’’سرتاج امریکہ‘‘ کے ’’عزیز‘‘ کیلئے پھر ڈرون!…

’’سرتاج امریکہ‘‘ کے ’’عزیز‘‘ کیلئے پھر ڈرون!…

 

 

 

بھئی اب بلاوجہ جھوٹ موٹ لڑنے نہ پہنچ جائیے گا کہ ’’اَملیکا اَملیکا! آپ نے تو کہا تھا کہ اب حملہ نئیں کَلیں گے،ڈِلون نئیں گِلائیں گے مگل کل یہ کیا کَل دیا،

اب چھَب مُش شے نالاج ہوجائیں گے اول کوئی بی مے لِی بات پَل یَکین نئیں کَلے گا‘‘اوں اوں اوں اوں اوں‘‘…اور شاید اِس ’’سمع خَراشی‘‘ پربطورِ سزا ایک اور ڈرون پاکستان کی جانب روانہ کردیا جائے…حکمرانوں کی ’’معصومیت‘‘ دیکھ کر کبھی تو جی چاہتا ہے کہ اِنہیں گود میں لے کر خوب ٹہلاؤں،یہ جو کہیں اُنہیں وہ ’’چیز‘‘ دلاؤں…ٹافی مانگیں،ٹافی دوں،چاکلیٹ مانگیں چاکلیٹ خریدوں، اِنہیںBib پہناؤں، Mashکر کے کیلا کھلاؤں، اِن کو چلانے کے لئے ’’واکر‘‘ لے آؤں، تھوڑے بڑے ہوجائیں تو ’’سائیکل‘‘ دلاؤں(حالانکہ یہ ایک زمانے میں بڑے ہونے کے باوجود’’سائیکل‘‘ نہیں چلا سکے تھے) … اور یہ آواز سننے کے لئے تو میرے کان تَرستے ہیں کہ ’’انکل! ہَپّا چاہئے‘‘…افسوس کہ ہم نے ایسے ننھے مُنّے، بَبوئے ، گُڈّوں پر کتنا بوجھ لاددیا ہے، اِن سادہ بھولوں کو کس کام پر لگادیا ہے، یہ تو ابھی زمین سے پوری طرح اُگے بھی نہیں ہیں اور ہم اِن سے پَھلوں کی توقع لگا بیٹھے ہیں!…اِن کی سادگی پر تو مَرمٹنے کو دل کرتا ہے ، جھوٹے امریکہ کو یہ سچا ثابت کرنے کیلئے ’’ایڑی توند‘‘ کا زور لگا دیتے ہیں اور عوام کو اپنا آبائی ’’محلہ‘‘ سمجھتے ہوئے پریس کانفرنس کی ’’پُلیا‘‘ پر اُس کے وعدے ایسے بیان کرتے ہیں کہ جیسے یہ سب کچھ ’’ابّو نے کہا ہے‘‘…یاد ہے نابچپن میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے سب ہی ’’بڑائیاں‘‘ مارا کرتے تھے اور اِسی ’’بھرم بازی‘‘ کے دوران اچانک ’’ابّو یا ابّا‘‘ آن پہنچتے تھے جس کے بعد گُدی پر دھپ کی آواز کانوں میں ’’میٹھی سیٹی‘‘ کی طرح دیر تک گونجتی رہتی تھی…یہ بھی گزشتہ روز ’’بھرم مار رہے تھے‘‘…بڑے زعم اور ’’بہترین تعلقات‘‘ کے بوسوں کی لذت کو محسوس کرتے ہوئے ’’پالے شے سرتاج‘‘ نے اِرشاد فرمایا تھا کہ ’’امریکہ نے یقین دہانی کرادی ہے، اب مذاکرات کے دوران کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوگا…‘‘ اور پھر اُنہوں نے (جتناہے) اُتنا ہی سینہ پُھلا کر مؤرخین کا کام بڑھانے کے لئے یہ تاریخی جملہ بھی داغ دیا کہ ’’پاکستان نے امریکہ کے مؤقف کو تسلیم نہیں کیا اور اُسے بتادیا ہے کہ ڈرون حملے ہماری سلامتی اور خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہیں‘‘۔
بھلابتائیے ابّا حُضور کویہ بات کس طرح پسند آسکتی تھی کہ جن بچوں کوچُھٹپن میں گود لیا ہو وہ ’’بڑے‘‘ ہوکر بھی گود میں چڑھنے کے لئے’’ اُتاؤلے‘‘ ہوئے جائیں(اِن میں سے بعض تو ایسے ہیں جو اُترنے کے لئے تیار نہیں) اور شیو نکل آنے یہاں تک کہ بال گرجانے کے باوجود ’’ابو گودی ابو گودی‘‘ جیسی ’’غیر ذمہ دارانہ ضدیں‘‘مسلسل کئے جائیں…بس پھر کیا تھا، زور سے ایک ڈِرونی دھپ رسید کردی گئی اور اب صرف کان بج رہے ہیں…دیکھ لیجئے گا کہ بعض سورما کیسے سینہ پھلا کر میدان میں آئیں گے،قسم ہے کہ جو کوئی ٹیلی ویژن کے سامنے سے ہٹا کیونکہ آنے والے دِنوں میں ایسے ’’شاہکار دعوؤں‘‘ کی گھڑیاں آنے والی ہیں جس کے دوران کمرشل بریک بھی ’’حرام‘‘ ہے…کوئی کہے گا ’’بس اب بہت ہو گیا، آئندہ ایسے کسی بھی حملے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘(اے!خبردار جو کوئی ہنسا)…’’امریکہ نے بداعتمادی کی انتہا کردی،تعلقات پر نظرِثانی کرنے کے لئے اجلاس بلالیا ہے،جلد بڑے فیصلے کریں گے‘‘(ارے پھر ہنسے!)…’’پاکستان کی سرزمین کسی کے باپ کی جاگیر نہیں کہ جب جس کا جی چاہے وہ ڈرون گِرادے‘‘(چلو اِس پرتو قہقہہ بَنتا ہے یار!)’’ہنگو پر ڈرون حملے کے نتیجے میں 6طلبہ کی شہادت (شہادت کا لفظ میں نے استعمال کیا ہے ،میڈیا نہیں کرتا)کے بعد اہم اجلاس طلب کرلیاگیا،حکومت کی جانب سے سخت ردِعمل کا امکان‘‘(ایک اور عجیب و غریب دعویٰ) اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ’’سخت ردِعمل‘‘ کیا ہوسکتا ہے؟ ارے نہیں جانتے؟؟…چلئے بتائے دیتا ہوں، آپ بھی کیا یاد رکھیں گے، سخت یا شدید یا زوردار ردعمل یہ ہوتا ہے کہ امریکی سفیر کو دفترِخارجہ طلب کرنے کے بعد اُن سے ڈرون حملے پر احتجاج کیاجائے، سفیر خاموشی سے سنے، واپس جائے اور اپنی حکومت سے کہہ دے’’میرا قیمتی وقت برباد کرنے پر ایک ڈرون مکرر!‘‘
سمجھ سے بالاتر ہے کہ سرکاری ’’خرچے‘‘ پر امریکی یقین دہانی کے ’’چرچے‘‘ کرنے کی ضرورت ہی کیاتھی؟ابھی تو وزیر داخلہ کے اِس بیان کی گونج بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ ’’ڈرون حملہ مذاکرات پر حملہ ہے اور اب ہم امریکہ سے اپنے تعلقات کا نئے سِرے سے جائزہ لیں گے‘‘…کہ لیجئے صاحب! آپ جائزہ ہی لیتے رہ گئے اور اُنہوں نے اپنا فائدہ دیکھتے ہوئے وہی کرڈالا جس کی اُن سے ’’سچی اُمید‘‘ تھی…حیرت ہے کہ سرتاج اُن کی باتوں میں آگئے اور صرف باتوں ہی میں نہ آئے بلکہ پوری قوم کے سامنے انتہائی اعتماد کے ساتھ مسکراتے ہوئے امریکی وعدہ بھی بھروسے کی پیکنگ میں لپیٹ کر رکھ دیا۔
اجی! کیا ہم سب کو ’’سَنیڑا یا اِہیڑا‘‘ سمجھ رکھ ہے، عقل و فہم سے عاری نہیں ہے یہ قوم! سب جانتی اور سمجھتی ہے ،اگر نہ سمجھتی توچار آنے کے بیس ،پچیس چپڑقناتیوں نے سانحہ راولپنڈی کے بعد سوشل میڈیا پر جو اپنی ’’پیں پیں‘‘ کا شور اُٹھا رکھا تھا اُس میں بہہ جاتی اور پھر نہ جانے کتنا خون بہتا ، اِس قوم نے ثابت کردیا ہے کہ ہر اٹھائی گیرا، ایرا غیرا، متعصب، نفرت کا ٹَٹو اور اِچھّا دھاری ناگ، سوشل میڈیا پر زہر اگل کر اپنے گھناؤنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتا…سیکڑوں چِنڈالی جعلی شناختوں کے پیٹ سے نکل کرجس طرح چاہیں بھونکیں لیکن شعور کے ماہتاب کو انشاء اللہ کبھی گہن نہیں لگ سکتا…لہٰذا اے میرے سرتاج!آپ نے ایسا سوچ ہی کیوں لیا کہ جو آپ فرما رہے ہیں اُس کی چاشنی سے اپنی سماعتوں میں رَس گُھلوانے کے بعد ہم’’ڈرون بیچ کر سو جائیں گے‘‘…آپ کویقین ہوگا اپنے دوست اور گورے گوشت پر لیکن ہم تو اِن کے دھوکے میں ’’دال‘‘ کو بھی 6 مرتبہ لکھتے ہیں اور پھر اِنہیں دھوکے باز پڑھتے اور کہتے ہیں…ہمیں امریکہ میں وزیراعظم صاحب کی ’’پذیرائی‘‘ کے بعد ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ڈرون سے جان نہیں چُھوٹنے والی مگر کیا کیجئے کہ حکومت کے سارے اَرِسطو، بطلیموس،ارشمیدس اور ’’جعلی نوس‘‘’زور زور سے ہجے کر کے یہی پڑھتے رہے کہ ’’ڈِرون بند، ڈِرون بند، ڈِرون بند‘‘، خیر یہ تو کیا بند ہوتے یہاں عوام کے سَروں پر جو ’’کھلے‘‘ گھوم رہے ہیں اُنہیں آج تک کوئی بند کرنے کی ہمت نہ کرسکا اور اگر کسی نے غلطی سے ایسی ہمت دکھلانے کی کوشش بھی کی تووہ عزت سے جینے کی کوشش میں ہی چپ چاپ مرگیا۔اب کرتے رہئے احتجاج اور مچاتے رہئے شور! جتنا پھڑپھڑانا ہے پھڑپھڑا لیجئے…اپنے ’’طائرِ مختار‘‘ کو آپ نے خود صیاد کے حوالے کیا ہے، عزتوں کے سودوں سے گھر میں اقتدار کا فرنیچر ڈالنے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ غیرت کا مظاہرہ کریں، مشرف سے لے کر نوازشریف صاحب تک،جس نے جو چاہا اُسے مل گیابلکہ جس سے چاہا اُسی سے ملا اور اب یہ اُس کی چاہت ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا رہے…بس کرم فرما کے دکھیاروں کے سامنے ٹسوے بہانے بند کردیجئے،ہم تو پہلے ہی لہو کے سالن میں بے بسی کی روٹیاں ڈبو کر کھا رہے ہیں، دِکھاوے کی ہمدردی سے مزید رُسوا نہ کیجئے، آپ نے ہمیشہ ڈرون رکوانے کیلئے امریکہ کی طرف بھک منگوں اور فِقَّٹوں کی طرح دیکھا، اے کاش کہ آپ اِن بزدلالئےنہ حملوں کا سامنا کرنے کیلئے ایک بار اُمید سے اپنی قوم کی طرف دیکھ لیتے جس نے آپ سے بڑی آس لگالی تھی…بے شک قصور ہمارا ہی ہے ،آپ تو بے گناہ ہیں، سوچا تھا آپ سارے دکھ دور کردیں گے،ہر دردختم ہوجائے گا اور بلاشبہ آپ نے ایسا ہی کیا،درد تو جسم کو ہوتا ہے ،دکھ تو وجود سہتا ہے ،آپ نے توجسم چھوڑا نہ وجود…اورکیسا حَسین علاج کیا کہ اب درد ہوتا ہے نہ دکھ…

ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
جنگ نیوز

 

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں