توہینِ رسالت اور اسلام دشمنوں کے عزائم

توہینِ رسالت اور اسلام دشمنوں کے عزائم

ادامی باغ لاہور کے علاقے جوزف کالونی میں مبینہ طور پر ایک عیسائی ساون مسیح نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخانہ کلمات کہے۔

اس کے خلاف ایک مسلمان شاہد عمران نے توہینِ رسالت کا مقدمہ مقامی تھانے میں درج کرادیا جس کے نتیجے میں پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا، پھر قانون کے مطابق عدالت سے اس کا جوڈیشل ریمانڈ حاصل کرکے تفتیش کے لیے اسے تھانے کی حوالات میں بند کردیا۔ یہاں تک یہ ساری کارروائی قانونی تھی، اگرچہ مغرب کے نام نہاد آزادی پسند اسے بھی ’’ظلم‘‘ قرار دیتے ہیں، مگر ان وحشی درندوں کو کب سمجھ میں آئے گا اور کون سمجھائے گا کہ سب سے بڑا ظلم تو ڈیڑھ ارب آبادی کو ناقابلِ برداشت ایذا پہنچانا ہے جو مغرب میں ایک فیشن سا بن گیا ہے۔
قانونی کارروائی کے ساتھ عوامی احتجاج نے جو ہڑبونگ اور لاقانونیت کی راہ اپنائی، اسلام کے کسی قاعدے، ضابطے اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی پیمانے سے اس کا جواز نہیں ملتا۔ ایک شخص نے جرم کیا، اسے عدالت میں شواہد کے ساتھ ثابت کرکے قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دلوانا تو معاشرے اور نظام کا فرض ہے۔ رہا وہ طریقہ جو بادامی باغ میں 9مارچ کو اپنایا گیا تھا، اس کو نرم ترین الفاظ میں بھی ظلم و سفاکیت ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک جرم جو اس بستی کے ایک فرد نے کیا ہے اور جو بلاشبہ انتہائی قبیح ہے، بے گناہ انسانوں کے گھروں اور سازو سامان کو بلا امتیاز نذرِ آتش کردینے کا جواز فراہم ہرگز نہیں کرتا۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق پولیس کی بھاری نفری دیگر تھانوں سے بھی موقع پر آگئی تھی مگر وہ خاموش تماشائی بنے رہے۔ مسیحی گھروں کے علاوہ کچھ قریبی مسلم گھرانوں کا سامان بھی لوٹ لیا گیا۔
جس روز یہ المناک سانحہ رونما ہوا، اسی روز پشاور میں ایک مسجد میں بم دھماکا ہوا۔ خطیبِ مسجد اور سات نمازی شہید جبکہ27 نمازی شدید زخمی ہوگئے۔ کوئٹہ اور کراچی میں گزشتہ ایام میں یکے بعد دیگرے ہونے والے حادثات و سانحات کو بھی اگر نظر میں رکھا جائے اور راجا پرویزاشرف کی ذلت آمیز بھارت یاترا کے دوران بھارتی آرمی چیف کی دھمکیوں کا بھی جائزہ لیا جائے تو کئی عقدے کھل جاتے ہیں۔ یو این او میں نام نہاد سیکولر اور اینٹی اسلام قوتوں کا دو روز قبل تحفظِ ناموسِ رسالت قانون کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا، سبھی کے ڈانڈے آپس میں ملتے ہیں۔ امریکا، بھارت، اسرائیل وہ شیطانی مثلث ہے جس کو پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ان کے گماشتے، پٹھو اور حامی پاکستان پر حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں مگر اس سے بھی ان شیطانی قوتوں کی تسلی نہیں ہوپائی۔ وہ پاکستان کی سالمیت اور وجود ہی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سارے واقعات اسی عالمی سوچ اور ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ ان تینوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں، ایجنٹ اور قاتل جتھے ہماری سرزمین پر موجود ہیں۔ یہ ہمارے جسدِ ملّی کا سرطان بن چکے ہیں۔ ان کا بھانڈا پھوڑنا اور ان کی شیطانی حرکتوں کا سدباب کرنا موجودہ سیاستدانوں اور عسکری سیٹ اَپ کے بس میں نہیں۔ اس کے لیے ملک میں ایک انقلابی سوچ اور حقیقی انقلاب کی ضرورت ہے۔ یہ انقلاب سرخ نہیں سبز ہونا چاہیے، مسلح نہیں قانونی و پُرامن ہونا چاہیے۔ اس کے لیے پاکستان کے ہر شہری کو سمجھ لینا چاہیے کہ ووٹ کی پرچی بندوق کی گولی سے زیادہ بااثر ہوتی ہے۔
جہاں تک اس ناخوشگوار واقعہ کا تعلق ہے، اس کا یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ نے اسے اس انداز میں پیش کیا ہے اور کئی دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہے گا کہ پاکستان میں غیر مسلم، بالخصوص عیسائی آبادی مظلوم، بنیادی انسانی حقوق سے محروم اور کسی قسم کے تحفظ کا قانونی حق نہیں رکھتی۔ دوسری طرف میڈیا میں ملزم ساون مسیح کو حوالات میں پابندِ سلاسل دکھاکر پاکستان اور اسلام کے خلاف مزید زہریلے پروپیگنڈے کا طویل سلسلہ چلتا رہے گا۔ مغربی دانش ور اور حکمران یہ سارا ڈرامہ رچاکر تحفظ ناموسِ رسالت کا قانون منسوخ کروانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، اس کے احکام اس سارے تناظر میں بالکل واضح اور محکم ہیں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے کو معاف کردینے کا اختیار کسی کے پاس بھی نہیں۔ اس جرم کا ارتکاب کرنے والا لازماً سزا پائے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں اسے سزا اسلامی قانون کے مطابق مسلم عدلیہ دے گی اور انتظامیہ اس کا نفاذ کرے گی۔ آخرت میں یہ سزا اللہ کی عدالت سے صادر ہوگی۔ کسی انسان یا ہجوم کو اسلامی ضابطۂ قانون کے مطابق خود سے سزا دینے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہو تو لاقانونیت اور انارکی کا راستہ کھل جائے گا، جو اسلام کے منشا کے خلاف ہے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اسلامی معاشرے اور حکومت میں تمام ذمی اور اقلیتی آبادیاں اللہ اور اس کے رسول کے ذمے اور حفاظت میں ہوتی ہیں۔ اگر کسی نے ان کا حق چھینا، ان کا ناحق خون گرایا، ان کا مال کھالیا یا ان پر کوئی بھی زیادتی کی تو ’’میں اس کی طرف سے قیامت کے روز خود دربارِ ربانی میں استغاثہ کروں گا اور ظالموں کو سزا دلوائوں گا۔‘‘ یہ اور اس جیسے دیگر متعدد ارشادات بالکل واضح ہیں کہ ہڑبونگ، آتش زنی اور لوٹ مار سے اقلیتوں کو ہراساں کرنا یا کسی بھی حق سے محروم کرنا نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی امتی کا کام نہیں ہوسکتا۔ مجرم کو سزا دلوانا ہے تو اس کے لیے بھی اسلام کا قانون اور نظام ہی اپنانا پڑے گا۔ اندریں حالات علما اور دانش وروں، اخبارات و میڈیا اور منبر و محراب سب کا فرض ہے کہ قوم کی درست راہنمائی کریں اور کسی بھی غیر اسلامی حرکت کی، خواہ غیر مسلم اس کا مرتکب ہو یا مسلمان، حوصلہ افزائی نہ کریں۔
جوزف کالونی کے اس افسوس ناک سانحہ کے بعد صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے متاثرین کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ پانچ پانچ لاکھ روپے مرکز اور صوبہ دونوں ان متاثرہ خاندانوں کو دیں گے۔ اعلان کے مطابق چیک دیے جائیں گے یا نہیں، کون جانے… اور پھر یہ چیک کیش بھی ہوسکیں گے یا نہیں، اس کا جواب وہ لوگ دے سکتے ہیں جن کو پہلے کبھی چیک دیے گئے اور وہ بالآخر تنگ آکر ان چیکوں کو پھاڑ دینے پر مجبور ہوگئے۔ انتخابات سر پر ہیں اور یہ اعلانات سیاسی رشوت کے زمرے میں آتے ہیں۔ این جی اوز کی ذمہ داری ہے کہ اس نازک موقع پر آگے بڑھیں اور متاثرین کی بے لوث خدمت کریں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ گستاخِ رسول اور لاقانونیت کا راستہ اپنانے والے عناصر، دونوں کو قانون کے مطابق سزائیں ملیں تاکہ آئندہ لوگوں کو عبرت ہو۔

روزنامہ جسارت


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں