ترے وعدہ پر جئے ہم…

ترے وعدہ پر جئے ہم…

آفات دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک قدرتی جن پر بندوں کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اور دوسری بندوں کی اپنی پیدا کردہ لیکن دونوں اقسام کو بھگتنا انسان کو ہی پڑتا ہے!

بلوچستان کے ضلع اوران میں جو زلزلہ آیا اس میں بندوں کا ہاتھ نہیں تھا لیکن اس کے نتیجے میں جس آفت سے نبٹنا پڑ رہا ہے اس میں سب سے افسوسناک پہلو ان درندہ صفت دہشت گردوں کے قاتلانہ حملے ہیں جن کا سامنا امدادی سامان لیکر جانے والے قافلوں کو کرنا پڑ رہا ہے اور جس کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ وہ آفت زدہ اور دکھیارے لوگ جن کے سروں پر زلزلے کے بعد صرف کھلا آسمان ہے اور پائوں تلے بے درد زمین وہ ان سہولتوں سے محروم ہو رہے ہیں جو حکومت اور انسانی ہمدردی کے مارے ان تک پہنچانا چاہ رہے ہیں!
یہ انسان نہیں درندے ہیں جو بزعم خود حریت پسند ہونے کے دعویدار ہیں۔ امدادی قافلوں کو بربریت کا نشانہ بنانے والے وہ دہشت گرد ہیں جو بظاہر بلوچوں کی آزادی کے علمبردار ہونے کے ناطے بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کی جنگ لڑ رہے ہیں!
بلوچستان میں یہ وطن دشمن کارروائیاں ایک عرصے سے جاری ہیں اور ان میں تیزی اس وقت سے آئی ہے جب سے سامراج نے افغانستان سے پسپائی اختیار کی ہے اور بڑی بڑی عالمی طاقتیں ہزیمت اور رسوائی کے بعد اب راہِ فرار ڈھونڈ رہی ہیں! لیکن سامراج کی سرشت میں چونکہ ابلیسیت ہے لہٰذا ابلیس کی سنت پر عمل کرتے ہوئے وہ اپنی پسپائی کے بعد بھی شر جاری رکھنے کیلئے پاکستان کے اس حساس علاقے میں اپنے کارندے چھوڑ کر جانا چاہتا ہے۔ یہ بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک سامراج کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے۔ بلوچستان میں اسلحہ باہر سے آ رہا ہے اور وہ تنظیم جو اپنے آپ کو بلوچستان لبریشن فرنٹ کہتی ہے اس کا صدر مقام اسرائیل میں ہے۔ یہی ایک حوالہ بہت کافی ہے اس بھید کو پا جانے کیلئے کہ تحریک کس کے ایماء پر چل رہی ہے اور اس کے لئے وسائل کہاں سے آ رہے ہیں!
پاکستانی حکمرانوں سے بلوچستان کے ضمن میں جو بڑی فاش بلکہ مجرمانہ غلطی ہوئی وہ یہ کہ ہر حکومت نے وہی وطیرہ اختیار کیا جو برطانیہ بہادر نے ہندوستان پر حکمرانی کے دور میں اپنایا تھا۔ بلوچستان پر براہ راست دہلی سے وائسرائے بہادر اپنے سیاسی ایجنٹ یا ریذیڈنٹ کی وساطت سے حکومت کرتے تھے۔ بلوچستان برائے نام صوبہ تھا لیکن فرنگی اس پر حکومت ان موروثی سرداروں کے ذریعے کرتا تھا جو تاج برطانیہ کے نمک خوار اور وفادار تھے اور اپنے بلوچ عوام کے سب سے بڑے دشمن۔ ان سرداروں کی نظر میں عوام گاجر مولی کی طرح تھے جنہیں جب جی چاہے کاٹا جا سکتا تھا اور یہی ہوتا بھی تھا! پاکستان کے ہر طالع آزما نے بھی یہی آزمودہ نسخہ اپنایا اور بلوچ سردار حکومتی مراعات کے بل بوتے پر اپنے عوام کے حق میں چنگیز اور ہلاکو بنے رہے! ہم نے شاید پہلے بھی اس کتاب کا حوالہ دیا تھا جو آج سے کوئی چالیس برس پہلے ایک انگریز خاتون صحافی نے جن کا نام  سلویا نورس تھا، نواب اکبر بگٹی کی مہینوں میزبانی کے بعد ”  ٹائیگرز آف بلاچستان” کے عنوان سے لکھی تھی! اس نے جو کچھ لکھا تھا اس کی تصدیق تو ہمارے سول سروس کے ان ساتھیوں کی زبانی بھی ہوگئی تھی جو جتنے عرصے بلوچستان میں تعینات رہے آٹھ آٹھ آنسو بہاتے رہے۔ اس خلق اور تشویش میں کہ بلوچ سردار اپنے علاقوں میں اسکول بنانے کی اجازت نہیں دیتے تھے اور اگر قسمت سے کوئی اسکول بن بھی جاتا تھا تو اس کے اساتذہ اور عملے کو مار پیٹ کے بھگا دیا کرتے تھے!
اب اکبر بگٹی جیسے عوام دشمن پرویز مشرف جیسے سامراج دوست اور ملت فروش کی عنایت سے شہید قرار پائے ہیں اور کس مائی کے لعل میں ہمت ہے کہ ان کا نام شہید کی رضافت کے بغیر لے سکے! سو پاکستان دشمن سامراج گماشتوں کیلئے اب اکبر بگٹی حریت کی نشانی ہے اور بلوچستان کی آزادی کی ہم ان کے خون کے تاوان یا خون بہانے کے نام پر چلائی جا رہی ہے!
سامراج کی پیداوار تو وہ بدبخت طالبان بھی ہیں جنہوں نے گزشتہ ہفتے پشاور میں اللہ کے نام پر اس کے ان بے گناہ عیسائی بندوں کا خون بہایا جو اپنے طریقے سے اپنے گرجا گھر میں اسی ایک اللہ کی عبادت کر رہے تھے۔ اس سفاکی، اس ظلم اور بربریت کی سند ان خون آشام درندوں نے کس سے لی ہے؟
یہ درندے اس خدا کے نام پر معصوموں اور بیگناہوں کو قتل کر رہے ہیں جس کا واضح اور غیرمبہم اعلان یہ ہے کہ ایک بیگناہ انسان کا قتل پوری انسانی برادری کا قتل عام ہے!
یہ جاہل درندے اس رسول پاکۖ کے کلمہ گو ہونے کے دعویدار ہیں جس نے اپنی امت کو قیامت تک کیلئے یہ منشور عطا کیا ہے کہ غیر مسلم کی جان بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی مسلم کی اور اقلیتوں کا مذہب، ان کا مسلک اور ان کی عبادت گاہیں اتنی ہی مقدس اور سلامتی کی حقدار ہیں جتنی کہ مساجد! تاریخ عالم کے اس عظیم ترین انسان نے مدینہ میں سب سے پہلا معاہدہ یہودیوں اور عیسائیوں سے کیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ ان کو بلاجواز ہراساں کرنے والا رسولۖ کا دشمن ہوگا اور رسولۖ محشر میں اس کے دامن گیر ہونگے!
ہم مسلمان جذباتیت کے کشتہ اپنی رو میں بہت آسانی سے یہ کہہ جاتے ہیں کہ مغرب ہمارا دشمن ہے۔ ہوگا۔ شاید ہو لیکن اپنے سب سے بڑے دشمن تو ہم خود ہیں۔ ہم اپنی جہالت، اپنی گمراہی اور اپنے فاسد و فاسق تصورِ دین کے سبب اس دین برحق کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ہیں جو پوری انسانی برادری کو امن اور آشتی کا گہوارہ بنانے کیلئے آیا تھا اور جس کے پیغام بر کیلئے دنیا بنانے والے نے یہ کہا کہ وہ عالمین کیلئے قیامت تک کیلئے رحمت ہی رحمت ہے۔ آج اس نبیۖ برحق کی امت عالمی برادری کیلئے مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ صرف اور صرف اپنے کرتوتوں کے سبب!
میاں نوازشریف کے رنگ ڈھنگ تاحال تو غنیمت ہی ہیں۔ بھارت سے مفاہمت اور دوستی کا جو بیڑا انہوں نے اٹھایا ہے وہ ہر لحاظ سے مستحسن ہے۔ بھارت سے مسلسل نبردآزمائی اور مخاصمت نے پاکستان کو کوئی فیض نہیں پہنچایا سوائے اس کے کہ اس کو جواز بنا کر فوج نے اپنی چودھراہٹ قائم کی۔ ملک میں ہر ادارہ کمزور سے کمزور ہوتا گیا لیکن ایک ادارہ مضبوط سے مضبوط ہوگیا اور صرف اس وجہ سے کہ جہاں بقیہ ادارے وسائل کی کمیابی کے شکار رہے وہاں افواج پاکستان پر ملک کے محدود وسائل فیاض کے ساتھ خرچ ہوتے رہے تو فرق تو پڑنا ہی تھا۔ وہ جو ایک زمانے میں پاکستان میں کپڑے دھونے کے ایک پائوڈر کا نعرہ تھا وہی صادق آنا ہے یعنی فرق تو صاف ظاہر ہے!
سو میاں صاحب کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر اپنے اس لب و لہجہ میں صداقت پر مبنی تھی کہ پاک و ہند کے مابین مفاہمت اور دوستی ان دونوں ممالک کے عوام کیلئے نیک شگون ثابت ہو سکتی ہے کہ اس صورت میں وہ اربوں ڈالر جو دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف دفاع مضبوط کرنے کے جنون میں بہا رہے ہیں عوام کی فلاح اور بہبود کے کام آ سکیں گے! لیکن پتہ نہیں میاں صاحب کو اس کا ذرہ برابر بھی ادراک اور احساس ہے کہ نہیں کہ جنرل اسمبلی میں بیس منٹ کی تقریر کیلئے ہفتے بھر نیویارک جیسے مہنگے شہر میں قیام کرنا بھی وسائل کا ضیاع ہے اور ایسے عالم اور ماحول میں جب ملکی معیشت گہرے سیاہ بادلوں کے نرغے میں ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپیہ دن بدن یوں گر رہا ہے جیسے اندھے گہرے کنوئیں میں پتھر گرا کرتا ہے!
ستم بالائے ستم یہ کہ میاں صاحب اس بیہودہ روایت کو بھی ترک کرنے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے جس میں ہر حکمران جب بیرون ملک سفر کرتا ہے تو درباریوں، خوشامدیوں اور تالی پیٹنے والو کی فوج ظفر موج لیکر نکلتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شاہِ زمن سفر کر رہے ہوں اور اس میں میاں صاحب نے اپنی طرف سے یہ جدت کی ہے کہ میڈیا کے حاشیہ بردار بھی ان کے قافلے میں بہ کثرت پائے جاتے ہیں تاکہ ان کی مصروفیات سے قوم کو لمحہ بہ لمحہ باخبر اور آگاہ رکھ سکیں کہ وہ کیا کارنامے سرانجام دے رہے ہیں! برات لیکر چلنے کی ریت اس وڈیرے شاہ کے دور سے پڑی جو خود کو قائد عوام کہہ کر سادہ لوح عوام کو سبز باغ دکھاتا رہا!
ذوالفقار علی بھٹو سے پہلے برات لیکر چلنے کی بدعت نہیں تھی۔ ہمیں یاد ہے یہ 1960 کی بات ہے اور ہم ان دنوں بیروت کی جامعہ امریکہ میں زیرتعلیم تھے اور ایوب خان برطانیہ کے سرکاری دورہ پر جا رہے تھے۔ پی آئی اے کی معمول کی پرواز سے جو حسبِ معمول بیروت کے ہوائی اڈے پر رکی تھی، ہم کچھ طلباء ایوب خان سے ملاقات کے شوق میں ایئرپورٹ پہنچ گئے تھے۔ میرے البم میں آج بھی وہ تصویر ہے جو اس موقع پر مرحوم کے ساتھ اتروائی گئی تھی۔ نہ وزیر ساتھ تھے نہ مشیر یا صحافت کے بناسپتی پنڈت، ایوب خان کے ذاتی عملے کے تین چار افراد تھے اور دو ایک دفتر خارجہ کے برہمن۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ اور یہ وہ حکمران تھا جسے آج جمہوریت کے علمبردار جمہوریت کے قافلے پر پہلا شب خون مارنے والا کہہ کر اس کی تضحیک کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں!
بھٹو نے قافلہ لیکر چلنے کی رسم ایجاد کی۔ ان کے پہلے دورہ امریکہ کیلئے جو جہاز بھر کر حواری اور درباری آئے تھے انہوں نے اتنی شاپنگ کی تھی کہ واشنگٹن سے روانگی کے وقت جہاز میں اس وقت بھی درباریوں کا سامان لادا جا رہا تھا جب وزیراعظم قدم رنجہ فرما چکے تھے۔ پروٹوکول کے مطابق جہاز کو ان کی تشریف آوری کے فوراً بعد روانہ ہو جانا چاہئے تھا۔ تاخیر کا نزلہ بیچارے سلطان محمد خان صاحب پر گرا جو اس وقت امریکہ میں سفیر تھے۔ فرعون صفت وزیراعظم کا فیصلہ یہ تھا کہ سفیر کی نااہلی سے تاخیر ہوئی تھی۔ وہ وزیراعظم کہاں تھے شہنشاہ تھے سو ان کا حسنِ کرشمہ ساز جو چاہے کر سکتا تھا! اور یہ بدعت ضیاء الحق کے عہد میں، جو بھٹو کے برعکس خاکساری میں اپنا جواب آپ تھے۔ یہاں تک پہنچی کہ ان کے ایک سرکاری دورہ میں غالباً جاپان کا تھا۔ ان کے چند رشتے دار جو بھارتی پنجاب میں رہتے تھے اور ہندوستانی پاسپورٹ پر سفر کر رہے تھے سرکاری مہمان بنا کر لے جائے گئے۔ نائوکس نے ڈبوئی خواجہ خضر نے!
میاں صاحب کے قیام نیویارک کی طوالت کا ایک عذر یہ ہے کہ 29 ستمبر کو ان کی منموہن سنگھ سے ناشتے پر ملاقات طے پائی ہے۔ یہ سطور اس ملاقات سے چند گھنٹے پہلے لکھی جا رہی ہیں سو ہم نہیں کہہ سکتے کہ صبح سویرے میاں صاحب منموہن کو ناشتے پر پائے کھلائیں گے یا نہاری میاں صاحب اپنے زبان کے چٹخارے کیلئے بہت بدنام ہیں۔ اب کیا پتہ کہ منموہن جی ان کیلئے حلوہ پوری کا بندوبست کرتے ہیں یا نہیں۔ اس موضوع پر ہم وثوق سے تو اگلے ہفتے ہی کچھ کہنے کے قابل ہونگے۔ لیکن ہاں یہ طے ہے کہ ملاقات رسمی ہی رہے گی۔ اس لئے نہیں کہ منموہن کے دل میں میل ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کے دورِاقتدار کی شام قریب ہے۔ ہندوستان میں اگلے سال مئی میں چنائو ہوگا اور آثار یہی ہیں کہ کانگریس کا بوریا بستر بندھ جائے گا اور میاں نوازشریف کو نئے سرے سے منموہن کے جانشین کے ساتھ شروعات کرنی ہوں گی۔ لیکن یہ رسمی ملاقات میاں صاحب کا حوصلہ بڑھانے کے کام ضرور آئے گی!
حوصلہ تو میاں صاحب کا اصل اس وقت بڑھتا اگر صدر اوباما اس دورہ میں انہیں شرفِ ملاقات بخش دیتے جیسے انہوں نے منموہن سنگھ کو ملاقات کیلئے مدعو کیا اور وہ بھی وہائٹ ہائوس میں۔ میاں صاحب بیچارے نے بہت سرتوڑ کوشش کی کہ نیویارک میں ہی چند ثانیوں کیلئے سہی جنابِ اوباما سے ان کا معانقہ ہو جائے لیکن اوباما جی ٹھینگا دکھا گئے۔ وہ اصل میں میاں صاحب کو جتانا چاہتے تھے کہ ان کی نظر میں بھارت کا مرتبہ کیا ہے۔ برابری کا۔ اور پاکستان کی کیا حیثیت ہے… وہی جو ایک باجگزار، ایک فدوی، ایک غلام کی ہوتی ہے۔ بھلا کشکول تھامے ہوئے گداگر کی کیا حیثیت کہ اسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے! لیکن اوباما صاحب نے میاں صاحب کو یہ تسلی دلاسہ دیا ہے کہ وہ انہیں اگلے مہینے یعنی اکتوبر کی تئیس تاریخ کو اپنے اوول آفس میں ملاقات کا اعزاز بخشیں گے۔ ان سے ون آن ون ملاقات کرینگے تاکہ میاں صاحب کا ملال دھل جائے اور چہرہ روشن و تابناک ہو جائے!
میاں صاحب کیلئے ملاقات کا یہ وعدہ بھی کم نہیں۔  یار کے وعدے پر جینا بھی تو زندگی کی نوید ہے۔ سومیاں صاحب نیویارک سے خالی ہاتھ لوٹ رہے بلکہ اسبابِ سفر میں اوباما صاحب کا وعدہ باندھ کر لیجا رہے ہیں۔ اگلے مہینے وہ پھر بارات لیکر ادھر کا رخ کرینگے۔ میاں صاحب کے درباریوں کی تو چاندی ہی چاندی ہے۔ امریکہ یاترا اور وہ بھی ہر مہینے، قسمت کے سکندر ہیں۔۔۔۔۔!!

کرامت غوری
اردو ٹائمز

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں