کراچی میں علمائے کرام کی شہادتیں

کراچی میں علمائے کرام کی شہادتیں

کراچی میں علماءو طلبہ کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف جمعہ8 فروری کوکامیاب ہڑتال کی گئی۔ شہر کی بیشتر تاجر تنظیموں، پبلک ٹرانسپورٹ، نجی اسکولوں، جماعت اسلامی، اہل سنت و الجماعت، جے یو آئی (ف)،

جماعت التوحید والسنة، جمعیت علمائے پاکستان سمیت تقریباً تمام مذہبی جماعتوں نے اس ہڑتال میں حصہ لیا۔ کراچی کے شہریوں نے مذہبی و سیاسی جماعتوں کی اپیل پر کسی جبر و تشدد کے بغیر ہڑتال میں بڑے پیمانے پر شرکت کرکے یہ ثابت کردیا کہ عوام کی اکثریت ان کی بات سنتی اور ان کے مطالبات سے متفق ہے۔ ہڑتال کے موقع پر اِکّا دُکّا جلاﺅ گھیراﺅ کے واقعات بھی پیش آئے تاہم مجموعی طور پر ہڑتال پُر امن رہی۔ دیگر سیاسی جماعتیں ہڑتال کی کال پر ایک رات قبل ہی شہر میں جلاﺅ گھیراﺅ اور ہوائی فائرنگ کرکے تجارتی مراکز بند کرادیتی ہیں۔ تاکہ شہر میں خوف و ہراس پیدا ہو اور کوئی اپنا کاروبار نہ کھول سکے۔ دینی جماعتوں کی اپیل پر کی جانے والی ہڑتال میں ایسا کوئی بھی منفی ہتھکنڈا استعمال نہیں کیا گیا۔

گویا یہ ایک عوامی ریفرنڈم تھا جس میں عوام نے حکمرانوں کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کراچی کے شہری آئے روز کی ٹارگٹ کلنگ، بڑھتی ہوئی بدامنی، لاقانونیت اور بھتا خوری سے تنگ آچکے ہیں۔ انہیں حکمرانوں کی بے حسی کا بھی بخوبی احساس ہے۔ انہیں موجودہ حکمرانوں سے کسی خیر کی توقع بھی نہیں ہے۔ جو حکومت 5 برس گزرنے کے باوجود اپنی پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو بے نقاب نہ کرسکی۔ جو حکومت اپنے 5 سالہ دور میں سانحہ کارساز کی تفتیش نہ کرسکی، جوبے نظیر کے استقبالی جلوس پر حملے کی تفتیش کرنے والے افسر کی حفاظت نہ کرسکی۔ جن حکمرانوں کو شہریوں کے جان و مال کی حفاظت سے زیادہ اپنے بینک بیلنس بڑھانے کی فکر پڑی ہوئی ہے، ایسے حکمرانوں کو حکومت میں رہنے کا کیا حق ہے؟

دوسری جانب کراچی بدامنی کیس سے متعلق سپریم کورٹ نے بھی اپنے تحریری حکم نامے میں کہا ’واضح ہوگیا کہ وفاقی حکومت کو کراچی کے امن سے کوئی دلچسپی نہیں، کراچی جل رہا ہے مگر کسی کو کوئی فکر نہیں۔‘ جسٹس جواد نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ کراچی کی صورت حال انتہائی تشویش ناک اور حالات قابو میں نہیں آرہے، حکم جاری ہورہے ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہورہا۔ آئی جی سندھ فیاض لغاری نے عدالت کو بتایا کہ لوگ گواہی کے لیے تیار نہیں۔ اب تک 127 پولیس اہلکار قتل کیے جاچکے ہیں، 114 مقدمات درج ہوئے، 35 ملزمان کی شناخت ہوئی،جب کہ 5 ملزمان مقابلے میں مارے گئے اور 69 مقدمات کے چالان عدالتوں میں پیش ہوئے، 182 ٹارگٹ کلر بھی پکڑے گئے۔ عدالت نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ قتل کی کارروائیاں ایک سال کے دوران 1800 سے بڑھ کر 2300 تک جاپہنچی۔

اس منظر نامے سے واضح ہوتا ہے کہ کراچی میں امن موجودہ حکومت کی ترجیح ہی نہیں ہے، لوگ مارے جارہے ہیں لیکن قاتل دندناتے پھررہے ہیں۔ حکمرانوں نے بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے، جس ہفتے کراچی میں 50 سے 60 افراد مارے جاتے ہیں حکمران بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ کم ہوگئی ہے۔ عدالتی احکام پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔ شہریوں کو درندوں اور قاتلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ علمائے کرام کو دن دہاڑے گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی ویڈیو ساری دنیا دیکھ لیتی ہے، مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے تاحال قاتلوں کو پکڑنے میں ناکام ہیں۔

ان حالات میں مذہبی جماعتوں نے مجبور ہوکر ہڑتال کی، جس کے بعد جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاﺅن کے رئیس و شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، جے یو آئی (ف) کراچی کے امیر قاری عثمان، اہل سنت والجماعت کے رہنما ڈاکٹر محمد فیاض نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس میں حکومت کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر علماءکے قاتل گرفتار نہ ہوئے تو احتجاجی تحریک کے دوسرے مرحلے پر کراچی کے چوکوں و چوراہوں اور شاہراہوں پر دھرنے دیں گے اور مطالبات کی منظوری تک سڑکوں پر ہی درس و تدریس کریں گے۔

موجودہ حکومت کا چل چلاﺅ ہے، انتخابات قریب آرہے ہیں، اس مرحلے پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے مذکورہ تحریک شروع کی گئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگز کے خاتمے، کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلاامتیاز آپریشن، اسلحے اور بارود کے ڈھیر کے خاتمے تک کراچی کے حالات جوں کے توں رہیںگے۔

ہماری مذہبی و سیاسی جماعتوںکو بھی چاہیے کہ موجودہ احتجاجی تحریک کو صرف انتخابات میں عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے استعمال ہونے سے بچائیں۔ کیوں کہ بعض لوگوں کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا جارہا ہے کہ کراچی میںمولانا اسلم شیخو پوری، مولانا سعید احمد جلال پوری سمیت مدارس کے طلبہ پر پے درپے حملے کیے گئے، علماءکرام کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ اس وقت ہی احتجاجی تحریک شروع کردینی چاہیے تھی…. سو دیر آید درست آید کے مصداق ہماری نیک تمنائیں اور ہمدردیاں مذہبی جماعتوں اور مدارس کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاطت فرمائے۔ آمین

(عثمان حسن زئی)
کراچی اپ ڈیٹس


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں