قوم کو بے خبر بنا رہا ہے۔
دعویٰ یہ ہے کہ وہ قوم کی تربیت کررہا ہے لیکن اندر سے قوم کو کنفیوزڈ کررہا ہے۔ طالبان کے مسئلے کو لے لیجئے۔ پچھلے دس سالوں میں میڈیا کے ایک حصے نے جتنی زیادہ خبریں اس موضوع سے متعلق دی ہیں‘ کسی اور موضوع سے متعلق نہیں دیں۔ جتنے تبصرے اس موضوع پر ہوئے ‘ کسی اور موضوع پر نہیں ہوئے ۔ جتنے کالم اس سے متعلق لکھے گئے‘ کسی اور موضوع سے متعلق نہیں لکھے گئے ۔ جتنے ٹاک شوز کا اہتمام اس موضوع سے متعلق کیا گیا ‘ اس کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن ان سب کچھ کے باوجود آج بھی قوم طالبان کی حقیقت سے بے خبر ہے۔ سول سوسائٹی کے پڑھے لکھے لوگوں سے لے کر پارلیمنٹیرین تک ‘ اس موضوع کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جس بھی محفل میں بیٹھیں پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ طالبان کون ہیں؟ جتنے منہ اتنی باتیں والا معاملہ ہے۔ کسی کے نزدیک وہ اسلام کے سپاہی تو کسی کے نزدیک دہشت گرد ہیں۔ کوئی انہیں پاکستانی ایجنسیوں کا تو کوئی غیرملکی ایجنسیوں کے ایجنٹ سمجھتا ہے ۔ کوئی انہیں پختونوں سے جوڑ رہا ہے تو کسی کے نزدیک یہ پختونوں کے خلاف سازش ہے۔ کسی کے نزدیک وہ مدرسوں کی تو کسی کے نزدیک یہ معاشی جنگ کی پیداوار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا نمبرون مسئلہ بن جانے کے باوجود آج پوری ریاست اس مسئلے سے متعلق کنفیوزڈ ہے اور اسی کنفوژن کی وجہ سے آج ریاستی ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف سب فریق میڈیا پر برہم ہونے لگے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو شکوہ ہے کہ میڈیا طالبانائزیشن پھیلارہا ہے اور طالبان میڈیا کو اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ سمجھتے ہیں۔ ایک بڑا طبقہ یہ الزام دے رہا ہے کہ میڈیا امریکہ اور ہندوستان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور دوسری طرف امریکہ پاکستانی میڈیا کو اپنے خلاف فضا کا ذمہ دار سمجھتا ہے ۔ سیاستدان سب سے زیادہ میڈیا پر برہم ہیں اور مذہبی طبقات اس کی زبان بندی کے خواہشمند ۔ میڈیا سب کو خوش کرنا چاہتا تھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج اپنے بھی خفا ہم سے ہیں بیگانے بھی ناخوش والا معاملہ ہے۔ ہم میڈیا والوں کی گناہوں کی فہرست بہت طویل ہے اور ان کی تلافی کرتے کرتے عمر گزر جائے گی لیکن کیوں نہ تلافی کا آغاز کرتے ہوئے ہم آج ہم یہ عہد کرلیں کہ کم ازکم طالبان اور عسکریت پسندی کے مسئلے پر ہم اپنی صحافت نہیں چمکائیں گے ۔ کم ازکم اس مسئلے پر جذبات سے نہیں کھلیں گے۔ سچ نہیں بول سکتے تو کم ازکم جھوٹ نہیں بولیں گے ۔ عافیہ صدیقی اور لال مسجد کی ہم اگر حقیقت سامنے نہیں لاسکتے تو ان جیسے ایشوز پر غلط بیانی نہیں کریں گے۔ ہم اگر اپنی اور قوم کی کنفیوژن ختم نہیں کرسکتے تو کم ازکم اس مسئلے پر بول بول اور لکھ لکھ کر اس میں مزید اضافہ نہیں کریں گے۔

سلیم صافی
بشکریہ روزنامہ “جنگ”

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں