پرویز مشرف واپس کیوں آئے؟

پرویز مشرف واپس کیوں آئے؟

لکھنا مجھے عمران خان کے لاہور والے جلسے پر تھا۔ نام نہاد تجزیہ نویسی کے بجائے یہ خواہش کچھ اس لیے بھی زیادہ تھی کہ مدت ہوئی ہے تحریک انصاف کے انٹرنیٹ غازیوں سے گالیاں کھائے ہوئے۔ مگر مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ گزشتہ چند روز سے اسلام آباد میں مقیم جس غیر ملکی صحافی یا سفارتکار سے مل رہا ہوں وہ جاننا صرف یہ چاہ رہا ہے کہ اتنے برس پاکستان سے باہر نسبتاََ مزے کی زندگی گزارتے ہوئے جنرل مشرف نے ’’اچانک‘‘ اپنے ملک واپس آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

مشرف صاحب نواز شریف یا محترمہ بے نظیر کی طرح غیر ملک میں رہتے ہوئے بھی پاکستان میں متحرک اور جاندار نظر آنے والی جماعتوں کے سربراہ ہوتے تو عام انتخابات کے قریب ان کی واپسی کو سمجھا جا سکتا تھا۔ آل پاکستان مسلم لیگ کا حال تو اس ضمن میں اپنے لال حویلی والے ٹی وی اسٹار سے بھی کہیں زیادہ بُرا ہے۔ وہ صرف ایم کیو ایم کی مہربانی سے قومی اسمبلی میں اس نشست پر کامیاب ہوکر آ سکتے ہیں جو 2008 میں خوش بخت شجاعت کے حصے میں آئی تھی۔ چترال کا شاہی خاندان ان کا بہت بڑا مداح ہے۔ لواری ٹنل کی تکمیل کی وجہ سے وہاں کے کافی رہائشی بھی مشرف صاحب کے لیے شکر گزاری کے جذبات رکھتے ہیں۔

مگر وہاں پچھلے کچھ برسوں سے جماعت اسلامی نے بڑا کام کیا ہے۔ سوات میں ملٹری آپریشن کے بعد بہت سارے شدت پسند بھی چترال میں پناہ گزین ہو گئے ہیں۔ ان کے کافی دوست اور مہربان چترال کے پار والے افغانی علاقوں میں بڑے طاقتور انداز میں موجود ہیں۔ یہ لوگ جنرل مشرف کی انتخابی مہم کے دوران کافی پریشانیاں پیدا کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ ان دو حلقوں کے علاوہ میرا نہیں خیال کہ آیندہ کی پارلیمان میں پہنچنے کے خواہاں کافی امیدوار مشرف صاحب کواپنے حلقوں میں ووٹ اکٹھا کرنے کے لیے تقاریر کرنے کی دعوت دینا چاہیں گے۔

میرے جیسے بہت سارے لوگوں کے لیے یہ بات ہضم کرنا کافی مشکل ہو رہا ہے کہ تقریباََ دس سال تک پاکستان میں کن فیکون والے اقتدار کے مزے لینے کے بعد جنرل مشرف آیندہ والی قومی اسمبلی میں محض ایک رکن اسمبلی کی طرح بیٹھنے کے خواہش مند ہوں گے۔ ان کا ہدف اور مقصد یقیناً کچھ اور اس سے کہیں زیادہ ہے جو بظاہر نظر آ رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مقصد یا ہدف کیا ہے؟

جنرل مشرف صاحب 2002میں میرے ایک سوال کے بعد مجھ سے ناراض ہو گئے تھے جو میں نے ایک اخباری پینل کے لیے انٹرویو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے بارے میں ان سے کر ڈالا تھا۔ عراق پر جب امریکا نے چڑھائی کرنے کی تیاری شروع کی تھی تو میں ایک ٹیلی وژن کے لیے اُردن کے دارالحکومت عمان میں لوگوں کے ایک ہجوم سے سوالات کر رہا تھا جو ایک مسجد میں جمعے کی نماز ادا کرنے کے بعد امریکا کی مذمت میں جلوس نکالنا چاہ رہا تھا۔ ان لوگوں نے میرے پاکستانی ہونے کی وجہ سے جنرل صاحب کے لیے ذرا غیر مہذب زبان میں کچھ پیغامات دیے۔ وہ پیغامات ٹی وی اسکرین پر چلے تو جنرل صاحب چراغ پا ہو گئے۔

اس دن کے بعد سے کبھی معاف نہیں کیا۔ میں نے بھی ان سے رحم کی بھیک مانگنے کا کبھی تردد نہیں کیا۔ ان کی طاقت کے جلوے ان کے اقتدار کے آخری دنوں تک بھگتا رہا۔ اس کے باوجود کچھ لوگ تھے جن کے ذریعے مجھے ان کے دربار سے متعلق خبریں مل جایا کرتی تھیں۔ اب وہ لوگ بھی مشرف صاحب سے دور ہو چکے ہیں۔ رپورٹر ہوتے ہوئے مجھے اندازے لگانے کی عادت نہیں اور سفارتکاروں کو اندازے لگانے کی تنخواہ نہیں ملتی۔ وہ ’’اندر کی بات‘‘ جاننے کے لیے ہر طرح کے حربے اختیار کیا کرتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ سفارتکاروں سے میں نے ازخود رابطے کر کے جنرل مشرف کے اصل ارادوں کو جاننے کی بڑی کوشش کی۔

چند ایک سابقہ فوجیوں سے بھی ملا جو آج کل کچھ حاضر لوگوں کے ساتھ باقاعدگی سے گالف کھیلتے اور شام کی چائے پیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کوئی کام کی بات نہ بتا پایا۔ میں شاید اس معاملے میں کورا ہی رہتا۔ مگر پھر ایک کھانے میں ایک غیر ملکی صحافی سے ملاقات ہو گئی۔ انھوں نے ہمارے خطے کے بارے میں بڑے عرصے سے کبھی کبھار مضامین لکھنے والے ایک مغربی سفارتکار سے رابطہ کرنے پر اُکسایا۔ مجوزہ شخص سے ٹیلی فون اور ای میلوں کے ذریعے بات چیت کے بعد میں یہ بات لکھنے کی ہمت کر سکتا ہوں کہ جنرل مشرف پاکستان میں کچھ چیزیں ’’ثابت‘‘ کرنے آئے ہیں۔

وہ چیزیں ثابت کرتے ہوئے وہ اپنی عمر کے اس حصے میں ان چند لوگوں سے بدلہ لینے کی آگ میں جل رہے ہیں جنہوں نے ان کے خیال میں ان کے ساتھ ’’دغا‘‘کیا اور ان کے ’’احسانات‘‘ کو بھول گئے۔ ان کے ذہن میں ہر گز کوئی بڑی سیاسی جنگ لڑنے کا  لاوا نہیں پک رہا۔ مسئلہ ذاتی انا کا ہے اور مقصد کچھ ذاتی نوعیت ہی کے بدلے چکانا ہے۔ نواز شریف کی ذات سے کہیں زیادہ پر خاش انھیں کچھ اور لوگوں سے ہے اور وہ لوگ اس سال کے اختتام تک ان ہی جیسے ’’عام پاکستانی‘‘ ہو جائیں گے۔ ان  کے پیچھے کسی ریاستی ادارے کی قوت نہیں ہو گی۔

میری بڑی خواہش تھی کہ میں فی الوقت اس سے کچھ زیادہ لکھ سکتا۔ مگر یہاں سے آگے جو مقام ہیں وہاں تک اُڑان بھرنے کی میرے پروں میں تو ہرگز سکت نہیں۔ فی الحال خراج تحسین پیش کیجیے اس جمہوریت کو جسے ہم روز بُرا بھلا کہتے ہیں۔ مگر بھول جاتے ہیں کہ اسی کے طفیل ایک نہیں دو مرتبہ آئین کو توڑنے والا آزاد عدلیہ سے ضمانت قبل از وقت گرفتاری کروانے کے بعد اپنے ملک لوٹ کر آزادی سے گھوم پھر رہا ہے۔ جنرل مشرف کی حفاظت کا انتظام بھی بہت معقول ہے۔ ان کی خوش بختی کا مقابلہ صرف اس وقت سے کر لیجیے جب افتخار چوہدری صاحب کی جسٹس رمدے کی جرأت رِندانہ کی بدولت پہلی بحالی کے بعد نواز شریف نے وطن آنے کی کوشش کی تھی اور ۔۔۔ تاریخ بہت ظالم چیز ہے۔ اسی لیے لوگ اسے بھول جانا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔

نصرت جاوید


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں