سروس چارجز یا سود؟

سروس چارجز یا سود؟

اﷲ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مسلمانوں میں آج ایسے لوگ باقی ہیں جو حرام کے خلاف آواز اُٹھا رہے ہیں ۔

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے تو بڑے فخر کے ساتھ وزیراعظم یوتھ بزنس لون کا اعلان کردیا،جس کے مطابق 1لاکھ سے 20لاکھ روپے تک کافرضہ ملے گا،پہلے مرحلے میں ایک لاکھ افراد کے لئے کاروبار شروع کرنے موقع فراہم کیاجائے گا،جوبنے گا لاکھوں افراد کیلئے ذریعہ روزگار۔وزیراعظم کے اعلان کے مطابق قرضے کے کل سروس چارجزمیں سے 8فیصد قرض لینے والاادا کرے گاجبکہ 7فیصدحکومت دے گی۔

بڑی خوشی کی بات ہے کہ حکومت نے روزگار کے معاملے پر غور وفکر کیا لیکن ایک بات مجھے بہت پریشان کررہی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس کو حکومت نے سروس چارجزکا نام دیا ہے کیا وہ سود نہیں ہے؟ اگر سود ہے تو پھر 7فیصد سود حکومت یعنی ریاست کے غریب عوام ادا کریں گے جنہوں نے وزیراعظم یوتھ لون سکیم سے قرض بھی نہیں لیا ہوگااور 8فیصد سود قرض لینے والا دے گا۔

سود پر قرض دینے کا اعلان صرف اسلامی قوانین کے ہی منافی نہیں بلکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 کی بھی خلاف ورزی ہے ۔اور آرٹیکل 92میں یہ بات بہت واضع طور پر درج ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم مسلمان ہوگا‘‘ ایک مسلمان کبھی بھی ﷲ اور ﷲ کے رسولﷺ کے خلاف جنگ کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتا۔وزیراعظم بزنس لون کے اعلان کے بعد سود کے خلاف اُٹھنے والی سینکڑوں آوزیں سن کر یقین ہوگیاکہ ابھی روشنی باقی اور مسلمانوں کا مستقبل ابھی تاریخ نہیں ہوا۔

آج محسوس ہورہا ہے کہ بہت جلد مسلمان اپنے حکمرانوں کو ﷲ اور اُس کے رسولﷺ کے خلاف لڑی جانے والی جنگ سے باہر نکال لیں گے ۔بھلائی و نیکی کو خود اختیار کرتے ہوے دوسروں کودعوت دینا ہمارا فرض ہے۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ــ’’تم وہ بہترین اُمت ہوجسے نوع انسانی کیلئے نکالا گیا ،تم نیکی کاحکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہو۔اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جولوگوں کونیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے ،اور یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں(آل عمران)نیکی کوفروغ دینا،،پھیلانا اور اس کی اشاعت و تلقین کرنا ،برائی کو مٹانا،برائی کو روکنا اور لوگوں کو گناہ سے منع کرنا بھی اُمت مسلمہ کا فرض منصبی ہے۔دین اسلام صرف یہی نہیں کہ انسان خود تو نیکی کی راہ پرگامزن ،عبادت میں مشغول رہے اوراپنے اردگرد کے ماحول سے بے نیازی احتیار کرے بلکہ دین کا تقاضایہ ہے کہ انسان دوسروں کو برائی سے روکے اور انہیں بھلائی کی تلقین کرے ۔

آج جو مسلمان سود دیتے ،لیتے نہیں لیکن سودی نظام کے خلاف آواز نہیں اُٹھا رہے( ﷲ تعالیٰ معاف فرمائے)ممکن ہے کل روزقیامت اُن کو بھی سود کھانے یعنی ﷲ اور اُس کے رسولﷺ کے خلاف جنگ لڑنے والوں کا لشکر شمار کیا جائے ۔لہٰذاہم سب کو چاہیے کہ سودی نظام کی بھرپور مذمت بھی کریں اور اپنی طاقت کے مطابق روکنے کی کوشش بھی کریں ۔اس طرح اگر ناکام بھی رہے تب بھی آخرت میں شرمندگی سے بچ سکتے ہیں ۔

اپنے علم و شعور کے مطابق راقم بھی اپنی تحریر کے ذریعے سودی نظام کے خلاف آواز اُٹھاتا رہتا ہے ۔مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ سامنے کون ہے وزیر اعظم پاکستان ہے تو کیا ہوا۔جس چیز کو میرے ﷲ نے حرام کردیا اسے اس دنیا کی کوئی بھی طاقت حلال کرنے کی نہ تو طاقت رکھتی ہے اور نہ ہی صلاحیت ۔آج میں ہر اُس مسلمان کو سلام پیش کرتا ہوں جس جس نے سودی نظام کے خلاف کسی بھی طرح آواز بلند کی۔حکومت کی فرمابرداری عوام پر فرض ہے لیکن جب تک حکمران ﷲ اور اُس کے رسولﷺ کی فرمابرداری کریں ۔

آج پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی بے روزگاری کی چکی میں پس رہی ہے۔ حکومت ایک لاکھ افراد کو سود پر قرض دے کر بے روزگاری کا خاتمہ کرنے نکلی ہے کیایہ درست اقدام ہے ؟ اگر وزیراعظم یوتھ لون سکیم میں بتاے گئے چارجز سود ہیں تو پھر آئیے مسلمانوں پہلے ﷲ کے قرآن اور رسول ﷲ ﷺ کے احادیث مبارکہ کی روشنی میں سود کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشادفرمایا ’’اے ایمان والوں ﷲ سے ڈرو،اور چھوڑ دو جو کچھ سود میں سے باقی رہ گیا اگر تم مومن ہو،پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہوجاؤلڑنے کیلئے ﷲ اور اُس کے رسولﷺسے(سورۃ البقرہ )‘‘

حدیث مبارک ہے’’سود ایک درہم جس کو آدمی جان بوجھ کر کھاتا ہے چھتیس بار زنا سے زیادہ گناہ رکھتا ہے (مسنداحمد)،سود کے گنا ہ کے ستر درجے ہیں سب سے ادنیٰ درجہ وہ ایسا ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے(ابن ماجہ)حکومت قومی خزانے سے وزیراعظم یوتھ لون کا 7فیصد سودا دا کرنے جارہی ہے جبکہ قومی خزانہ قوم کی امانت ہوتا ہے ۔

حکومت اس طرح نہ صرف امانت میں خیانت کرے گی بلکہ قوم کے ایک ایک فرد کو سودی نظام کا حصہ بنا لے گی ۔اس بات کو ہر پاکستانی نہیں سمجھ رہا کہ ہم پہلے بھی آئی ایم ایف سے لیے گیے قرض کا سودبجلی ،پیٹرول اور دیگر اشیاء پر لگنے والے ٹیکس کی صورت ادا کررہے اور اب وزیراعظم یوتھ لون سکیم کا 7فیصد سود بھی ہمیں ہی ادا کرنا ہے ۔یعنی ہم پہلے بھی ناچاہتے اور غیر ارادی طور پر ﷲ اور اُس کے رسولﷺ کے خلاف حالت جنگ میں ہیں اور اب اس جنگ کا دائرہ مزید بڑھانے جارہے ہیں ۔اگر سود ی نظام کے بغیر نظام ریاست نہیں چل سکتا تو پھر مسلمان حاکموں نے بڑی بڑی ریاستوں کا نظام کس طرح چلایا؟(ﷲ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے )کیاحضرت عمرفارق ؓ کے دور خلافت میں سودی نظام رائج تھا؟ جن کی کامیاب حکمرانی کو آج تک غیر مذہب بھی نہ صرف تسلیم کرتے بلکہ کاپی بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓجن کے دور میں مسلمانوں نے اتنی ترقی کی کہ زکوۃ لینے والا کوئی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا تھا بلکہ ہر کوئی اتنا خوشحال تھا کہ زکواۃ دینے کیلئے مستحق تلاش کرتا رہتا تھا ۔کیا یہ ترقی معاذﷲ سود کے بدولت تھی؟نہیں بالکل نہیں مسلمان کبھی بھی سودی نظام قبول نہیں کرسکتا ۔سود ہمیشہ غربت بڑھاتا ہے ۔سودپرقرض لینے والی قومیں ہمیشہ زوال پزیراوردوسروں کی غلام رہتی ۔ وزیراعظم پاکستان کو اگر نوجوانوں کی فکر ہے تو اُنہیں ضرور قرضٖ دیں لیکن سود پر نہیں بلکہ قرض حسنہ ۔

آخر میں محترم علماء کرام کی خدمت میں یہ سوال پیش کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ جس کو وزیر اعظم پاکستان نے سروس چارجز کا نام دیا ہے کیا وہ سود نہیں؟ اگر سود ہے تو پھر علماء کرام اور مذہبی اسکالرز قوم کی رہنمائی فرماتے ہوئے پوری قوم کو ساتھ لے کر ﷲ تعالیٰ اور اُس کے رسولﷺ کے خلاف جاری جنگ روکیں تاکہ مسلمان مزید تباہی سے محفوظ رہیں۔
یاد رہے کہ میرا مقصد سیاست یا حکومت کی مخالفت نہیں بلکہ اصلاح ہے ۔

امتیاز علی شاکر
بشکریہ ہماری ویب

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں